معیشت

چین سُود مند افغان معدنی معاہدوں کے حصول کے لیے عدم استحکام کا فائدہ اٹھا رہا ہے

از عمر

ایک چینی سرمایہ کار 23 نومبر کو ہرات کے گورنر نور احمد اسلامجار سے افغان کانوں کے حوالے سے ملاقات کرتے ہوئے۔ [دفترِ گورنر ہرات]

ایک چینی سرمایہ کار 23 نومبر کو ہرات کے گورنر نور احمد اسلامجار سے افغان کانوں کے حوالے سے ملاقات کرتے ہوئے۔ [دفترِ گورنر ہرات]

ہرات -- افغانستان کے قدرتی وسائل میں چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی افغانوں میں یہ تشویش پیدا کر رہی ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور بڑھتے ہوئے معاشی بحران کے درمیان چینی کاروباری ادارے ان کے ملک سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

23 نومبر کو صوبہ ہرات کے دورے میں، ایک چینی تاجر نے ہرات کے گورنر نور احمد اسلامجار سے ملاقات کے دوران افغانی زعفران -- جو درجہ بندی میں دنیا میں نمبر 1 ہے -- کی تیاری اور فروخت میں سرمایہ کاری کرنے میں اپنی دلچسپی پر زور دیا۔

چین کے گلوبل ٹائمز نے خبر دی کہ اگلے روز، متعدد چینی سرمایہ کار ملک کے لیتھیم کے ذخائر میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے افغانستان پہنچ گئے۔

سابقہ حکومت کے خاتمے کے بعد چینی کمپنیوں کی جانب سے افغانستان کے کان کنی کے شعبے میں سرمایہ کاری کی کوششوں نے افغانوں میں پہلے ہی سوالات اٹھا دیئے ہیں۔

6 مئی سنہ 2013 کو لی گئی اس تصویر میں، افغان کان کن صوبہ باغلان کے قرا زغان گاؤں کے قریب ایک پہاڑ کے کنارے سونے کی تلاش میں کھدائی کرتے ہوئے۔ [شاہ مرائی/اے ایف پی]

6 مئی سنہ 2013 کو لی گئی اس تصویر میں، افغان کان کن صوبہ باغلان کے قرا زغان گاؤں کے قریب ایک پہاڑ کے کنارے سونے کی تلاش میں کھدائی کرتے ہوئے۔ [شاہ مرائی/اے ایف پی]

10 اکتوبر 2012 کو صوبہ لوگر کے علاقے میس عینک کے بنجر پہاڑوں میں حفاظتی دیوار کے قریب ایک چینی کان کن کمپنی کی طرف سے قائم کیمپ زیادہ تر خالی ہی رہتا ہے۔ [روبرٹو شمت/اے ایف پی]

10 اکتوبر 2012 کو صوبہ لوگر کے علاقے میس عینک کے بنجر پہاڑوں میں حفاظتی دیوار کے قریب ایک چینی کان کن کمپنی کی طرف سے قائم کیمپ زیادہ تر خالی ہی رہتا ہے۔ [روبرٹو شمت/اے ایف پی]

ہرات شہر میں سول سوسائٹی کے ایک کارکن عبدالغفور نوروزی نے کہا کہ چین برسوں سے افغانستان کے نایاب دھاتی ذخائر پر نظریں جمائے ہوئے ہے اور ان پر ہاتھ ڈالنے کے لیے مناسب موقع کا انتظار کر رہا ہے کیونکہ یہ منافعے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، "کان کنی کے شعبے میں چینی سرمایہ کاری اس وقت افغانستان کے لیے فائدہ مند نہیں ہو گی کیونکہ ابھی تک کوئی حکومت نہیں بنی ہے۔"

نوروزی نے کہا، "جب تک کئی کمپنیاں کان کنی کے معاہدوں، خصوصاً نایاب دھاتوں کے ذخائر کے لیے، مقابلہ نہیں کریں گی، صرف چینی کمپنیوں کی طرف سے سرمایہ کاری کے افغانوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔"

ہرات شہر میں ماہر اقتصادیات سید کبیر حسینی نے کہا کہ افغانستان کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار سے بچنے کے لیے چینی کان کن کمپنیوں کو ٹھیکے دیتے وقت احتیاط کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا، "چینی کمپنیاں اس وقت تک افغانستان میں سرمایہ کاری نہیں کریں گی جب تک کہ وہ اس کے بدلے میں بہت زیادہ منافع نہ کمائیں۔ ان کمپنیوں کے ساتھ معاہدے لازمی طور پر افغانستان کو کسی بھی نقصان کو روکنے کے لیے تیار کیے جائیں۔"

حسینی نے خبردار کیا کہ نایاب اور قیمتی دھاتوں کے ذخائر چینی کمپنیوں کو سستے میں نہیں دیئے جانے چاہیئیں، انہوں نے مزید کہا کہ ان ذخائر پر چین کی واحد توجہ نیک نیتی کی نشاندہی نہیں کرتی۔

موقع پرستی

صوبہ غور کے ایک ماہر اقتصادیات، سید کمال نظری کے مطابق، افغانستان کی کانوں پر قبضہ کرنے کی چینی کوششیں گدلے پانی میں مچھلیاں پکڑنے کے مترادف ہیں۔

انہوں نے کہا، "کان کنی کے شعبے میں کوئی انضباطی عملی ڈھانچہ موجود نہیں ہے، اور کان کنی اور پیٹرولیم کی وزارت (ایم او ایم پی) کے [موجودہ] اہلکار ماہر نہیں ہیں -- چینی کمپنیاں کان کنی کے شعبے پر قابض ہونے کے لیے اس کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔"

نظری نے خبردار کرتے ہوئے کہا، "جب تک ایک جامع حکومت نہیں بن جاتی اور ایم او ایم پی میں ماہرین بھرتی نہیں ہوتے، چینیوں کو کان کنی کا کوئی ٹھیکہ نہیں دیا جانا چاہیئے، افغانستان کی قیمتی دھاتیں بہت گرانقدر ہیں، لیکن چینی انہیں تھوڑی سی فیس کے عوض نکالنا چاہتے ہیں۔ "

صوبہ نمروز کے ایک اقتصادی تجزیہ کار محمد امین عالم یار نے کہا کہ چین ایک معیشت دیو ہے، اور اگر اسے اجازت دے دی گئی تو وہ بہت کم رقم کے عوض افغانستان کی کانوں کو نگل لے گا۔

انہوں نے کہا، "ان موجودہ مشکل حالات میں چینی حکومت افغانوں کی مدد کرنے کے بجائے ان کے زیرِ زمین وسائل کو لوٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ بولی کا طریقۂ کار اپنایا جانا چاہیئے "اور ٹھیکہ لازماً اس کمپنی کو ملنا چاہیئے جو افغانوں کو سب سے زیادہ منافع دے۔"

قدرتی وسائل عوام کی ملکیت ہیں

مغربی افغانستان کے چند باشندوں کا کہنا ہے کہ معدنی وسائل افغان عوام کی ملکیت ہیں اور عوامی رضامندی کے بغیر چینی کمپنیوں کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ ناقابلِ قبول ہے۔

ہرات کے رہائشی نظام الدین اکرمی نے کہا کہ حکام پر لازم ہے کہ غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ کان کنی کے معاہدوں کے اطلاق سے پہلے انہیں عوام کے سامنے ظاہر کریں، انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی خفیہ معاہدہ عوامی بغاوت کا سبب بنے گا۔

انہوں نے مزید کہا، "ہمارے آباؤ اجداد نے صدیوں تک ہماری کانوں اور وسائل کی حفاظت کی، اور اب ہم نہیں چاہتے کہ چینی ان وسائل کو مفت میں نکال لیں۔"

اکرمی نے کہا، "کسی بھی دوسرے ملک کی طرح، کان کنی کے شعبے سے حاصل ہونے والی آمدنی سے زندگیاں بہتر ہونی چاہیئیں اور غربت کا خاتمہ ہونا چاہیئے۔ ہم کان کنی کی آمدنی کو بعض افراد اور گروہوں کی جیبوں میں جانے کی کبھی اجازت نہیں دیں گے۔"

صوبہ بادغیس کے رہائشی محمد ولی صداقت نے کہا کہ افغانستان کو اپنے ذخائر نکالنے میں عجلت سے کام نہیں لینا چاہیئے۔

انہوں نے مزید کہا، "افغان سینکڑوں سالوں سے روکھی سوکھی کھا کر زندگی گزار رہے ہیں لیکن انہوں نے اپنے قدرتی وسائل کی حفاظت کی ہے۔ ملکی ذخائر چینی مافیا کے کاروباری اداروں کو کسی بھی صورت میں نہیں دیئے جانے چاہیئیں۔"

انہوں نے مزید کہا، "چین صرف اپنے معاشی مفادات کے بارے میں سوچتا ہے۔ لہٰذا، [چین کے ساتھ] ان خطرناک سودوں کو جلد از جلد روکنا لازمی ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500