امریکہ کے انٹیلی جنس حکام نے حالیہ مہینوں میں، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی خلیفہ بندرگاہ پر چینی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے، جہاں ان کے مطابق چین خفیہ طور پر فوجی تنصیبات بنا رہا ہے۔
سی این این نے خبر دی ہے کہ اگرچہ بظاہر تعمیراتی کام روک دیا گیا ہے، تاہم متعدد امریکی حکام نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں چین کی موجودگی کے حوالے سے سیکیورٹی کے خدشات ابھی حل ہونے سے بہت دور ہیں۔
وال سٹریٹ جرنل (ڈبیلو ایس جے) نے نومبر کی خصوصی رپورٹ میں بتایا کہ تقریباً ایک سال سے، امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو معلوم ہے کہ چین خفیہ طور پر اماراتی بندرگاہ پر ایک فوجی تنصیب کی تعمیر کر رہا ہے۔
یہ بندرگاہ، جہاں چائنا اوشن شپنگ کمپنی لمیٹڈ (سی اے ایس سی او) ایک تجارتی کنٹینر ٹرمینل چلاتی ہے، تاویلہ سے تقریباً 5 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جو خود اماراتی دارالحکومت ابوظہبی سے تقریباً 80 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔
یہ ایک مصنوعی جزیرے پر واقع ہے جو ایک دلدلی پگڈنڈی کے ذریعے باقی ملک سے جڑا ہوا ہے۔
ڈبلیو ایس جے کے مطابق، سیٹلائٹ کی خفیہ تصاویر اور دیگر سراغوں کی بنیاد پر، امریکی حکام کا کہنا ہے کہ چین "متحدہ عرب امارات میں فوجی قدم جمانے" کے لیے کام کر رہا ہے اور اپنی فوجی موجودگی کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
سی این این کے مطابق "امریکہ کی انٹیلی جنس نے تجارتی جہازوں کے بھیس میں بحری جہازوں کو دیکھا ہے، جنہیں حکام نے ایک ایسی قسم کے طور پر پہچانا جو عام طور پر چینی فوج بندرگاہ میں داخل ہوتے ہوئے، خفیہ معلومات جمع کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے"۔
ڈبلیو ایس جے نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اماراتی حکومت، خلیفہ بندرگاہ پر چینی سرگرمیوں کے فوجی پہلو سے آگاہ نہیں تھی۔
اس سے قطع نظر، چینی موجودگی نے امریکہ سے ایف -35 لڑاکا طیاروں کی خریداری کے لیے، متحدہ عرب امارات کی کوششوں کو پیچیدہ بنا دیا ہے، جو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے شرائط پر زور دے رہا ہے کہ لڑاکا طیارے چینی جاسوسی کا شکار نہ ہوں۔
'چپکے چپکے اور حیلے بہانے'
دسمبر 2018 میں، ابوظہبی پورٹس کمپنی، نے سی او ایس سی او کے ساتھ 35 سالہ رعایتی معاہدہ کیا، جس نے چینی کمپنی کو خلیفہ بندرگاہ پر کنٹینر ٹرمینل چلانے اور اسے آگے بڑھانے کے قابل بنایا۔
یہ ٹرمینل، بظاہر چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے ذریعے پیدا ہونے والی تجارت کی مدد کرنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا، جو کہ 2013 میں ایشیا، افریقہ، یورپ اور اوشیانا (بحرالکاہل اور قریبی سمندروں کے جزیروں کا مجموعی نام) کے 78 ممالک کو جوڑنے والا بنیادی ڈھانچے کا ایک وسیع منصوبہ ہے۔
لیکن حکمتِ عملی کے لحاظ سے اہمیت رکھنے والی جگہ پر واقع اماراتی بندرگاہ میں چین کا قدم جمانا - جیسا کہ جنوبی بحیرہ چین سے نہر سویز تک پھیلی ہوئی، حکمت عملی کے لحاظ سے اہمیت رکھنے والی بندرگاہوں کے "ہار" میں اس کی موجودگی - دوسرے مقاصد کو بھی پورا کرتی ہے۔
مبصرین نے کہا کہ اپنے سیاسی اور اقتصادی اثر و رسوخ کو بڑھانے کے علاوہ، چین خطے تک فوجی رسائی کو آسان بنانے کے لیے بندرگاہوں کے سلسلے میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، جس سے مشرق وسطیٰ اور اس سے آگے تک تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
انڈین ایکسپریس نے 23 نومبر کے اپنے ایک اداریے میں کہا کہ "یہ انکشاف کہ چین متحدہ عرب امارات میں خلیفہ کی بندرگاہ پر ایک خفیہ فوجی تنصیب تعمیر کر رہا ہے، بیجنگ کے بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک عزائم اور اس کی خفیہ اور تخریب کاری دونوں کی تصدیق کرتا ہے جس کے ساتھ وہ اپنی سرحدوں سے باہر اپنے فوجی موجودگی کو بڑھا رہا ہے۔"
اس نے کہا کہ "حالیہ برسوں میں، جیسا کہ چین [صدر] شی جن پنگ کے تحت زیادہ زور آور ہوا ہے، اس نے حکمت عملی کے لحاظ سے اہم علاقوں میں قدم جمانے کے لیے اپنے اختیار میں موجود تمام آلات استعمال کیے ہیں"۔
بحر ہند کے علاقے میں، چین نے اقتصادی اور بنیادی ڈھانچے کی شراکت داری کے وعدے کے ذریعے، اہم مقامات پر موجودگی قائم کر لی ہے۔ اس نے خبردار کیا کہ یہ "دوہرے استعمال" کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ "جیسے کہ متحدہ عرب امارات میں، ان مقامات کو -- خفیہ طور پر، یا ظاہری طور پر اور آہستہ آہستہ -- فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مشکوک ارادے
ایران نے مارچ کے اواخر میں چین کے ساتھ جس تزویراتی معاہدے پر دستخط کیے تھے، اس نے بھی خدشہ پیدا کر دیا ہے کہ یہ معاہدہ خلیجی خطے میں بیجنگ کے لیے فوجی طور پر جمانے کا باعث بنے گا۔
ایرانی بحریہ کے ایک سابقہ تجزیہ کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر المشرق کو بتایا کہ بیجنگ کے نقطہ نظر سے، "معاہدے کا مقصد چین کے لیے ایران میں قدم جمانا ہے، خاص طور پر خلیج فارس میں جَسک اور کیش کے جزائر پر"۔
تجزیہ کار نے کہا کہ اگرچہ یہ معاہدہ ظاہری طور پر تجارتی نوعیت کا ہے، لیکن جَسک اور چابہار کی ایرانی بندرگاہوں میں چینی سرمایہ کاری، اُس کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی بحریہ کو، اپنی رسائی کو بڑھانے کے قابل بنا دے گی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ چین-عرب اسٹیٹس کوآپریشن فورم (سی اے ایس سی ایف) کے 2018 کے اجلاس میں، چین نے مشرق وسطیٰ کے لیے 23 بلین ڈالر کے قرضوں اور ترقیاتی امداد کا وعدہ کیا تھا --- اور اس امداد کی یقینی طور پر بھاری قیمت ادا کرنی ہو گی۔
ایگریگیٹس بزنس نے نومبر 2020 میں خبر دی تھی کہ متحدہ عرب امارات کی خلیفہ بندرگاہ، عمان کی دقم، سعودی عرب کی جیزان اور مصر کی بندرگاہ سید اور عین سوخنا، تمام کی شناخت ان اہم منصوبوں کے طور پر کی گئی ہے، جنہیں چین مشرق وسطیٰ میں، بی آر آئی سے متعلقہ طور پر تیار کرے گا۔
خبروں کی ویب سائٹ نے کہا کہ "چینی ٹھیکیدار قطر میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے بڑے معاہدوں میں بھی شامل ہیں، جن میں حماد انٹرنیشنل ایئرپورٹ (ایچ آئی اے) کا 25 بلین ڈالر کا توسیعی منصوبہ بھی شامل ہے۔"
پاکستان کے صوبے بلوچستان میں واقع گوادر کی بندرگاہ کے بارے میں چینی فوج کے ارادوں پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، جہاں رازداری کی چادر میں متعدد مشتبہ عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔
توقع ہے کہ بحیرہ عرب کی بندرگاہ، چین کے بی آر آئی کا حصہ ہوگی لیکن مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ چینی حکومت اس بندرگاہ کی ترقی کو پاکستان میں بحری اڈہ قائم کرنے کے لیے آڑ کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔
فوربس نے 2 جون کو خبر دی تھی کہ اگرچہ گوادر میں بحری اڈہ بنانے کے چینی منصوبے کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں ہوئی ہے، لیکن سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ پچھلے چند سالوں میں کئی نئی عمارات تعمیر کی گئی ہیں۔
اس میں کہا گیا کہ عمارات میں سے ایک میں "غیر معمولی طور پر زیادہ سیکیورٹی" ہے۔ اس نے اسے چائنا کمیونیکیشن کنسٹرکشن کمپنی کے زیرِ استعمال ہونے کے طور پر شناخت کیا، جو کہ ایک اکثریتی سرکاری ملکیتی ادارہ ہے اور جو بہت سے سول انجینئرنگ منصوبوں میں ملوث ہے۔
دفاعی تجزیہ کار ایچ آئی سٹن نے فوربس میں لکھا ہے کہ حفاظت کی سطح بہت "کڑی" ہے اور اس میں "اینٹی وہیکل برمز، حفاظتی باڑیں اور ایک اونچی دیوار" شامل ہے۔ "پہرے داروں کی چوکیاں اور بلند گارڈ ٹاورز، باڑ اور اندرونی دیوار کے درمیان کا احاطہ کرتے ہیں" اور "رائفلوں کے ساتھ مسلح گارڈز" کی موجودگی کا اشارہ دیتے ہیں۔
کچھ مبصرین نے کہا کہ دو چھوٹی جگہیں، جن میں نیلی چھت والی عمارتوں کی قطاریں ہیں، چینی میرین کور کے گیریژن کے لیے بیرک ہو سکتی ہیں۔