الماتے -- ماہرین کا کہنا ہے کہ چین تاجکستان میں اپنی عسکری موجودگی میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے، یہ ایسا رجحان ہے جس پر روس کو شدید پریشانی ہے۔
اکتوبر کے آخر میں، تاجکستان کی پارلیمنٹ نے تاجکستان کی وزارت داخلہ (ایم وی ڈی) اور چین کی وزارتِ عوامی سلامتی کے درمیان وسطی ایشیائی جمہوریہ میں ایک اڈہ بنانے کے معاہدے کی توثیق کی تھی۔
معاہدے کے تحت، چین نے ایم وی ڈی کے خصوصی فوری ردِعمل یونٹ (ایس او بی آر) کے لیے 3,500 ہیکٹر اراضی پر ایک دفاعی کمپلیکس بنانے کا وعدہ کیا، جس میں 12 عمارتیں شامل ہیں - جن میں رہائشی اور تربیتی دونوں سہولیات شامل ہیں۔
پارلیمنٹ کے ذرائع کے مطابق، اڈہ ضلع اشکاشم، گورنو-بدخشاں خود مختار صوبہ (جی بی اے او) میں ہو گا۔
ایک پارلیمانی ترجمان نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا کہ تعمیراتی اخراجات چینی اٹھائیں گے اور چین تعمیراتی امداد میں 8.5 ملین ڈالر فراہم کرے گا۔
حالیہ برسوں میں، چین نے تاجکستان میں پامیر میں چار سرحدی چوکیاں؛ ایک فوجی تربیتی مرکز؛ مرکز برائے انسدادِ دہشت گردی، انتہا پسندی و علیحدگی پسندی؛ اور دوشنبہ میں آفیسرز کلب بھی تعمیر کیے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، اس طرح کی امداد غالباً شرائط کے ساتھ مشروط ہوتی ہے۔
نومبر میں ماہرِ سیاسیات آندرے زاخوتوف نے کہا، "فوجی موجودگی کی اجازت دینا اڈے کی تعمیر کے لیے [تاجکستان کی طرف سے] ادائیگی ہو سکتا ہے"۔
انہوں نے کہا، "چین ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا ہے -- اپنے آپ کو واخان کوریڈور کے ذریعے یغور علیحدگی پسندوں کے ممکنہ فوجی حملوں سے بچانے کے لیے اور افغانستان اور تاجکستان سے خام دھاتیں، جس میں قیمتی دھاتیں شامل ہیں برآمد کرنے کے لیے نقل و حمل کے آسان ترین راستے بچھانے کے لیے حالات پیدا کرنا چاہتا ہے۔"
قازقستان کے ادارہ برائے تزویراتی مطالعات کے عسکری تجزیہ کار، جارجی ڈیبوتسیف آف نور-سلطان کے مطابق، تاجکستان میں بیجنگ کے عسکری اقدامات کا مقصد علاقائی سلامتی کو یقینی بنانا نہیں بلکہ اپنے علاقے، خاص طور پر سنکیانگ کو انتہا پسندی کے خطرات سے بچانا ہے۔
ڈیبوتسیف نے کہا، "بدلے میں، وسطی ایشیائی ممالک، اپنی سلامتی کو مضبوط بنانے کے لیے چین کی فوجی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ ان کے اپنے وسائل ناکافی ہیں۔"
چینی منصوبوں سے روسی اثر میں کمی
تاجکستان اور چین کے درمیان اس طرح کے تعلقات کسی اور طاقت کے مفادات میں مُخل سکتے ہیں: روس۔
واشنگٹن ڈی سی میں ایک تھنک ٹینک کینن انسٹی ٹیوٹ کی مئی کے آخر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین اور روس کی جانب سے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں کے درمیان وسطی ایشیا اہم جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔
1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد، وسطی ایشیا میں ماسکو کا معاشی غلبہ کم ہوا جبکہ بیجنگ کو فائدہ ہوا، لیکن روس ابھی بھی خطے میں سلامتی کا اہم ضامن ہے۔
پچھلے پانچ برسوں میں، روس نے خطے کو 62 فیصد اسلحہ فراہم کیا ہے۔
علاوہ ازیں، ماسکو باقاعدگی سے وسطی ایشیا، خاص طور پر تزویراتی تاجک سرحدی علاقوں میں فوجی مشقیں کرتا ہے، اور کینن انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق، سنہ 2018 میں روس نے "افغانستان پر سنہ 1989 کے بعد پہلا خونریز حملہ تاجکستان سے کیا"۔
ہنوز، چین علاقے میں نمایاں طور پر قدم جما رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران، بیجنگ نے خطے کے ہتھیاروں کا 18 فیصد فراہم کیا، جو کہ سنہ 2010 اور سنہ 2014 کے درمیان 1.5 فیصد تھا۔
چین نے سنہ 2016 میں وسطی ایشیا میں اپنی پہلی فوجی تنصیبات تاجکستان کے پامیر پہاڑوں میں تعمیر کیں اور حالیہ برسوں میں بیجنگ نے "خطے میں اپنے فوجی یونٹوں کی عملی صلاحیتوں کو پیش کرنا شروع کر دیا ہے"۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے، "جبکہ ماسکو نے بیجنگ پر ایک تزویراتی برتری برقرار رکھی ہے، خلاء پُر ہو رہا ہے، اور اگر رجحانات جاری رہے تو، آنے والی دہائی میں [وسطی ایشیا میں] ماسکو کا اثر و رسوخ کم ہو سکتا ہے۔"
اس میں کہا گیا ہے کہ وسطی ایشیا میں بڑی طاقتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت کے دور میں، چین اور روس کے درمیان تناؤ میں اضافہ سکتا ہے، اور ان کے تعلقات آزمائش میں پڑ سکتے ہیں۔
بیجنگ کی توجہ تاجکستان پر
بشکیک کے مقامی دفاعی تجزیہ کار کاسیبیک جولشوئیف کے مطابق، چین نے خاص طور پر تاجکستان کو اثر و رسوخ کی مہم کے لیے اپنی ابتدائی جگہ کے طور پر منتخب کیا ہے۔
جولشوئیف نے کہا، "دوشنبے خطرناک طریقے سے بیجنگ پر انحصار کرتا ہے، جو اس کا اہم قرض دہندہ ہے، جس کے پاس ملک کے بیرونی قرضوں کا 40 فیصد حصہ ہے۔ تاجکستان اپنا قرض ادا کرنے سے قاصر ہے اور اس لیے چین کو تعاون کے تقریباً ہر شعبے میں رعایتیں دینے پر مجبور ہے۔"
مثال کے طور پر، آج چینی کمپنیاں تاجک سونے کے ذخائر میں سے 80 فیصد سے زیادہ کان کنی کر رہی ہیں۔
جولشوئیف نے کہا کہ قازقستان اور کرغزستان کے برعکس، تاجکستان یوریشین اکنامک یونین (ای ای یو) میں شامل نہیں ہوا، جو کہ روس کے تعاون سے ایک علاقائی اقتصادی بلاک ہے، کیونکہ چین نے اس قانون کی مخالفت کی تھی۔
جولشوئیف نے چہار فریقی تعاون اور رابطہ کاری کے طریقۂ کار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کی بجائے، "سنہ 2016 میں دوشنبے ایک انسدادِ دہشت گردی اتحاد میں شامل ہوا جسے بیجنگ نے علاقائی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے شروع کیا تھا۔ یہ اتحاد چین، تاجکستان، پاکستان اور افغانستان پر مشتمل ہے"۔
"اس کے بعد سے، ان ممالک کی سلامتی کونسلوں کے سربراہان باقاعدگی سے ملتے رہے ہیں اور قریبی تعاون کرتے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "تاجکستان کی روس کے ساتھ شراکت داری میں دلچسپی کم سے کم تر ہے۔"
تاجکستان میں ثقافت کے معاملے میں بھی چین روس کو پیچھے چھوڑ رہا ہے۔
اب کئی برسوں سے، بہت سے تاجک سکولوں میں چینی زبان پڑھائی جا رہی ہے، جو بظاہر روسی زبان سے زیادہ مقبول ہوتی جا رہی ہے۔ مزید برآں، کئی ہزار تاجک طلباء و طالبات چینی یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔
جولشوئیف نے اس رجحان کو خطے میں چین کی اقتصادی توسیع اور بڑی تعداد میں چینی منصوبوں کے آغاز سے منسلک کیا جن کے شرکاء پر چینی زبان جاننا لازم ہے۔
انہوں نے کہا، "تاجکستان اور وسطی ایشیا میں روس کا اثر و رسوخ عام طور پر کم ہو رہا ہے کیونکہ چین زیادہ فعال ہو رہا ہے، اور یہ ماسکو کے لیے بہت تشویشناک ہے۔"
جولشوئیف نے کہا کہ روس "ایک ایسے خطہے سے محروم ہو رہا ہے جو کبھی اس کے قابو میں تھا لیکن وہ اسے ترقی کے حقیقی پُرکشش نظارے پیش کرنے سے قاصر ہے"۔