پناہ گزین

ایران افغانوں کی ملک بدری تیز کر کے انہیں غربت اور بے روزگاری میں واپس بھیج رہا ہے

از عمر

افغانستان میں ممکنہ طور پر آنے والی انسانی تباہی کے انتباہ کے باجود، ایرانی حکومت نے افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے کا کام تیز کر دیا ہے۔ [عمران/ سلام ٹائمز]

ہرات -- افغانستان میں ممکنہ طور پر آنے والی انسانی تباہی کے انتباہ کے باجود، ایرانی حکومت نے افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے کا کام تیز کر دیا ہے۔

ایرانی حکومت ہر روز 4,000 سے 5,000 افغان مہاجرین کو ملک بدر کرتی ہے، جن میں سے 1,700سے2,000 کو ہرات میں اسلام قلعہ کے داخلی مقام اور 2,000 سے 2,500 کو نمروز صوبہ سے بھجا جاتا ہے۔

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) کے مطابق، اگست میں سابقہ حکومت کے سقوط کے بعد سے، ایران سے اپنے ملک واپس آنے والے تقریبا 500,000 افغان مہاجرین میں سے تقریبا 400,000 کو زبردستی ملک بدر کیا گیا تھا۔

سرائے پُل صوبہ کے 29 سالہ شہری عبداللہ حیدری نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ انہیں اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ، ایرانی فورسز نے زبردستی ملک بدر کیا تھا۔

ایران سے ملک بدر کیے جانے والے افغان مہاجرین کو 16 دسمبر کو ہرات شہر میں اقوامِ متحدہ کے مہاجر کیمپ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ [عمران/ سلام ٹائمز]

ایران سے ملک بدر کیے جانے والے افغان مہاجرین کو 16 دسمبر کو ہرات شہر میں اقوامِ متحدہ کے مہاجر کیمپ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ [عمران/ سلام ٹائمز]

انہوں نے جمعرات (16 دسمبر) کو ہرات میں اقوامِ متحدہ (یو این) کے مہاجر کیمپ میں کہا کہ ایرانی حکام نے اسے اور اس کے خاندان کو ملک بدر کرنے کے لیے، تہران کے مضافات میں اس کے گھر کی دیواروں کو گرا دیا۔

حیدری نے تعمیراتی کارکن کی حثیت سے کام کرنے کے لیے، آٹھ ماہ قبل ایران کا سفر کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی فوج نے اسے اور اس کے خاندان کو مجبور کیا کہ وہ اپنے گھر کا سارا سامان پیچھے چھوڑ دیں اور انہیں ان کے موسمِ سرما کے کپڑے تک نہیں لے جانے دیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ایرانی فورسز افغانیوں کو ہراساں کر رہی تھیں --- اور وہ ہماری رقم لے رہی تھیں"۔

حیدری نے کہا کہ "مجھے افغانستان میں زندگی کے بارے میں بہت پریشانی ہے۔ کوئی کام نہیں ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ میں کیا کروں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "افغانستان اب پہلے جیسی جگہ نہیں رہا ہے، کوئی کام میسر نہیں ہے۔ مجھے کام ڈھونڈنے کے بارے میں بہت پریشانی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ بے روزگاری اور غربت کے باعث میں اپنے دونوں بچوں سے محروم نہ ہو جاؤں"۔

گزشتہ چار ماہ کے دوران، کچھ مجبور افغان خاندانوں نے اپنا قرضہ چکانے کے لیے اپنی بیٹیوں کو بیچ دیا ہے۔

بھوک اور بے روزگاری کا ڈر

ایران سے ملک بدر کیے جانے والوں کو اب افغانستان میں بے روزگاری اور بھوک کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔

فراہ صوبہ کی پُرچمن ڈسٹرکٹ کے ایک شہری، 45 سالہ فضل احمد نے 16 دسمبر کو کہا کہ اس کے خاندان کے آٹھ افراد کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

احمد نے کہا کہ اس نے ایران کا سفر کرنے اور وہاں کام کرنے کے لیے اپنے رشتہ داروں سے 10,000 افغانی (97 ڈالر) ادھار لیے تھے مگر ایرانی فوج نے اسے پکڑ کر ملک بدر کر دیا۔

ہرات میں اقوامِ متحدہ کے مہاجر کیمپ سے اس نے کہا کہ "میں کام کے لیے ایران جانا چاہتا تھا تاکہ اپنی بیوی اور بچوں کے لیے کما سکوں۔ مگر ایرانی فوجیوں نے میرے سارے پیسے ہتھیا لیے اور مجھے خالی جیب افغانستان ملک بدر کر دیا"۔

اس نے مزید کہا کہ "افغانستان میں کوئی کام نہیں ہے اور ہماری مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ہمارے گھر میں کھانا پکانے کا تیل، آٹا یا چاول نہیں ہیں۔۔۔ اور میرے پاس گھر والوں کے لیے کھانا خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں"۔

انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ وہ نہیں جانتا کہ وہ اپنے بچوں کا سامنا کیسے کرے گا، کہا کہ "میں ہر روز خالی ہاتھ گھر جاتا ہوں"۔

کیمپ کے ایک اور مہاجر، محمد طاہر جو کہ جوازجان کے شہری ہیں، نے کہا کہ ان مشکل حالات میں پریشان حال افغان شہریوں کو پناہ فراہم کرنے کی بجائے، ایرانی حکومت ان کی رقم چھین کر انہیں افغانستان بے دخل کر دیتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "یہ ایک مسلمان ملک ہے مگر ایران نے ہماری مدد کرنے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا جبکہ غیر مسلمان ممالک ہماری مدد کر رہے ہیں"۔

طاہر نے کہا کہ ایرانی حکام نہ صرف ایرانی مہاجرین کو ملک بدر کر دیتے ہیں بلکہ ان پر تشدد بھی کرتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "بے روزگاری اور غربت نے انہیں 20 دن پہلے ایران جانے پر مجبور کیا مگر آدھے راستے میں ہی، ایرانی فوجیوں نے مجھے پکڑ کر افغانستان واپس بھیج دیا"۔

انہوں نے کہا کہ "افغانستان میں کوئی کام نہیں ہے اور حکومت کو مدد فراہم نہیں کر رہی ہے"۔

"جب میں اپنے صوبہ واپس جاؤں گا تو مجھے زندہ رہنے کی کوئی امید نہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ میرے اور میرے خاندان کے ساتھ کیا ہو گا"۔

تشدد، برا سلوک جاری

معاملات کو مزید خراب بناتے ہوئے، حال ہی میں ایران سے ملک بدر کیے جانے والے مہاجرین کے پاس ایرانی حکام کے برے سلوک کی دردناک کہانیاں ہیں"۔

بدخشاں کے ایک شہری جلال الدین نے 16 دسمبر کو، ہرات میں اقوامِ متحدہ کے ایک مہاجر کیمپ میں کہا کہ ایرانی فوجیوں نے اس کے ساتھ اور دوسرے افغان مہاجرین کے ساتھ بدسلوکی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ایرانی فوجیوں کا رویہ انسانیت کے بارے میں سوال اٹھاتا ہے۔ کسی بھی انسان کو کسی دوسرے انسان کے خلاف اتنا زیادہ تشدد استعمال نہیں کرنا چاہیے جتنا ایرانی سپاہی افغان شہریوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں"۔

جلال الدین نے کہا کہ "ہم 35 لوگ تھے جنہیں ایک چھوٹے سے سرد کمرے میں پھینک دیا گیا جہاں ننگا فرش تھا۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ میں اس رات بچ سکوں گا"۔

انہوں نے کہا کہ "انہوں نے ہمیں کھانے کے لیے کچھ نہیں دیا اور سردی کی وجہ سے کوئی بھی رات کو نہیں سو سکا"۔

ہرات کے ضلع شیندند کے رہائشی غلام رسول جنہیں حال ہی میں ایران سے ملک بدر کیا گیا ہے نے کہا کہ ایرانی فوج کی طرف سے افغان مہاجرین کے ساتھ سلوک غیر انسانی ہے -- مار پیٹ اور تشدد کے علاوہ، وہ ان کے تمام پیسے بھی لے لیتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ایرانی فوجی سرد راتوں میں ہم پر ٹھنڈا پانی ڈالتے تھے"۔

انہوں نے کہا کہ "ایرانی فوجی ہمیں باقاعدگی سے مارتے پیٹتے تھے"۔

رسول نے کہا کہ وہ ایران جانے اور ایرانی حکام کی طرف سے ڈھائے جانے والے مصائب کا سامنا کرنے کی بجائے افغانستان میں بھوکا رہنا پسند کریں گے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500