سفارتکاری

غلط وقت میں خان کا دورہٴ ماسکو روس کے ساتھ تعلقات کے نتائج کا پیش خیمہ

زرک خان

24 فروری کو روس کے یوکرین پر حملے کے روز روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات کر رہے ہیں۔ [میخائل کیمینٹژیو/سپوٹنک/اے ایف پی]

24 فروری کو روس کے یوکرین پر حملے کے روز روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات کر رہے ہیں۔ [میخائل کیمینٹژیو/سپوٹنک/اے ایف پی]

تجزیہ کاروں اور سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ عین روسی افواج کے یوکرین پر حملے کے وقت پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کا روس کے صدر ویلادیمیر پیوٹن سے ملاقات کی غرض سے غلط وقت پر دورہٴ ماسکو ممکنہ طور پر اسلام آباد کے واشنگٹن اور برسلز کے ساتھ تعلقات خراب کر دے گا۔

23 فروری کو شروع ہونے والے خان کے دو روزہ دورے پر پاکستان میں بھاری پیمانے پر تنقید ہو رہی ہے، جبکہ حزبِ اختلاف اور تجزیہ کار اس کی افادیت پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔

جمعرات کو ان کی آمد کے چند ہی گھنٹے بعد روسی افوج نے متعدد محاذوں سے یوکرین پر حملہ کردیا اور 1945 سے اب تک یورپ کی سب سے بڑی جنگ کا آغاز کر دیا۔

جمعرات کو خان کی پیوٹن کے ساتھ ملاقات سے قبل ہی روس کے یوکرین پر حملے کی وسیع پیمانے پر بین الاقوامی مذمت کی وجہ سے ان کا دورہ ماند پڑ گیا تھا۔

پاکستان کی حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے پیوٹن سے ملاقات سے متعلق خان پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ اس دورہ کے وقت کی ترتیب ایک "سفارتی تباہی" تھی۔

حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت، پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما اور سینیٹ کی ایک رکن، شیری رحمان نے کہا، "خان جنگ کے دہانے پر روس گئے۔"

انہوں نے کہا، "خان کا دورہٴ روس درست وقت پر نہیں تھا کیوںکہ یورپ جنگِ عظیم دوئم کے بعد سے اب تک کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے۔"

بین الاقوامی تعلقات پڑھانے والے کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک معلم زبیر احمد نے کہا کہ یوکرین پر حملے کے دوران خان کی پیوٹن سے ملاقات یہ تاثر دیتی ہے کہ اسلام آباد اس تنازع میں روس کی حمایت کر رہا ہے۔

احمد نے کہا، "بین الاقوامی برادری یوکرین پر حملے کرنے کی وجہ سے پیوٹن کی مذمت کر رہی ہے، جبکہ اسلام آباد دورہٴ ماسکو کی وجہ سے خود کو عالمی طور پر تنہا کر رہا ہے۔"

احمد نے کہا، "خان اسی طرح اپنا دورہٴ ماسکو مؤخر کر سکتے تھے جیسے پیوٹن نے 2012 میں بغیر کوئی وجہ بتائے اپنا دورہٴ اسلام آباد منسوخ کیا تھا۔

یک جہتی خارجہ پالیسی

دورہٴ ماسکو سے قبل پاکستانی سیکیورٹی تجزیہ کاروں نے خان کو اپنے منصوبہ پر نظرِ ثانی کرنے کی تنبیہ کی اور انہیں روس کا دورہ کر کے یک جہتی خارجہ پالیسی کا پیغام دینے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا۔

گزشتہ بدھ کے روز محکمہٴ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے روزانہ کی ایک بریفنگ میں کہا، "امریکہ نے روس کے "یوکرین پر ازسرِ نو حملے" سے متعلق پاکستان کو اپنا موقف دے دیا ہے۔

پرائس نے خان کی پیوٹن کے ساتھ ملاقات سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا، "ہمارا ماننا ہے کہ یہ دنیا بھر میں ہر ذمہ دار ملک کی ذمہ داری ہے کہ اس امر سے متعلق خدشات کا اظہار کرے، اعتراض کا اظہار کرے جو بظاہر پیوٹن یوکرائن سے متعلق اپنے ذہن میں رکھے ہوئے ہیں۔"

تجارت یا معاشی معاونت کے تناظر میں پاکستان کے روس کے ساتھ محدود تعلقات ہیں، جبکہ یورپی یونیئن (ای یو) اور امریکہ، ماسکو اور یہاں تک کہ بیجنگ کی نسبت بھی پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار رہے ہیں۔

2011 میں روس کا دورہ کرنے والے آخری پاکستانی رہنما صدر آصف علی زرداری تھے۔ قبل ازاں سابق وزیرِ اعظم میاں محمّد نواز شریف نے مارچ 1999 میں دورہ کیا تھا۔

کراچی ایوانِ صنعت و تجارت کے ایک رکن جمیل میمن نے کہا، "خان کو اپنے دورہٴ ماسکو سے گریز کرنا چاہیئے تھا کیوں کہ یہ ان کے ملک کی معیشت کے لیے سنجیدہ تنائج کا حامل ہو سکتا ہے۔"

ایک بڑا تجارتی شراکت دار ناراض

خان یورپی یونیئن کو مخالف بنانے کا خطرہ مول لے رہے ہیں، جو روس کی نسبت پاکستان سے بہت زیادہ مصنوعات خریدتا ہے۔

یورپی یونیئن یوکرین کو لڑاکا جیٹ طیارے فراہم کر رہا ہے۔

یورپی یونیئن کی ویب سائیٹ کے مطابق ، پاکستان یورپی یونیئن کی جنرلائزڈ سکیم آف پریفرینسز پلس (جی ایس پی پلس) کی جانب سے پیش کیے جانے والے تجارتی مواقع کا ایک بڑا استفاذہ کنندہ ہے۔ اور "یورپی یونیئن پاکستان کا دوسرا بڑا تجارتی شراکت دار ہے، جو کہ 2020 میں پاکستان کی کل برآمدات کے 14.3 فیصد پر مشتمل ہے اور پاکستان کی کل برآمدات کا 28 فیصد جذب کرتا ہے۔"

مثال کے طور پر یورپی یونیئن کی جانب سے رپورٹ کیے جانے والے حالیہ سال، 2020 میں پاکستان نے مصنوعات کی مد میں یورپی یونیئن کو 5.5 بلین یورو(ایک ٹریلین پاکستانی روپے) کی برآمدات کیں۔ Tradingeconomics.com کے مطابق، پاکستان نے 2021 میں مصنوعات کی مد میں روس کو صرف 175.2 ملین ڈالر (31.1 بلین پاکستانی روپے) کی برآمدات کیں۔

میمن نے تجویز دی کہ اسلام آباد یورپی یونیئن اور امریکہ سے استفاذہ حاصل کرتے ہوئے تناؤ کی اس صورتِ حال کا استحصال کرے اور بطورِ خاص چین اور روس کے ساتھ اپنی سفارتی ترجیحات پر نظرِ ثانی کرے۔

ایک سیاسی تجزیہ کار عائشہ اعجاز خان نے ہفتہ کو ڈان میں اپنے مقالہ میں کہا، "پاکستان کے بڑے تجارتی شراکت دار امریکہ اور یورپی ممالک ہیں۔ انہیں [پاکستانی رہنماوں کو] یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ ایف اے ٹی ایف [فنانشل ایکشن ٹاسک فورس] میں پاکستان کی درجہ بندی اور [جی پی ایس پلس] درجہ کا تعین بڑی حد تک مغربی طاقتیں کرتی ہیں۔ اور باوجود اس کے پاکستان کو مغرب سے منحرف کرنے کے لیے۔۔۔۔ ایک ناقابلِ فہم مہم محسوس کی جا سکتی ہے۔"

انہوں نے کہا، "اگرچہ خان کے دورہٴ ماسکو سے کچھ حاصل نہ ہو سکا ہے، تاہم اس نے مغربی صدر ہائے مقام میں اس تصور کی تجدید کر دی ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی بے سمت ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500