سلامتی

القاعدہ اور داعش-کے افغانستان میں قدم جما رہے ہیں: امریکی کمانڈر

پاکستان فارورڈ

داعش نے 5 دسمبر کو یہ تصویر پوسٹ کی، جس میں مبینہ طور پر بیان کیا جا رہا ہے کہ ان کا ایک جنگجو جلال آباد میں ایک سرکاری گاڑی پر فائر کر رہا ہے۔ [فائل]

داعش نے 5 دسمبر کو یہ تصویر پوسٹ کی، جس میں مبینہ طور پر بیان کیا جا رہا ہے کہ ان کا ایک جنگجو جلال آباد میں ایک سرکاری گاڑی پر فائر کر رہا ہے۔ [فائل]

واشنگٹن – گزشتہ ہفتے ایک اعلیٰ امریکی عسکری کمانڈر نے تنبیہ کی کہ اگست میں امریکی افواج کے انخلاء اور گزشتہ افغان حکومت کے سقوط کے بعد شدت پسند گروہ دوبارہ افغانستان میں قدم جما رہے ہیں۔

امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کینیتھ "فرینک" میک کینزی نے جمعرات (9 دسمبر) کو کہا کہ افغانستان سے امریکی عسکری اور انٹیلی جنس اثاثوں کی روانگی نے القاعدہ اور "دولتِ اسلامیہ" کی خراسان شاخ (داعش-کے) کی حرکات پر نظر رکھنے کو "ناممکن تو نہیں لیکن مشکل" بنا دیا ہے۔

انہوں نے پینٹاگون میں ایک انٹرویو کے دوران ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) سے بات کرتے ہوئے کہا، "اب ہمارے پاس افغانستان میں نظر رکھنے کی اس استعداد کا تقریباً 1 یا 2 فیصد ہے جو کبھی ہمارے پاس تھی۔"

امریکی اور نیٹو افواج نے گزشتہ حکومت کے سقوط کے دو ہفتے بعد، 30 اگست کو افغانستان سے اپنا انخلاء مکمل کیا۔

29 ستمبر کو واشنگٹن ڈی سی میں افغانستان مں عسکری آپریشنز کے خاتمہ پر یو ایس ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کی ایک پیشی کے دوران امریکی سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل کینیتھ ’فرینک‘ میک کینزی جونیئر سوالات کے جواب دے رہے ہیں۔ [اولیور ڈولولیئری /پول / اے ایف پی]

29 ستمبر کو واشنگٹن ڈی سی میں افغانستان مں عسکری آپریشنز کے خاتمہ پر یو ایس ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کی ایک پیشی کے دوران امریکی سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر جنرل کینیتھ ’فرینک‘ میک کینزی جونیئر سوالات کے جواب دے رہے ہیں۔ [اولیور ڈولولیئری /پول / اے ایف پی]

طاقت کے اس خلا نے القاعدہ اور داعش-کے سمیت عسکریت پسند گروہوں کو دلیر بنا دیا ہے۔

میک کینزی نے کہا کہ القاعدہ افغانستان کے اندر دوبارہ اپنی موجودگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے، یہ وہ چھاؤنی تھی جہاں سے اس نے 11 ستمبر، 2001 کو امریکہ کے خلاف ہونے والے حملوں کی منصوبہ سازی کی تھی۔

9/11 حملوں کے بعد کے برسوں میں، امریکی فوج اور انٹیلی جنس کی جارحانہ کاروائیوں نے القاعدہ کی تعداد اور امریکی مفادات کو براہِ راست خطرے کی زد میں لانے کی استعداد کو نہایت کم کر دیا، لیکن میک کینزی نے کہا کہ یہ گروہ امریکہ پر حملہ کرنے کی "شدید خواہش" رکھتا ہے۔

میک کینزی نے کہا کہ درایں اثناء، اگست کے وسط میں افغان جیلوں سے متعدد داعش جنگجوؤں کی رہائی سے داعش-کے کو "تقویت" ملی ہے۔

انہوں نے کہا کہ داعش اور القاعدہ، دونوں افغانستان کے اندر اور باہر سے بھرتیاں کر رہے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ چند عسکریت پسند ملک کی سوراخ دار سرحدوں سے اندر آ رہے ہیں لیکن امریکہ کے لیے ان کی تعداد پر نظر رکھنا مشکل ہے۔

میک کینزی نے کہا، "لہٰذا ہمیں ایک دوبارہ ابھرتی ہوئی داعش کی توقع رکھنی چاہیئے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ نہایت حیران کن ہو گا۔"

انہوں نے افغانستان کے اندر القاعدہ کارکنان کی تعداد کا اندازہ دینے سے انکار کیا، لیکن کہا، "یہ ممکنہ طور پر تھوڑی بڑھ گئی ہے۔"

افق پر

زمین سے تمام افواج کے انخلاء کے باوجود، امریکی فوج نے دہشتگردوں کے خطرہ کی انسداد کے لیے متعدد آلات -- بشمول "افق سے" یا افغانستان کی سرحدوں کے پار سے ڈرونز یا دیگر ہوائی جہازوں پر مبنی فضائی حملے – اپنے اختیار میں رکھے ہوئے ہیں۔

میک کینزی نے کہا کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلاء مکمل کرنے کے بعد سے ایسا کوئی حملہ نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ایسے حملے کرنے کے لیے امریکہ کی استعداد انٹیلی جنس کی دستیابی، اوپر سے لی گئی تصاویر، اور دیگر معلومات اور اطلاعات پر مبنی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ "ابھی بھی تعمیر جاری ہے۔"

محکمہٴ خارجہ افغانستان میں متعدد داعش-کے رہنماؤں کو دبانے کے لیے پابندیوں کا بھی استعمال کر رہا ہے۔

محکمہٴ خارجہ نے 22 نومبر کو افغانستان کو بین الاقوامی دہشتگردی کے لیے ایک پلیٹ فارم بننے سے روکنے کے لیے داعش-کے کے تین رہنماؤں کو عالمی دہشتگرد قرار دے دیا۔

محکمہٴ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ثناءاللہ غفاری جو شہاب المہاجر کے نام سے بھی معروف ہیں، داعش-کے کے بطورِ کل امیر ہیں اورانہیں جون 2020 میں اس شاخ کی قیادت کے لیئے تعینات کیا گیا تھا۔

غفاری افغانستان بھر میں داعش-کے کی تمام کاروائیوں کی منظوری دینے اور کاروائیاں کرنے کے لیے مالیات کا انتظام کرنے کے انچارج ہیں۔

محکمہٴ خارجہ نے اس کے علاوہ سلطان عزیزاعظم، جو سلطان عزیز کے نام سے بھی معروف ہیں، کو نامزد کیا، جنہوں نے داعش-کے کے افغانستان آنے سے اب تک داعش-کے کے ترجمان کا عہدہ سنبھال رکھا ہے۔

اس نے مولوی رجب پر پابندیاں عائد کیں، جو مولوی رجب صلاح الدین کے نام سے بھی معروف ہیں، اور صوبہ کابل میں داعش-کے کے ایک سنیئر رہنما ہیں جو صدرمقام میں اس گروہ کے حملوں اور کاروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

مزید برآں امریکی محکمہٴ خزانہ عصمت اللہ خراسانی کو داعش-کے کو مالی معاونت فراہم کرنے پر نامزد کر رہا ہے۔

یہ پابندیاں امریکی اشخاص کو تمام نامزدگان کے ساتھ کسی بھی قسم کے لین دین میں شامل ہونے سے روکتی ہیں اور انہیں اور ان کے رفقاء کو امریکی مالیاتی نظام کے ساتھ رابطہ میں آنے والے اثاثہ جات اور رقوم تک رسائی سے روکتی ہیں۔

بیان میں کہا گیا، "ہم دنیا بھر میں شہریوں کو بلا امتیاز قتل کرنے والے دہشتگردوں اور ان کی کاروائیوں کو ممکن بنانے، تسہیل کاری کرنے اور مالیات فراہم کرنے والوں کو نشانہ بنانے کے لیے امریکی طاقت کے تمام آلات کو بروئے کار لاتے رہیں گے۔"

داعش-کے کا تشدد

داعش-کے نے 26 اگست کو کابل ہوائی اڈے پر دو مہلک خودکش بم حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔

ان دھماکوں سے 100 سے زائد افغان شہری اور 13 امریکی سروس ارکان جاںبحق ہو گئے، جو انخلاء کے منتظر افغانوں کو تحفظ فراہم کر رہے تھے اور ان کے لیے کاغذی کاروائی کر رہے تھے۔

اگست سے اب تک کابل میں متعدد خودکش بم حملوں نے زیادہ تر شعیہ ہزارہ برادری کے ارکان کو نشانہ بنایا ہے، جو کئی برسوں سے داعش-کے کا ہدف رہی ہے۔

مقامی افراد کے مطابق، داعش-کے کے ایک خودکش بمبار نے 8 اکتوبر کو کندوز میں ایک مسجد کو نشانہ بنایا، جس سے تقریباً 100 شعیہ مسلم جاںبحق اور متعدد دیگر زخمی ہو گئے۔

اس گروہ نے کہا کہ یہ خودکش بمبار "یوگر میں سے تھا" اور یہ حملہ چین کے مطالبات اور [ژنجیانگ میں] چین کی مسلمان مخالف پالیسیوں کے ردِّ عمل میں تھا۔

تقریباً ایک ہفتہ بعد، متعدد دھماکوں نے قندھار شہر میں فاطمیّہ مسجد کو تباہ کر دیا، جس سے کم از کم 33 افراد جاںبحق اور 74 دیگر زخمی ہو گئے۔

2 نومبر کو داعش جنگجوؤں نے صدرمقام میں نیشنل ملٹری ہسپتال میں حملہ کرتے ہوئے – شدت پسند حقانی نیٹ ورک کے ایک اعلیٰ سطحی رکن سمیت-- کم از کم 19 افراد کو ہلاک اور 50 دیگر کو زخمی کر دیا۔

افغانستان متفکر ہیں

ملک کی سلامتی کی مسلسل تباہی سے افغان مبصرین خدشات اٹھا رہے ہیں۔

جرمنی سے ایک سیاسی تجزیہ کاروائس نصیری نے سلام ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا، "افغانستان میں القاعدہ کی تاریخ کے پیشِ نظر، بدقسمتی سے آج افغانستان میں القاعدہ رہنماؤں اور اس کے جنگجوؤں کی بڑھتی ہوئی موجودگی عین ممکن ہے۔"

انہوں نے کہا، "اگر القاعدہ ارکان کے ماضی میں افغانستان کے اندر تعلقات کو دیکھا جائے تو بین الاقوامی برادری کی جانب سے اٹھائے گئے یہ خدشات مدلل ثابت ہوتے ہیں کہ دہشتگرد نیٹ ورکس کی جانب سے خطرات درپیش ہیں اور یہ کہ اس نیٹ ورک کے لیے افغانستان ایک محفوظ پناہ گاہ ہے۔"

افغان صحافی حارث جمالزادہ نے ترکی سے سلام ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا، "افغانستان میں بین الاقوامی برادری کی 20 سالہ موجودگی نے افغانستان میں القاعدہ کی موجودگی اور سرگرمیوں کو محدود کر دیا تھا۔ لیکن آج شواہد ۔۔۔ ظاہر کرتے ہیں کہ القاعدہ افغانستان میں اپنی موجودگی کو واپس لانے اور مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔"

"اگر بین الاقوامی برادری۔۔۔ افغانستان میں القاعدہ کی توسیع کو نہیں روکتی، تو یہ ملک ایک مرتبہ پھر عالمی دہشتگردوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بن سکتا ہے۔"

کابل سے ایک سیاسی تجزیہ کار، فہیم چاکری نے کہا، "افغانستان کے مغربی، جنوبی اور شمالی علاقوں میں اس کی کھلی اور تقریباً بے قابو سرحدیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے عدم استحکام اور متعدد داخلی مسائل کا سامنا ہے۔"

"ان پیشرفت نے القاعدہ جنگجوؤں اور داعش اور حالیہ برسوں میں افغانستان سے فرار ہو جانے والے دیگر دہشتگرد گروہوں کی لوٹنے کی کوشش کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی ہے۔"

چاکری نے کہا، "اگر یہ گروہ واپس آ جاتے ہیں اور افغانستان کو داخلی چیلنجز درپیش رہتے ہیں، تو یہ امر یقینی ہے کہ القاعدہ ازسرِ نو منظم ہو کر افغانستان سے دنیا کو دھمکائے گی۔"

[کابل سے حمزہ نے اس رپورٹ میں کردار ادا کیا۔]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500