سیاست

چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو پر شام کی رضامندی، مستقبل میں مشکلات کا اشارہ ہے

ولید ابو الخیر

شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد نے 17 جولائی کو دمشق کے ہوائی اڈے پر اپنے چینی ہم منصب وانگ یی کا استقبال کر رہے ہیں۔ [لوئی بیشارا/ اے ایف پی]

شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد نے 17 جولائی کو دمشق کے ہوائی اڈے پر اپنے چینی ہم منصب وانگ یی کا استقبال کر رہے ہیں۔ [لوئی بیشارا/ اے ایف پی]

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین اور شامی حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود، چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) میں شام کی شمولیت کے ملک پر، مختصر اور طویل مدت میں متوقع طور پر منفی نتائج مرتب ہوں گے۔

سرکاری خبررساں ادارے صنعا نے خبر دی کہ شام کا بی آر آئی سے 12 جنوری کو ہونے والا الحاق، شام کے لیے "چین اور دیگر ممالک کے ساتھ تعاون کے وسیع افق کھولنے" میں مدد کرے گا۔

چین کے ذرائع ابلاغ بھی اسی طرح پرجوش تھے۔ چین کی ژنہوا نیوز ایجنسی نے خبر دی کہ شام میں چین کے سفیر نے کہا کہ یہ اقدام "شام میں اقتصادی تعمیر نو اور سماجی ترقی میں سب سے بڑی شرکت فراہم کرتا ہے"۔

تجزیہ کاروں نے المشارق کو بتایا کہ یہ حقیقت سے بعید ہے اور چین کی طرف سے کوئی بھی امداد بھاری قیمت کے بغیر نہیں آتی ہے اور اس کے ساتھ بہت سے مقاصد بندھے ہوتے ہیں، جیسا کہ متعدد دوسرے ممالک کوان کے نقصانات کا بعد میں پتہ چلا ہے ۔

شام اور چین کے حکام 12 جنوری کو اس وقت ایک دستخطی تقریب میں حصہ لے رہے ہیں، جب شام چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو میں شامل ہوا تھا۔ [ثناء نیوز ایجنسی]

شام اور چین کے حکام 12 جنوری کو اس وقت ایک دستخطی تقریب میں حصہ لے رہے ہیں، جب شام چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو میں شامل ہوا تھا۔ [ثناء نیوز ایجنسی]

دمشق میں چین کے سفیر فینگ بیاو شام کے ذرائع ابلاغ سے ملاقات کر رہے ہیں۔ [ثناء نیوز ایجنسی]

دمشق میں چین کے سفیر فینگ بیاو شام کے ذرائع ابلاغ سے ملاقات کر رہے ہیں۔ [ثناء نیوز ایجنسی]

انہوں نے کہا کہ یہ شام کو بین الاقوامی برادری، خاص طور پر مغربی طاقتوں سے دور کر دے گا اور یہ سیزر ایکٹ کی صریح خلاف ورزی ہے -- امریکی پابندیاں جو بشار الاسد کی حکومت کو اس کے جرائم کا محاسبہ کرنے کے لیے وضع کی گئی تھیں۔

سیزر سیریا سویلین پروٹیکشن ایکٹ 2019 دنیا بھر میں ایسے اداروں کو سزا دیتا ہے جو شامی حکومت کے ساتھ کام کرتے ہیں اور شام کی جنگ میں بدسلوکی کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے تک، امریکی تعمیر نو کی امداد کو روکتا ہے۔

یوروپین یونین (ای یو) نے بھی اسی طرح شامی حکومت سے "احتساب" کا مطالبہ کیا ہے اور اصرار کیا ہے کہ وہ شام میں وسیع تر تعمیر نو پر اس وقت تک رقم خرچ نہیں کرے گی جب تک کہ الاسد تنازع کو حل کرنے کے لئے حقیقی سیاسی عمل کا وعدہ نہیں کرتے۔

آہستگی سے طاقت تک رسائی

شام سے تعلق رکھنے والے وکیل بشیر البسام نے کہا کہ چین بی آر آئی کو ایک اقتصادی اور تجارتی قدم کے طور پر فروغ دے رہا ہے جو دنیا کے ممالک کو ایک اقتصادی "شاہراہِ ریشم" کے ذریعے جوڑے گا۔

لیکن یہ درحقیقت بہت سے ممالک میں چین کی اقتدار تک آہستہ آہستہ رسائی کا ایک بہانہ ہے اور مبصرین، چینی امداد پر انحصار کرنے کے بارے میں انتباہ کر رہے ہیں ۔

چین نے کسی بھی مذموم مقاصد کی موجودگی سے انکار کیا ہے لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ بی آر آئی سے حاصل ہونے والے مالی فائدہ کو "قرض کے جال کی سفارتکاری" کے ذریعے اپنا اثر بڑھانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

اس نے قرض وصول کرنے والوں اور تحریری معاہدوں پر سخت شرائط عائد کی ہیں جو اسے اس وقت سٹریٹجک اثاثوں کو ضبط کرنے کی اجازت دیتی ہیں جب مقروض ممالک مالی مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔

البسام نے کہا کہ بی آر آئی کے آڑ میں، چین نے شام میں سٹریٹجک، سیاسی اور یہاں تک کہ فوجی تسلط کا دعویٰ کیا ہے "اس طرح کہ شام کو، جس نے مکمل طور پر مشرقی کیمپ کا ساتھ دیا ہے، علاقائی اور بین الاقوامی برادریوں کے خلاف لا کھڑا کیا ہے"۔

"گویا شام اور شامی شہریوں کو روس اور ایران کے ساتھ گلے ملنے اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ دشمنی کے نتیجے میں کافی مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑا کہ اب شام کی حکومت چین کے لیے دروازے کھول رہی ہے۔"

البسام نے کہا کہ بی آر آئی میں شام کی شمولیت "شام کی حکومت کو بالعموم اور شامی عوام کو خاص طور پر ایک ناگزیر نتیجہ کے طور پر بھاری قیمت چکانا پڑے گی"۔

شام کے ماہر اقتصادیات محمود مصطفی نے کہا کہ اپنے تازہ ترین قدم کے ساتھ، "شام کی حکومت مکمل طور پر ایرانی-روسی-چینی محور کی طرف متوجہ ہو گئی ہے، جو اسے ایک مشکل مقام پر لا کھڑا کرے گی"۔

انہوں نے کہا کہ شام کا بی آر آئی میں شامل ہونے کا فیصلہ "سیزر ایکٹ کے خلاف ایک چیلنج ہے، جس کا مقصد شامی حکومت کی طرف سے عوام پر کیے جانے والے جرائم کو روکنا ہے"۔

مصطفی نے کہا کہ "لبنان پر بھی منفی نتائج اثر انداز ہوں گے کیونکہ لبنانی بندرگاہیں، خاص طور پر شمال میں، شام میں چین کا داخلی راستہ ہوں گی، جس سے لبنان پر سیزر ایکٹ سے متعلق پابندیاں لگنے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا"۔

'معمولی' معاشی فائدہ

مصطفیٰ نے کہا کہ چین کے ساتھ معاہدوں سے شامی شہریوں کو جو اقتصادی فائدہ حاصل ہو گا وہ "کوئی زیادہ نہیں ہوگا، خاص طور پر کیونکہ یہ بین الاقوامی مرضی کی خلاف ورزی ہو گی"۔

انہوں نے کہا کہ اس میں "سیاسی اصلاحات کے نفاذ، اس بات کو یقینی بنانا کہ شامی عوام کو مزید ظلم و ستم کا نشانہ نہ بنایا جائے اور کسی بھی قسم کی تعمیر نو کی سرگرمیاں شروع کرنے سے پہلے، حکام سے حساب کتاب کرنے" کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان تحفظات کے بغیر تعمیر نو کا عمل شروع کرنا "حکومت کی بقا کو یقینی بنائے گا اور اس کے مجرمانہ اور غیر قانونی طریقوں کو طویل مدت تک جاری رکھے گا -- تین ممالک کے زیرِ تحفظ"۔

مصطفیٰ نے کہا کہ ایران، روس اور چین "برائی کے محور کے مترادف ہیں" جن سے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کو تشویش ہے۔

انہوں نے کہا کہ مزید برآں، بین الاقوامی نظام سے اقتصادی اور تجارتی دوری اور اپنے آپ کو ان تین ممالک تک محدود کرنے سے، شام کی معیشت کی بحالی میں کئی سالوں تک کی تاخیر ہو جائے گی اور وہ ایک بہت ہی تنگ دائرہ تک محدود ہو کر رہ جائے گا۔

یہ موجودہ عالمی اوپن مارکیٹ کے رجحانات کے خلاف بھی ہے۔

مصطفیٰ نے کہا کہ "دو ممالک، یعنی چین اور ایران کے ساتھ خصوصی تجارتی تعلقات رکھنا منطقی نہیں ہے، جو سیاسی کشیدگی اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزیاں کرنے پر سب سے زیادہ پابندیاں لگائے جانے والے ممالک میں سے ہیں۔"

اثر و رسوخ کے لیے شدید جنگ

صحافی اور بین الاقوامی سیاسی محقق علاء محمود نے کہا کہ "روس، ایران اور چین کے درمیان اعلان کردہ سیاسی اور تزویراتی اتحاد کے باوجود، یہ بات کوئی راز نہیں ہے کہ تینوں ممالک کے درمیان شدید تنازعہ موجود ہے۔"

انہوں نے کہا کہ یہ کشمکش خطے کے ممالک میں اپنے قدم جمانے اور اثر و رسوخ کے دائروں کو بڑھانے کی ان کی انفرادی کوششوں سے متعلق ہے۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ چین باضابطہ طور پر شام کے میدان میں داخل ہوا ہے تو سارا معاملہ "تعمیر نو کے کیک کا حصہ، توانائی اور نقل و حمل کے علاوہ خاص طور پر تیل، گیس اور قدرتی وسائل میں" حاصل کرنے کا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ایسی اطلاعات ملی ہیں کہ مرکزی داخلی سڑکوں اور بندرگاہوں کے نیٹ ورک کے علاوہ، چین ایک ایسی ریلوے تعمیر کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو عراقی سرحد تک پہنچے گی۔

وہ کلیدی علاقوں اور شہروں کو بھی پھیلانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ علاقے اس وقت یا تو ایرانی کنٹرول میں ہیں یا روس کے کنٹرول میں، "جو بلاشبہ شام کو، تینوں ممالک کے درمیان شدید متنازعہ میدان میں بدل دے گا"۔

محمود نے کہا کہ یہ صورتحال شیطانی دشمنی کو جنم دے سکتی ہے جو بلاشبہ شامی عوام پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500