معاشرہ

بحران سنگین ہونے پر پاکستان کی جانب سے افغانستان پر او آئی سی کے اجلاس کی میزبانی کی پیشکش

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

29 نومبر کو کابل میں عالمی خوراک پروگرام کی جانب سے نقد رقوم کی تقسیم کے دوران خواتین قطار میں انتظار کرتے ہوئے۔ [ہیکٹر ریتامل/اے ایف پی]

29 نومبر کو کابل میں عالمی خوراک پروگرام کی جانب سے نقد رقوم کی تقسیم کے دوران خواتین قطار میں انتظار کرتے ہوئے۔ [ہیکٹر ریتامل/اے ایف پی]

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پیر (29 نومبر) کے روز کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے اگلے ماہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی اسی) کے وزرائے خارجہ کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کی پیشکش کی ہے۔

قریشی نے ٹویٹر پر اعلان کیا کہ پاکستان نے 17 دسمبر کو اسلام آباد میں سربراہی اجلاس کی میزبانی کی پیشکش کی ہے۔

اقوام متحدہ (یو این) بارہا خبردار کر چکی ہے کہ افغانستان دنیا کے بدترین انسانی بحران کے دہانے پر ہے، اور قریشی نے کہا کہ او آئی سی پر لازم ہے کہ "ہمارے افغان بھائیوں کی مدد کے لیے آگے آئے"۔

ایک بیان میں ان کا کہنا تھا، "ہمیں افغان عوام کی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنی اجتماعی کوششیں تیز کرنی چاہئیں۔"

6 نومبر کو کابل میں عالمی خوراک پروگرام کی جانب سے خوراک کی تقسیم کے دوران خواتین قطار میں کھڑی ہیں۔ [ہیکٹر ریتامل/اے ایف پی]

6 نومبر کو کابل میں عالمی خوراک پروگرام کی جانب سے خوراک کی تقسیم کے دوران خواتین قطار میں کھڑی ہیں۔ [ہیکٹر ریتامل/اے ایف پی]

پاکستانی پیشکش سعودی عرب، جو اس وقت 57 رکنی گروپ کی سربراہی کر رہا ہے، کی درخواست کے بعد سامنے آئی ہے۔

سابقہ حکومت کے خاتمے کے بعد غالباً یہ افغانستان کے معاملے پر سب سے بڑا بین الاقوامی اجتماع ہو گا۔

اس سے قبل قریشی نے 11 نومبر کو خبردار کیا تھا کہ افغانستان "معاشی تباہی کے دہانے پر ہے" اور بین الاقوامی برادری پر لازم ہے کہ فوری طور پر فنڈنگ دوبارہ شروع کرے اور انسانی امداد فراہم کرے۔

اسلام آباد میں امریکی، چینی، روسی اور دیگر سفارت کاروں کے ایک اجلاس میں قریشی نے کہا کہ "بین الاقوامی برادری کے لیے ہنگامی بنیادوں پر انسانی امداد کی فراہمی پر زور دینا ضروری ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ اس میں افغانستان کو اگست میں افغان حکومت کے خاتمے کے بعد مغربی مخیر ممالک کی جانب سے منجمد فنڈز تک رسائی کے قابل بنانا شامل ہے۔

قریشی کا کہنا تھا کہ فنڈنگ کی روانی کو دوبارہ شروع کرنا "معاشی سرگرمیوں کو دوبارہ پیدا کرنے اور افغان معیشت کو استحکام اور پائیداری کی طرف لے جانے کی ہماری کوششوں میں شامل ہو جائے گا"۔

اشد ضروریات

بین الاقوامی برادری نئی حکومت کے ذریعے امدادی کوششوں کی مالی اعانت کی طرف سے محتاط رہی ہے۔

بین الاقوامی تنظیموں نے افغانوں کو امداد کی فراہمی جاری رکھی ہوئی ہے۔

اقوام متحدہ کے عالمی خوراک پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے گزشتہ ہفتے تاجکستان سے افغانستان کو خوراک کی ترسیل شروع کی تھی، جس میں خطے سے منگوایا گیا 2,500 ٹن گندم کا آٹا فراہم کیا گیا تھا۔

سوموار کے روز ڈبلیو ایف پی نے افغان دارالحکومت میں ملک کے بڑھتے ہوئے انسانی بحران سے شدید متاثرہ تقریباً 3,000 خاندانوں میں سے ہر ایک میں 7,000 افغانی روپے (74 امریکی ڈالر) نقد تقسیم کیے تھے۔

تاہم افغانوں کی ضرورتیں ابھی بھی بہت زیادہ ہیں۔

سیکریٹری جنرل کی نمائندۂ خصوصی اور افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) کی سربراہ ڈیبورا لیونز نے 17 نومبر کو کہا، "افغان عوام کو اب اکیلا چھوڑنا ایک تاریخی غلطی ہو گی -- ایک ایسی غلطی جو اس سے پہلے بھی ہوئی تھی اور اس کے المناک نتائج نکلے تھے۔"

انہوں نے کہا کہ موسم سرما کے قریب آنے کے ساتھ ہی، 23 ملین تک کی تعداد میں افغان غذائی عدم تحفظ کی بحرانی یا ہنگامی سطحات کا شکار ہوں گے۔

مزید برآں، اگرچہ کبھی قحط کا خطرہ دیہی علاقوں تک ہی محدود ہوتا تھا، لیکن افغانستان کے سب سے زیادہ گنجان آباد شہری علاقوں میں سے 10 میں سے اب غذائی عدم تحفظ ہنگامی سطح تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔

23 نومبر کو، اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ سال کے آخر تک افغانستان میں انسانی امداد کے لیے 500 ملین ڈالر سے زیادہ کی اس کی اچانک اپیل پر اب مکمل طور پر فنڈز فراہم کر دیے گئے ہیں۔

عطیہ دینے والے اہم ممالک میں امریکہ، یورپی ممالک اور جاپان تھے جنہوں نے کُل فنڈنگ کے 606 ملین ڈالر کے ہدف تک پہنچنے میں مدد کی۔

یہ فنڈز افغانستان کے 11 ملین محروم ترین لوگوں کی مدد کے لیے دیے گئے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500