سلامتی

عالمی اقتدار پر کشمکش میں اضافے کے ساتھ، امریکی فوج نے چین اور روس پر توجہ مرکوز کر دی

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

چین کی کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھے جانے کی 100ویں سالگرہ کے موقع پر، یکم جولائی کو بیجنگ میں تقریبات سے قبل چینی آنر گارڈز عوامی ہیروز کی یادگار پر کھڑے ہیں۔ [وانگ ژاؤ/اے ایف پی]

چین کی کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھے جانے کی 100ویں سالگرہ کے موقع پر، یکم جولائی کو بیجنگ میں تقریبات سے قبل چینی آنر گارڈز عوامی ہیروز کی یادگار پر کھڑے ہیں۔ [وانگ ژاؤ/اے ایف پی]

پینٹاگون نے پیر (29 نومبر) کو ایک جائزے کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے خاکہ پیش کیا کہ امریکی فوج، مشرق وسطیٰ میں فوج کی اتنی تعداد کو، جو ایران اور باغی گروہوں کو قابو کرنے کے لیے کافی ہو، موجود رکھنے کےساتھ ساتھ چین اور روس کو ذہن میں رکھتے ہوئے تعیناتیوں اور اڈوں کو مضبوط بنائے گی۔

حکام نے کہا کہ اس سال کے اوائل میں صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی طرف سے شروع کیے گئے "عالمی طاقت کے جائزے" کی تفصیلات خفیہ رہیں گی تاکہ حریفوں کو ہمارے منصوبوں کے بارے میں پتہ نہ چل سکے۔

پینٹاگون کی ایک اعلی پالیسی اہلکار مارا کارلن نے کہا کہ جائزے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ امریکی فوج کا ترجیحی علاقہ انڈو پیسیفک تھا۔

انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ جائزہ "علاقائی استحکام اور چین کی طرف سے ممکنہ فوجی جارحیت اور شمالی کوریا کے خطرات کو روکنے کے لیے، کیے جانے والے اقدامات کو آگے بڑھانے کے لیے، پورے خطے میں اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ اضافی تعاون کی ہدایت کرتا ہے۔"

روسی صدر ولادیمیر پوٹن یکم دسمبر کو کریملن میں ایک تقریب کے دوران تقریر کر رہے ہیں۔ [میکائل میٹزل/اسپوتنک/ اے ایف پی]

روسی صدر ولادیمیر پوٹن یکم دسمبر کو کریملن میں ایک تقریب کے دوران تقریر کر رہے ہیں۔ [میکائل میٹزل/اسپوتنک/ اے ایف پی]

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، یکم دسمبر کو تہران میں پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران تقریر کرنے کے بعد پوڈیم سے جا رہے ہیں۔ [عطا کنارے/ اے ایف پی]

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، یکم دسمبر کو تہران میں پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران تقریر کرنے کے بعد پوڈیم سے جا رہے ہیں۔ [عطا کنارے/ اے ایف پی]

پینٹاگون نے ایک بیان میں کہا کہ ان اقدامات میں "فوجی شراکت داری کی سرگرمیوں کے لیے زیادہ سے زیادہ علاقائی رسائی کی تلاش؛ آسٹریلیا اور بحرالکاہل کے جزائر میں بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانا اور آسٹریلیا میں گردشی طیاروں کی تعیناتی کی منصوبہ بندی کرنا" شامل ہیں۔

کارلن نے کہا کہ "آسٹریلیا میں، آپ کو نئے گھومنے والے لڑاکا اور بمبار طیاروں کی تعیناتی نظر آئے گی؛ آپ کو زمینی افواج کی تربیت اور لاجسٹک تعاون میں اضافہ نظر آئے گا"۔

انہوں نے کہا کہ گوام، شمالی ماریانا جزائر اور آسٹریلیا میں، ہوائی اڈوں اور ایندھن اور اسلحہ ذخیرہ کرنے کی سہولیات کو جدید بنایا جائے گا۔

اس سوال پر کہ آیا جائزے میں بحرالکاہل کے علاقے میں امریکی موجودگی میں مزید اضافے کی پیش گوئی کی گئی ہے؟ کارلن نے کہا: "ہم تھوڑا سا آگے جا رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ"اور میں جو سوچنا چاہوں گی وہ یہ ہے کہ آنے والے سالوں میں، آپ دیکھیں گے کہ مزید پیش رفت ہو گی"۔

امریکی ترجیحات کی تصدیق اس وقت سامنے آئی ہے جب چین اپنی عسکری طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔

امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا نے چین، جو اپنی بحریہ تیار کر رہا ہے اور ایشیا بھر میں میں کئی دہائیوں سے موجود امریکی فوجی تسلط کو پرکھ رہا ہے، سے مقابلہ کرنے کے لئے، ستمبر میں ایک نئے دفاعی اتحاد کے قیام کا اعلان کیا تھا، جسے اے یو کے یو ایس کہا جاتا ہے۔

یہ اتحاد ایک ایسے وقت پر تشکیل دیا گیا جب بیجنگ متنازعہ جنوبی بحیرہ چین پر اپنا کنٹرول مضبوط اور تائیوان -- جس کی واشنگٹن کی طرف سے قریبی حمایت کی جاتی ہے لیکن بیجنگ اسے اپنا علاقہ قرار دیتا ہے اور دعوی کرتا ہے کہ وہ اس پر ایک دن قبضہ کر لے گا خواہ اس کے لیے اسے طاقت کا استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے-- کے خلاف اپنی فوجی دھمکیوں میں اضافہ کر رہا تھا۔

صدر شی جن پنگ کے دور میں، چین کے ساتھ فوجی تناو، کئی دہائیوں میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے، جس کے لیے اب تائیوان کے فضائی دفاعی علاقے میں لڑاکا طیارے اور جوہری صلاحیت کے حامل بمبار طیارے بھیجنا معمول بن گیا ہے اور سرکاری میڈیا باقاعدگی سے حملے کی مشقوں کی تشہیر کر رہا ہے۔

پینٹاگون کی 3 نومبر کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چین کے پاس 2027 تک 700 قابل ترسیل ایٹمی بم ہو سکتے ہیں اور 2030 تک ان کی تعداد 1,000 تک پہنچ سکتی ہے - ہتھیاروں کا یہ حجم اس تخمینے سے ڈھائی گنا زیادہ ہے جو پینٹاگون نے صرف ایک سال پہلے پیش کیا تھا۔

روس کا مقابلہ کرنا

جائزے کے مطابق، امریکہ روس پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔

کارلن نے کہا کہ یہ جائزہ "یورپ میں روسی جارحیت کے خلاف، جنگی لحاظ سے قابل اعتبار، روک تھام کو مضبوط کرتا ہے اور نیٹو افواج کو زیادہ مؤثر طریقے سے کام کرنے کے قابل بناتا ہے"۔

اس میں کہا گیا کہ فروری 2021 میں امریکی صدر جو بائیڈن نے، جرمنی میں سابقہ انتظامیہ کی جانب سے رکھی گئی 25,000 فعال ڈیوٹی فورس کی حد کو منسوخ کر دیا۔

2014 میں روسی افواج کے یوکرین سے کریمیا کو چھین لیے جانے کے بعد سے، یورپی اتحادیوں کے ساتھ کریملن کے تعلقات خراب ہو گئے ہیں، اور انتخابات میں مداخلت اور جاسوسی کے الزامات کی وجہ سے تناؤ مزید بڑھ گیا ہے۔

مغربی اتحادیوں نے اگست 2020 میں سائبیریا میں کریملن کے سرکردہ نقاد الیکسی ناوالنی کو زہر دینے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ جواب میں ماسکو پر مزید پابندیوں لگا سکتے ہیں۔

ناوالنی قریب قریب ہلاک کر دینے والے زہر سے صحت یاب ہوئے لیکن فروری میں مشکوک الزامات کے تحت انہیں 32 ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔

حالیہ ترین واقعہ میں، بیلاروس جو کہ روس کا قریبی ساتھی ہے، مشرقِ وسطی، افغانستان اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں بے یارومددگار مہاجرین کو مہروں کے طور پر استعمال کر رہا ہے تاکہ یورپین یونین (ای یو) پر دباؤ ڈالا جا سکے کہ وہ پابندیوں کو ختم کر دے۔

عالمی راہنماؤں نے ویگنر گروپ پر مزید پابندیاں لگانے پر اتفاق کیا ہے جو کہ کریمیلن سے گہرے تعلقات رکھنے والا ایک مشکوک روسی نجی کرایے کے فوجیوں کا گروہ ہے۔

ویگنر کرائے کے فوجیوں کو دنیا بھر میں کشیدہ جگہوں کے ایک سلسلے سے جوڑا گیا ہے، خاص طور پر یوکرین، کئی افریقی ممالک اور مشرق وسطیٰ میں ہونے والے تنازعات۔

کریملن اس سال کے شروع میں، فرانس اور جرمنی کی جانب سے اس وقت تنقید کا نشانہ بنا تھا جب ویگنر سے 1,000 جنگجوؤں کو تنازعہ زدہ علاقے مالی بھیجنے کا ایک مبینہ معاہدہ سامنے آیا تھا۔

یورپی یونین نے گزشتہ سال ویگنر کے مبینہ سرمایہ کار یوگینی پریگوزن کو، لیبیا میں اس گروپ کی شمولیت پر، بلیک لسٹ کر دیا تھا، جو کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کے دیرینہ ساتھی تھے۔

ایرانی دھمکیاں

اس جائزے میں کہا گیا کہ دریں اثناء عراق اور افغانستان میں طویل جنگوں کے بعد،مشرق وسطیٰ ابھی بھی پینٹاگون کے لیے تبدیلی کا ایک علاقہ بنا ہوا ہے۔

کارلن نے کہا کہ عالمی ذمہ داریوں کا "تقاضا ہے کہ ہم اپنے مشرق وسطیٰ کی صلاحیتوں میں مسلسل تبدیلیاں لائیں، لیکن ہمارے پاس خطرے کے ماحول کی بنیاد پر خطے میں تیزی سے افواج تعینات کرنے کی صلاحیت ہمیشہ موجود ہے۔

بیان کے مطابق، جائزے نے مشرق وسطیٰ میں، ایران کے بارے میں پینٹاگون کے نقطہ نظر اور افغانستان میں مہمات کے خاتمے کے بعد انسداد دہشت گردی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کا جائزہ لیا۔

اس نے مزید کہا کہ پینٹاگون، عراق اور شام میں، "دولتِ اسلامیہ"(داعش) کے خلاف مہم کی حمایت جاری رکھے گا اور ساتھی افواج کی استعداد کار میں اضافہ کرے گا۔

ایران کی ایٹمی اور عدم استحکام کی سرگرمیاں خصوصی طور پر تشویش کا باعث ہیں۔

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے 17 نومبر کو ایران کے پاس انتہائی افزودہ یورینیم کے ذخیرے کا تخمینہ 2,489.7 کلوگرام لگایا تھا، جو 2015 کے جوہری معاہدے میں طے شدہ حد سے کئی گنا زیادہ ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کل مقدار میں اب 113.8 کلوگرام 20 فیصد تک افزودہ شامل ہے جو کہ ستمبر میں 84.3 کلوگرام تھا اور 60 فیصد تک افزودہ 17.7 کلوگرام ہے جو کہ پہلے 10 کلوگرام تھا۔

ایک الگ رپورٹ، جو کہ 17 نومبر کو ہی جاری کی گئی تھی، میں آئی اے ای اے نے کہا کہ ملک میں غیر اعلانیہ مقامات پر جوہری مواد کی سابقہ موجودگی کے بارے میں ایجنسی کے کئی سوالات کو حل کرنے میں عملی طور پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

گزشتہ دہائی کے دوران، آئی آر جی سی نے شام، لبنان،عراق اور یمن میں اپنی موجودگی قائم کرتے ہوئے، اپنی افواج اور وسائل کا ایک بڑا حصہ علاقائی مداخلت کے لیے مختص کیا ہے۔

فرانزک شواہد نے ایران کو، خطے میں بغیر پائلٹ کے فضائی گاڑیوں (یو اے ویز) کے ذریعے کیے گئے بہت سے حملوں سے جوڑ دیا ہے، جنہیں عام طور پر ڈرون کہا جاتا ہے، حالانکہ ایران نے اپنے کردار کو چھپانے کے لیے اس طریقہ کار کو اپنایا تھا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500