طاقت ور ایرانی کمانڈر کی ہلاکت کے دو سالوں کے بعد، تہران ابھی تک دھمکیاں دے رہا ہے اور علاقے میں عدم استحکام پیدا کر رہا ہے۔
امریکہ کی طرف سے تین جنوری 2020 کو بغداد میں کیے جانے والے حملے، جس میں پاسدارانِ انقلابِ اسلامی قدس فورس (آئی آر جی سی - کیو ایف) کے کمانڈر قاسم سلیمانی ہلاک ہو گئے تھے، کے فورا بعد ایرانی راہنماؤں نے انتقام لینے کا مطالبہ کیا تھا۔
ایرانی کے راہنمائے اعلی علی خامنہ ای اور اس وقت کے صدر، حسن روحانی نے "شدید انتقام" کے بارے میں متنبہ کیا تھا۔
دیگر ایرانی حکام نے بھی امریکہ کے خلاف دھمکیاں دی تھی مگر سب سے ہلاکت خیز ردعمل دنیا بھر کے بے گناہ شہریوں کو ہلاک کرنا تھا -- یوکرین انٹرنیشنل ایرلائنز کی پرواز 752 کے تمام مسافر اور عملہ -- جنیں ایران کی فوج نے 8 جنوری، 2020 کو اس وقت مار گرایا تھا جب وہ تہران سے پرواز کر رہا تھا۔
چند دنوں کے بعد، روحانی نے دو میزائلوں سے جہاز کو گرائے جانے کو "تباہ کن غلطی" قرار دیا تھا۔
اس کے باوجود، اپنے پڑوسیوں کے خلاف ایرانی حکومت کی جارحیت بلا روک ٹوک جاری ہے۔
جولائی اور اگست میں، بالترتیب، ایرانی حکومت نے، ایک آئل ٹینکر، ایم ٹی مرسر سٹریٹ پر ہلاکت خیز ڈرون حملہ کیا اور اسفالٹ پرنسس جو کہ اسفالٹ اور بٹومین ٹینکر تھا، کو اغوا کر لیا۔ پہلا حملہ فجیرہ کی بندرگاہ پر ہوا جبکہ دوسرا خلیج عمان میں پیش آیا۔
ایران کے قریب، جہاز رانی کے خلاف اس طرح کی جارحیت پوری دنیا کی تجارت کو خطرے میں ڈالتی ہے کیونکہ آبنائے ہرمز توانائی کی عالمی سطح پر فراہمی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ دنیا کا ایک تہائی سمندری تیل روزانہ اسی راستے سے گزرتا ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات میں، آبنائے ہرمز کی نگرانی کرنا اور بحیرہ عرب میں ہنگامی حالات کے لیے تیاری کرنا شامل ہیں۔
ایرانی میزائل
اپنے جوہری پروگرام میں مصروف، جسے بم لے جانے کے لیے میزائلوں سے فائدہ ہو سکتا ہے، ایرانی حکومت ان منصوبوں پر قیمتی سرمایہ خرچ کر رہی ہے اگرچہ اس کی عوام غربت میں مزید دھنتسی جا رہی ہے۔
جنوری 2021 میں، حکومت نے، سخت رازداری کو برقرار رکھتے ہوئے، خلیج میں کہیں ایک میزائل اڈے کی نقاب کشائی کی، جو کہ میزائلوں اور جوہری ٹیکنالوجی پر اس کی کئی دہائیوں سے جاری توجہ کا ایک حصہ ہے۔ کسی صحافی یا عوام کے ارکان کو خفیہ تقریب میں شرکت کی اجازت نہیں تھی۔
آئی آر جی سی کے میڈیا آؤٹ لیٹ سپاہ نیوز نے، 8 جنوری 2021 کو آئی آر جی سی کے کمانڈر حسین سلامی کے حوالے سے کہا کہ آئی آر جی سی کی میزائل بیس "بحریہ کے اسٹریٹجک میزائلوں کے لیے، آلات کو ذخیرہ کرنے والے متعدد سیٹوں میں سے ایک ہے"۔
علاوہ ازیں، خرم آباد سے 35 کلومیٹر مغرب میں آئی آر جی سی کی، ایک شاذ و نادر ہی زیر بحث آنے والی میزائل بیس، اتنی ہی سخت رازداری میں کام کرتی ہے۔
امام علی میزائل بیس ایران کے دو سائلو میزائل اڈوں میں سے ایک ہے جن میں زیر زمین سائلوز اتنے بڑے دکھائی دیتے ہیں کہ شہاب 3 جیسے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کو رکھا جا سکتا ہے، جن کی رینج تقریباً 1,300 کلومیٹر ہے۔
تاہم، امریکی فوج کے پاس ایسی صلاحیتیں موجود ہیں ہیں جو امریکی اہلکاروں کے لیے ممکنہ خطرے کو کم کرتی ہیں اگر اسے دور دراز کے اڈوں پر حملہ کرنے کا حکم ملتا ہے۔
اگر عراق اور کویت جیسے قریبی ممالک سے چلایا جائے تو امریکی فوج کا آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم (اے ٹی اے سی ایم ایس) ایرانی سرزمین تک پہنچ سکتا ہے۔
موبائل اے ٹی اے سی ایم ایس کے ساتھ، جنوبی عراق میں بصرہ کے ارد گرد کے علاقے میں امریکی افواج کی تعیناتی، انہیں خرم آباد پر حملہ کیے جانے کے لیے درکار فاصلے تک لے آئے گی۔
ملکی مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے علاقائی انتشار پیدا کرنا
سلیمانی کی موت کے بعد سے دو سالوں میں، ایرانی حکومت اور اس کی پراکسیوں نے خطے میں پریشانی کو ہوا دینا بند نہیں کیا۔ مہنگی غیر ملکی مہم جوئی جاری ہے جبکہ غربت ایرانی آبادی کو پیس رہی ہے۔
ایرانی حمایت یافتہ جماعتوں نے، گزشتہ نومبر میں عراقی انتخابات میں اپنی تباہ کن شکست پر اختلاف کیا ہے اور ان سیاسی اور اقتصادی اصلاحات کو روک دیا ہے جن کی لبنان کو اشد ضرورت ہے۔
ایرانی حمایت یافتہ حوثی، یمن میں جنگ چھیڑ رہے ہیں جبکہ ملک میں انسانی تباہی مزید بڑھ رہی ہے ۔
دریں اثنا، ایران شام میں اثر و رسوخ اور اس ملک کے قدرتی وسائل پر کنٹرول کے لیے روس کے ساتھ ایک ہاری ہوئی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ بشار الاسد کے دونوں اتحادی شامی عوام کی تکالیف سے لاتعلق ہیں۔
اگرچہ ایرانی حکومت کمزور ممالک پر مصیبت اور تباہی پھیلانے میں کامیاب رہی ہے لیکن تہران میں عام ایرانیوں یا ان کے رہنماؤں کے لیے یہ صورتِ حال کوئی خاص خوشگوار نہیں رہی ہے۔
حکومت غیر ملکی پراکسیوں، آئی آر جی سی اور باقاعدہ فوج کو فنڈز فراہم کرنے پر اصرار کرتی ہے، جس سے معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ تقریباً نصف ایرانی آبادی "مکمل غربت" کا سامنا کر رہی ہے، جس کی تعریف تقریباً 266 ڈالر ماہانہ کے برابر آمدنی کے طور پر کی گئی ہے۔
ایران کے شماریاتی مرکز کے مطابق، تقریباً 60 فیصد ایرانی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب بریگیڈئیر جنرل اسماعیل قآنی، سلیمانی کا ناقص متبادل ثابت ہوئے ہیں۔ اب دو سالوں سے آئی آر جی سی-کیو ایف کے انچارج قانی، جو عربی نہیں بولتے ہیں، مشرق وسطیٰ کی پراکسیوں کو اس طرح جمع کرنے میں ناکام رہے ہیں جس طرح سلیمانی نے کیا تھا۔
عراق کے عسکری ماہر حاتم الفالحی نے نومبر میں المشارق کو بتایا تھا کہ قانی کی ناکامیوں کا سب سے واضح اشارہ "عراق میں اپنے روایتی اتحادیوں پر ایران کی گرفت کا ڈھیلا ہونا" ہے۔
الفلاحی نے کہا کہ بغداد کے خفیہ دوروں کے دوران، قانی ملیشیاؤں پر حاکمیت قائم کرنے میں ناکام رہا ہے، جنہوں نے احکامات کی "مکمل اطاعت کا مظاہرہ کرنا" بند کر دیا اور تفصیلات پر جھگڑا کرنا شروع کر دیا، خاص طور پر جب وہ ان کے مفادات کو متاثر کرتے ہیں۔
سلیمانی کی موت کے دو سال بعد، ایرانی حکومت، گویا اضطراری انداز میں کام کرتے ہوئے، خطے پر موت اور تباہی کی بارش کر رہی ہے۔ اس کے باوجود کوئی بھی اسی مدت کے دوران اپنے اسٹریٹجک مفادات کی ترقی کی طرف اشارہ نہیں کر سکتا۔