معیشت

مایوس افغانوں کے بیٹیاں بیچنے کے فیصلے کے بعد افسوس اور شکستہ خواب

عمران

اگست 2021 میں افغان حکومت کے سقوط کے بعد، شدید غربت اور سختیوں نے چند افغان والدین کو اپنے اہلِ خانہ کی بقا کے لیے تباہ کن اقدام – بچے فروخت کرنے – پر مجبور کر دیا۔ [عبدالرّازق صدیقی /ظہیر زاہد]

غور – چار برس قبل شدید لڑائی کے باعث صوبہ بادغیس کے ضلع قادس سے بھاگنے پر مجبور ہو جانے والے محمّد حسن کو حال ہی میں اپنے خاندان کی بقا کو یقینی بنانے کے لیے – اپنی دو کم عمر بیٹیوں کو بیچنے کا – تباہ کن اقدام کرنا پڑا۔

حسن، جو اب قلعہٴ نوا کے صوبائی صدرمقام میں بے گھر افراد کے ایک کیمپ میں مقیم ہے، نے کہا کہ اس نے یہ فیصلہ اس لیے لیا کیوں کہ اس کا خاندان شدید سختیوں کا سامنا کر رہا ہے۔

حسن نے کہا، "میں نے غربت و افلاس کی وجہ سے اپنی 10 سالہ اور 8 سالہ بیٹیوں کو فروخت کیا۔"

اس نے کہا کہ اس نے اپنی ہر بیٹی کے لیے 200,000 افغان افغانی (2,150 ڈالر) کا مطالبہ کیا، تاہم اسے اب تک نصف رقم ہی ملی ہے۔

فیروز کوہ کے صوبائی صدرمقام غور میں نقل مکانی کرنے والوں کے ایک کیمپ میں 27 اکتوبر کو رخسانہ اپنے پوتوں/نواسوں کے ساتھ دیکھائی گئی ہے۔ [بشکریہ ظہیر زاہد]

فیروز کوہ کے صوبائی صدرمقام غور میں نقل مکانی کرنے والوں کے ایک کیمپ میں 27 اکتوبر کو رخسانہ اپنے پوتوں/نواسوں کے ساتھ دیکھائی گئی ہے۔ [بشکریہ ظہیر زاہد]

28 اکتوبر کو قلعہ نوا کے صوبائی صدرمقام بادغیس میں ایک کیمپ میں ان خاندانوں کے بچے دیکھے جا سکتے ہیں جو حالیہ تشدد کے باعث بے گھر ہو گئے۔ [عبدالرّازق صدیقی]

28 اکتوبر کو قلعہ نوا کے صوبائی صدرمقام بادغیس میں ایک کیمپ میں ان خاندانوں کے بچے دیکھے جا سکتے ہیں جو حالیہ تشدد کے باعث بے گھر ہو گئے۔ [عبدالرّازق صدیقی]

اس نے کہا، "خریدار میری بیٹیوں کو لے گیا ہے، اور مجھے نہ تو ان کا اتا پتہ معلوم ہے نہ ہی خیریت کی کوئی خبر ہے۔"

افغانسان، جہاں اسلامی جمہوریہ افغانستان کی حکومت کے سقوط کے بعد سے غربت اور بے روزگاری میں بے نظیر اضافہ ہوا ہے، میں حسن کے ساتھ ہونے والا تجربہ معمول ہے جس میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔

خوراک اور صحت کے ایک بحران اور بین الاقوامی معاونت میں کمی کے دوران ناامّیدی نے بادغیس اور غور کے صوبوں میں داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد (آئی ڈی پیز) کو شادیوں کے لیے اپنی بیٹیاں فروخت کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

اقوامِ متحدہ آبادی فنڈ (یو این ایف پی اے) کے مطابق، افغان سول قوانین میں شادی کی کم از کم عمر 16 برس رکھی گئی ہے۔ بچپن کی شادیاں غیر قانونی، لیکن عام ہیں۔

یو این ایف پی اے کے مطابق، غریب خاندان اکثر زیادہ جہیز کے لیے خاصی بڑی عمر کے مردوں کو اپنی بیٹیاں بیچ دیتے ہیں۔

صورتِ حال سے آگاہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان مردوں میں سے چند انہیں دوسری یا تیسری بیویوں کے طور پر لیتے ہیں۔۔ ہو سکتا ہے کہ چند واقعات میں "شادی" نہ ہوتی ہو۔

انہیں 50,000 افغان افغانی سے 200,000 افغان افغانی (535 ڈالر تا 2,150 ڈالر) کے درمیان قیمت ملتی ہے۔

بیٹیاں بیچنے والوں میں سے چند نے کہا کہ وہ اپنے دیگر اہلِ خانہ، بطورِ خاص بچوں کو بھوکوں مرنے سے بچانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔

’آنسو اور افسوس‘

فیروز کوہ کے صوبائی صدرمقام غور میں بے گھر افراد کے ایک کیمپ میں اپنے چار پوتوں/نواسوں کے ہمراہ رہنے والی رخسانہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی 6 سالہ پوتی/نواسی زینب کو بیچنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

زینب کے والدین، جو خود بھی بے گھر ہیں، فیروزکوہ میں ایک اور کیمپ میں رہتے ہیں۔

رخسانہ کا کہنا ہے کہ زینب نے گزشتہ کئی ماہ سے ٹھیک سے کھانا نہیں کھایا اور نہ تو حکومت اور نہ ہی انسان دوست تنظیموں نے اس کے اہلِ خانہ کو معاونت فراہم کی۔

اس نے کہا، "میں زینب کو بیچ رہی ہوں تاکہ میں اپنے باقی تین پوتوں/نواسوں کو بھوکوں مرنے اور سرد موسم سے بچانے کا مقدور حاصل کر سکوں۔"

اس نے مزید کہا، "میں نے اپنی پوتی/نواسی کے بدلے100,000 افغان افغانی (1,075 ڈالر) طلب کیے تھے، اور ایک گاہک نے اسے خریدنے کے لیے دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔"

ماؤں کے لیے اپنی بیٹیاں بیچنے پر مجبور ہو جانا بطورِ خاص تکلیف دہ ہے۔

متعدد کا ماننا ہے کہ وہ دوبارہ کبھی اپنے بچوں کو نہیں دیکھ سکیں گے۔

محمّد حسن کی بیوی زلیخا نے کہا کہ وہ اپنے دن رات آنسوؤں اور دکھ میں گزارتی ہے۔

اس نے کہا کہ اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ وہ اپنی بیٹیوں سے علیحدہ ہو جانے پر مجبور کر دی جائے گی۔

زلیخا نے کہا، "اپنی دو بیٹیوں سے الگ ہو جانے کی تکلیف پوری دنیا سے بڑی ہے، اور میں کبھی بھی ان کو بھلا نہیں پاؤں گی۔ مجھے ان دونوں کی بہت یاد آتی ہے اور میں ان کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔"

زلیخا نے کہا، لیکن دیگر اہلِ خانہ کو زندہ رکھنے کے لیے اس کے پاس اپنی بیٹیاں بیچنے کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا۔

شکستہ خواب

قلعہٴ نوا میں بے گھر افراد کے ایک کیمپ میں رہنے والی چار بچوں کی ماں، زرغونہ نے اپنی 11 سالہ بیٹی کو ایک 25 سالہ آدمی سے شادی کے لیے فروخت کیا۔

اس نے کہا کہ وہ ایسا کرنے کے لیے مجبور ہو گئی تھی کیوں کہ اس کا خاندان معاشی سختیوں اور افلاس کا سامنا کر رہا تھا۔

اس نے کہا، "شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد، وہ میری بیٹی کو [ساتھ والے صوبہ] فریاب لے گئے۔ میں اس کے سسرال والوں کو نہیں جانتی اور مجھے نہیں معلوم کہ اب میری بیٹی کہاں ہے اور میں اسے دوبارہ دیکھ بھی سکوں گی یا نہیں۔"

زرغونہ نے کہا کہ اس کی بیٹی اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی تھی، "لیکن میرے خاوند نے غربت اور معاشی چیلنجز کی وجہ سے اس کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کر دی۔"

تیرہ سالہ نجیبہ نے کہا کہ وہ قلعہ نوا میں بے گھر افراد کے ایک کیمپ میں رہنے والے اپنے خاندان کو نہیں چھوڑنا چاہتی، جو اسے 100,000 افغان افغانی میں بیچنا چاہتا ہے۔

اس نے کہا، "میں کسی کے ہاتھوں بکنا نہیں چاہتی کیوں کہ میں پڑھنا چاہتی ہوں اور اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شادی کرنا چاہتی ہوں۔"

اس نے مزید کہا، "یہ درست ہے کہ میں سردی اور بھوک کے باعث رات کو نہیں سوتی، لیکن میرے بہت سے خواب ہیں جنہیں مجھے پورا کرنا ہے، اور سب سے بڑھ کر میں دوسری لڑکیوں کی طرح خوش رہنا چاہتی ہوں۔"

رخسانہ کی چھ سالہ پوتی زینب بھی یہ سن کر اسی طرح گھبرا گئی کہ اسے بیچ دیا جائے گا۔

اس نے کہا، "میری دادی نے مجھے بیچنے کا فیصلہ کر لیا ہے، لیکن میں بکنا نہیں چاہتی۔ میں اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہوں، اور اپنے والدین کے پاس واپس جانا چاہتی ہوں۔"

"میں اپنے خاندان کے ساتھ بڑی ہونا چاہتی ہوں۔ میری خواہش ہے کہ میں اپنی بہن اور دو بھائیوں کے ساتھ رہوں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500