ماحول

کئی ممالک کی جانب سے ایران سے برآمدی پیداوار مسترد، اندرونِ ملک استعمال پر خدشات میں اضافہ

از بابک دشتی

لوگ 14 اپریل 2021 کو ایران کے دارالحکومت تہران کے تاجرش بازار میں ایک تاجر کے کھوکھے سے اجناس خریدتے ہوئے۔

لوگ 14 اپریل 2021 کو ایران کے دارالحکومت تہران کے تاجرش بازار میں ایک تاجر کے کھوکھے سے اجناس خریدتے ہوئے۔

حالیہ ہفتوں میں، بہت سے ممالک نے ایرانی درآمدی پیداوار کو کھادوں کے ملاوٹی ذرات اور پھپھوندی اور قرنطینہ کے ناکافی وقت کے حوالے سے مسترد کر دیا۔

بھارت، روس، ازبکستان، متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، عمان اور ترکمانستان نے نومبر کے بعد سے ایران سے آنے والے پھل اور سبزیاں یا تو واپس کر دیے ہیں یا ان کی درآمد پر پابندی عائد کر دی ہے۔

اس سے ان خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے کہ مسترد شدہ اجناس اب ایران کے لوگوں کو رعایتی قیمت پر فروخت کی جا رہی ہیں یا غریب ایرانیوں میں تقسیم کی جا رہی ہیں۔

نومبر میں، ازبکستان نے ہزاروں ٹن ایرانی آلو کو کیڑے مار ادویات کی زیادہ مقدار کی وجہ سے مسترد کر دیا تھا۔

اوائل جنوری میں، روس نے ایران سے درآمد کی جانے والی کئی ٹن شملہ مرچ کو مسترد کر دیا تھا۔ [انتخاب]

اوائل جنوری میں، روس نے ایران سے درآمد کی جانے والی کئی ٹن شملہ مرچ کو مسترد کر دیا تھا۔ [انتخاب]

12 دسمبر کو، متحدہ عرب امارات نے ایران سے آنے والا 20 ٹن کیوی فروٹ یہ کہ کر مسترد کر دیا کہ برآمد کرنے سے قبل قرنطینہ کا وقت ناکافی تھا۔ [Hamshahri.ir]

12 دسمبر کو، متحدہ عرب امارات نے ایران سے آنے والا 20 ٹن کیوی فروٹ یہ کہ کر مسترد کر دیا کہ برآمد کرنے سے قبل قرنطینہ کا وقت ناکافی تھا۔ [Hamshahri.ir]

30 دسمبر کو مڈل ایسٹ آئی نے بتایا کہ اس کے بعد جلد ہی انڈین پلانٹ پروٹیکشن اینڈ کوارنٹین آرگنائزیشن نے پھلوں کے اوپر "سفید ذرات کی موجودگی" کی وجہ سے ایرانی کیوی کی برآمد کو مسترد کر دیا تھا۔

نیشنل ایسوسی ایشن آف ایگریکلچرل پروڈیوسرز کے چیئرمین رضا نورانی کے مطابق، روس نے ایران سے شملہ مرچ کی درآمد پر بھی پابندی عائد کر دی ہے کیونکہ کیڑے مار ادویات کی باقیات کی سطح کی سند موجود نہیں تھی۔

اسی طرح یو اے ای سے ایرانی کیوی کی کھیپ واپس بھیجی گئی اور ترکمانستان نے ایران سے آلو کی درآمد پر پابندی لگا دی۔

تازہ ترین واقعے میں، جمہوریہ آذربائیجان نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ ایران سے شملہ مرچ کی درآمد پر پابندی لگا دے گا۔

کچھ ایرانی حکام زراعت میں استعمال ہونے والی چینی کیڑے مار ادویات کے ناقص معیار کو اس کا بنیادی قصوروار قرار دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فصل کی کٹائی کے بعد، زیادہ تر زرعی پیداوار کو مخصوص مدت کے لیے قرنطینہ میں رکھا جانا چاہیے تاکہ کیڑے مار ادویات کم نقصان دہ ہو جائیں، لیکن ایران میں استعمال ہونے والی کیڑے مار ادویات پھلوں اور سبزیوں پر زیادہ دیر تک رہتی ہیں، جو انہیں انسانی استعمال کے لیے زہریلا بنا دیتی ہیں۔

مشہد شہر کی انجمنِ پھل و سبزی فروشان کے سربراہ حیدر ساکن بورجی نے 25 دسمبر کو تجارت نیوز کو بتایا، "تحقیقات کے مطابق، ان زرعی مصنوعات میں استعمال ہونے والی کیڑے مار ادویات چین سے درآمد کی جاتی ہیں"۔

ایرانی پیداوار کے بار بار مسترد ہونے نے سوشل میڈیا پر لطائف اور بحث و مباحثے کو جنم دیا ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی خواہش ہے کہ کھانے کی ہر شئے کو برآمد کیا جائے تاکہ انہیں پتہ چل جائے کہ اس کے مسترد ہونے کی صورت میں انہیں کیا کیا نہیں کھانا چاہیے۔

ایران کی ساکھ کو خطرے میں ڈالنا

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ایران نے گزشتہ سال 6.5 بلین ڈالر کی زرعی مصنوعات برآمد کی تھیں۔

یہ پھلوں اور سبزیوں کے چوٹی کے 10 پیدا کرنے والوں میں شامل ہے، جس میں سیب، ترشاوہ پھل، تربوز اور دیگر خربوزے، انار اور کھجور شامل ہیں۔

اسلامی جمہوریہ کے حکومتی عہدیداروں نے دعویٰ کیا ہے کہ حالیہ مستردگیوں کی بنیادی وجہ "وصول کنندہ ممالک کے قوانین اور ضوابط میں تبدیلیاں اور تجدیدیں" تھیں اور انہوں نے پیداوار میں کسی بھی قسم کے مسائل ہونے کی تردید کی ہے۔

ایران کے محکمۂ خوراک و ادویات (ایف ڈی اے) کے ایک اہلکار فرامرز خدایان نے سرکاری خبر رساں ایجنسی فارس کو بتایا کہ ہر ملک درآمدی مصنوعات کے حوالے سے اپنے اپنے قوانین کے مطابق کام کرتا ہے۔

"زہر کے بقایا اشاریہ کو ایم آر ایل کہا جاتا ہے، جو مقداری طور پر باقی بچ جانے والی زہر کی زیادہ سے زیادہ قابل اجازت حد کا تعین کرتا ہے، اور ہر ملک کا اجازت شدہ اشاریہ دوسرے ممالک کے مقابلے سخت یا نرم ہو سکتا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں، روس اور دیگر ممالک نے حال ہی میں اپنے اشاریئے میں تبدیلی کی ہے۔

انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ ایرانی زرعی مصنوعات آلودہ یا زہر آلود ہیں، اور لوگوں پر زور دیا کہ وہ کھانے پینے کی اشیاء کے بارے میں فکرمند نہ ہوں۔

ملکی خبروں کی ویب سائٹ بہار نیوز کے مطابق برآمد شدہ پیداوار میں زہریلے مادوں کے آثار نے پہلی بار ایران کی زراعت اور برآمدات کی ساکھ کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

ان حالیہ واقعات تک، ایران کے اندر ایک معروف حقیقت یہ تھی کہ "بہترین مصنوعات کو برآمدات کے لیے منتخب کیا جاتا ہے"، اور ایرانی پیداوار، زعفران اور گری دار میوہ جات دنیا کی چند بہترین زرعی مصنوعات کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

'کھاد مافیا'

ماہرین اس تازہ ترین ردِ عمل کا ذمہ دار ان لوگوں کو ٹھہراتے ہیں جنہیں وہ کسانوں کو زیادہ زہریلے مواد فروخت کرنے کے لیے "کھاد مافیا" کا نام دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ "کھاد مافیا" کے زیرِ استعمال کچھ مصنوعات کو دنیا کے دوسرے حصوں میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

ایران میں مقیم ایک وکیل اور کاشتکار نعمت احمدی نے سنہ 2019 میں ایران میں کھاد مافیا کی سرگرمیوں اور زرعی مصنوعات کی پیداوار کے دوران سائنسی عمل کو روکنے میں اس کے کردار کے بارے میں خبردار کیا تھا۔

"مثال کے طور پر، ایسے لوگ ہیں جو پستہ تحقیقاتی مرکز کے رکن ہیں لیکن وہ یا تو کھاد کے درآمد کنندگان ہیں یا کھادوں اور کیڑے مار ادویات کی درآمد میں شراکت دار ہیں، لہٰذا ان کا کام سائنسی زرعی کوائف کی مزاحمت کرنا ہے۔"

ایران کے مقامی ماہرِ زراعت و حیوانات شہریار صادغیان نے کہا: "ناقص معیار کی چینی اور ہندوستانی زہروں اور کیڑے مار ادویات کا استعمال، اور ان زہریلے مادوں کا زرعی مصنوعات پر مسلسل اثر، مسترد شدہ ترسیل کی بنیادی وجوہات ہیں۔ "

ایرانی چیمبر آف کامرس، انڈسٹریز، مائنز اینڈ ایگریکلچر کے سابق وائس چیئرمین پدرم سلطانی نے حکام پر الزام لگایا ہے کہ وہ ایرانیوں کی صحت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

سلطانی نے 25 دسمبر کو ٹویٹ کیا، "دوسرے ممالک، ایک ایک کر کے، ایرانی زرعی مصنوعات واپس کر رہے ہیں۔ وہ اپنے شہریوں کی صحت کا تحفظ کر رہے ہیں۔"

"85 ملین ایرانیوں کو غیر ملکیوں نے اطلاع دی ہے کہ وہ روزانہ زہر کھا رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہمارے لوگ مر رہے ہیں یا بیمار ہو رہے ہیں اور حکام کو کوئی پرواہ تک نہیں ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500