مشرقِ وسطیٰ میں علماء اور محققین کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں چین کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم سے متعلق اپنے نقطہٴ نظر میں عرب اور اسلامی ممالک اور بلاکس کو متحد ہونا چاہیئے اور ان وحشتناکیوں کے خاتمہ کے لیے انہیں مزید کوششیں کرنی چاہیئں۔
انہوں نے مزید کہا کہ چین کو دائرہٴ احتساب میں لانے کے لیے نچلی سطح سے ایک مہم کی بھی ضرورت ہے۔
بیجنگ چین میں مسلمان اکثریت کے واحد علاقہ سنکیانگ کے شمال مغربی خطے میں مسلمانوں کے خلاف خلاف ورزیوں کا ایک سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
اس خطے میں ایک ملین سے زائد افراد، جس میں سے بیشتر یوگر ہیں، کو ناجائز طور پر "سیاسی تعلیمِ نو" کیمپس میں زیرِ حراست رکھا گیا ہے۔
آزادانہ تحقیقات اور کیمپ کے سابق قیدیوں کے ساتھ انٹرویوز ان کیمپوں کے اندر منظم زیادتی، جنسی بدسلوکی جسمانی اور نفسیاتی تشدد اور دماغ شوئی کو منظرِ عام پر لائے جو مؤثر طورپر جیلوں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
مزید برآں، ہیومن رائیٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے اپریل میں ایک تفصیلی رپورٹ میں کہا کہ چینی حکام نے متعدد حیلوں بہانوں سے خطے کی دو تہائی مساجد اور دیگر اسلامی مقاماتِ مقدسہ کو نقصان پہنچایا یا تباہ کر دیا ۔
اس کے باوجود مسلمان اکثریتی عرب ممالک کی جانب سے ان وحشتناکیوں کا ردِّ عمل معمولی رہا ہے، اور چند عرب رہنما تو چین کی طرفداری کرنے کی حد تک چلے گئے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات (یو اے ای) اور مصر ان 37 ممالک میں شامل تھے جنہوں نے سنکیانگ میں "تحفظ و سلامتی" کی بحالی کے لیے چین کی پذیرائی کرتے ہوئے 2019 میں اقوامِ متحدہ کی حقوقِ انسانی کاؤنسل کو ایک خط پر دستخط کیے۔
غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ پر مرکوز، مارچ 2019 کی ایک قرارداد میں سعودی اساسی اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی) نے "اپنے مسلمان شہریوں کا خیال رکھنے" کے لیے چین کی کوششوں کو سراہا۔
ایچ آر ڈبلیو نے نوٹ کیا کہ اس قرارداد میں "بیجنگ کے لیے تنقید یا مذمت کا ایک لفظ بھی شامل نہ تھا۔"
سعودی عرب، مصر اور یو اے ای نے بھی بیجنگ کی درخواست پر جلا وطن اویغور کو گرفتار کرتے ہوئے انہیں ملک بدر کر کے چین بھیج دیا۔
مسلم اتحاد
المشارق سے بات کرنے والے مسلمان علما نے کہا کہ اویغور کے ساتھ بدسلوکی جاری رکھنے سے حکومتِ چین کو روکنے کا بہترین طریقہ نچلی سطح سے مہمّات منظم کیا جانا اور چینی مصنوعات کا بائیکاٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ عرب ممالک کو بھی چین کی مسلم اقلیت کے خلاف اس کے جابرانہ اقدامات کی مذمت کے لیے او آئی سی اور خلیج تعاون کاؤنسل (جی سی سی) جیسی تنظیموں اور بلاکس کے ذریعے ایک مشترکہ نقطہٴ نظر اپنانا چاہیئے۔
جامعةالازہر میں شریعت اور قانون کے ایک پروفیسر نائیف عبدالربُ الازہری نے کہا، "دینی نقطہٴ نگاہ سے اگر ایک مسلمان استبداد کا شکار ہو تو دوسرے پر اپنے مسلمان بھائی کی مدد اور حمایت فرض ہے۔"
انہوں نے اس امر پر زور دیتے ہوئے، کہ یہ کئی دہائیوں سے چین سے اویغور طلباء کی میزبانی کرنے والی الازہر کا باقاعدہ نقطہٴ نظر نہیں بلکہ ان کی ذاتی رائے ہے، کہا کہ، "چینی مسلمانوں کو صرف مسلمان ہونے کی وجہ سےا اجتماعی استبداد کا سامنہ ہے۔"
عبدالربُ نے کہا کہ حالیہ برسوں میں الازہر نے چین اور برما میں مسلمانوں کی حمایت میں متعدد بیانات جاری کیے ہیں، جن میں 2015 کا ایک بیان بھی شامل ہے جس میں اویغور کو رمضان کے دوران روزہ رکھنے سے روکنے پر چین پر تنقید کی گئی۔
بیان میں الازہر نے کہا کہ وہ "چین میں اویغور مسلمانوں پر مسلط کی گئی استبداد کی تمام اقسام کو مسترد کرتی ہے۔"
عبدالربُ نے کہا کہ بڑے پیمانے پر معروف احتجاج "حکومتوں کے نظریات میں تبدیلی کا باعث بنیں گے یا چین کو مجبور کریں گے کہ وہ اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے اپنے اقدامات سے پیچھے ہٹ جائے۔"
افغانستان میں ہونے والے ردِّ عمل میں کچھ نقطے کی بات ہے جہاں عسکریت پسند اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے مسلمانانِ عالم سے بیجنگ کے جرائم کے لیے اس کے خلاف جہاد میں متحد ہونے کا مطالبہ کیا ۔
مربوط ردِّ عمل
مصر کے ابن الولید سٹڈیز اینڈ فیلڈ ریسرچ سنٹر کے نئے میڈیا کے ڈائریکٹر مازین ذکی نے چینی مسلمانوں سے متعلق خبروں کے لیے سوشل میڈیا کا مطالعہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے "اسلامی ممالک، بطورِ خاص مشرقِ وسطیٰ میں ان کے لیے ہمدردی کی ایک بڑی لہر دیکھی ہے" لیکن انہوں نے مطابقت اور "بلند ترین سطحوں پر ان آوازوں کے سنے جانے کے لیے ایک متحدہ مہم" کے فقدان کو بھی نوٹ کیا۔
ذکی نے کہا کہ احتجاج کے ساتھ جڑے ہیشٹیگز کا بہتر ارتباط عرب یا اسلامی حکومتوں کو ایسا نقطہٴ نظر اپنانے پر مجبور کرسکتا ہے جو بیجنگ کو اپنے اقدامات سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دے گا۔
جامعة ام القریٰ میں تقابلی علم القانون کے پروفیسر عبداللہ المقرِن نے کہا، "مشرقِ وسطیٰ میں، بطورِ خاص اسلامی ممالک میں چین کے کشادہ [معاشی] مفادات ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ ممالک اسے چینی حکومت پر مسلمانوں کی جانب اپنے اقدامات سے پیچھے ہٹنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے برتری کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔
المقرن نے چین کے اقدامات کے خلاف کھڑے ہونے کے لیے حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے چینی مسلمانوں کے خلاف استبداد کی خبروں کو پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال معروف احتجاجوں کی اثر انگیزی پر زور دیا۔
انہوں نے مزید کہا، "او آئی سی اور جی سی سی جیسے گروہوں کے اجتماعی اقدامات کے برعکس انفرادی طور پر ممالک کے نقطہ ہائے نظر کسی نمایاں نتیجہ کے حامل نہیں ہو سکتے۔"
معاشرتی ذمہ داری
عرب خطہ ریل کی پٹڑیوں، بحری راستوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے ذریعے ایشیا، افریقہ یورپ اور اوشینیا کے 78 ممالک کو ملانے والے 2013 میں شروع ہونے والے ایک بڑے منصوبے، چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی) کا مرکزی حصّہ ہے۔
بی آر آئی کے ذریعے چین نے ایران جیسے زدپزیر ممالک کو قرضوں کی پیش کش کی ہے، جن کے لیے ان کی واپسی مشکل ہو گی، اور اس طرح بیجنگ کو ان پر برتری حاصل ہو جائے گی۔
یہ معاشی شراکت داریاں کسی حد تک وضاحت کرتی ہیں کہ کیوں کچھ ممالک سنکیانگ میں مسلمانوں کے خلاف چین کی خلاف ورزیوں سے متعلق آواز نہیں اٹھاتے۔
المعادی، مصر میں النور مسجد کے امام، الازہر کے عالم شیخ عبدالمنعم محمّد نے کہا کہ چین میں مسلمانوں کے مسئلہ کو مزید توجہ دی جانی چاہیئے۔
انہوں نے المشارق سے بات کرتے ہوئے کہا، "مسجد میں آنے والے متعدد، جو مجھ سے ملتے ہیں اس موضوع سے متعلق قطعی طور پر لاعلم ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ ایسا کچھ ہو رہا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی معاشرتی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ سلوک کے بارے میں عوامی آگاہی پیدا کریں۔
محمّد نے کہا، "مشرقِ وسطیٰ اور اسلامی ممالک میں چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کے مطالبہ جیسی نچلی سطح کی مہمّات حکومتی اور سرکاری نقطہ ہائے نظر کی نسبت زیادہ اثر کن ہو سکتی ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ جیسا کہ عرب خطہ چینی مصنوعات کے لیے ایک بڑی منڈی ہے اور بائیکاٹ چینی معیشت پر نمایاں اثر ڈالے گا، "اگر ایسا ہو جاتا ہے تو یہ چین کے لیے ایک دردناک دھچکہ ہو گا۔"