نادِ علی -- افغانستان میں اسلامی جمہوریہ کے خاتمے کے چند ہفتوں کے بعد، جو خاندان لڑائی سے بچنے کے لیے جنوبی اضلاع کی طرف چلے گئے تھے، جب گھروں کو واپس آئے تو انہیں ایک عجیب بات کا سامنا کرنا پڑا: کرکٹ گراونڈ میں سفید اور سرخ رنگ کی جانے والی اینٹوں سے دائرے بنائے گئے تھے۔
پتہ چلا کہ سفید کا مطلب ہے کہ یہ جگہ بچوں کے کھیلنے کے لیے محفوظ ہے۔ مگر سرخ اس بات کا اشارہ ہیں کہ وہاں پر بارودی سرنگیں یا دوسرے ہتھیار دفن ہیں -- ایک ایسی جنگ کی باقیات جس نے گزشتہ چار دہائیوں کے دوران لاکھوں افغان شہریوں کو ہلاک یا معذور کیا ہے۔
ہلمند صوبہ کی نادِ علی ڈسٹرکٹ، جنگ کے آخری دنوں میں صفِ اول بن گئی تھی اور گزشتہ حکومت کے اگست کے وسط میں خاتمے سے پہلے دو ماہ تک محاصرے کا نشانہ بنی تھی۔
جب اس کے شہری ستمبر میں واپس آئے تو انہیں ڈسٹرکٹ کا اسکول گولیوں سے چھلنی ملا، اس کی چھت دھویں سے سیاہ ہو چکی تھی اور بچوں کے جھولے دھات کا ایک ڈھانچہ رہ گئے تھے۔
ہالو ٹرسٹ، جو کہ افغانستان میں بارودی سرنگوں کا خاتمہ کرنے والی این جی او ہے، کے مقامی منتظم جمعہ خان کے مطابق، انہیں یہ بھی پتہ چلا کہ جنگ میں علاقے کو "بارودی سرنگوں سے مکمل طور پر لیس" کیا گیا ہے۔
نئی بچھائی جانے والی بارودی سرنگیں اور دیگر پھندوں کو عمارت کے دروازوں اور کھڑکیوں کے پاس دفن کیا گیا تھا۔
خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ "اندرونی کمروں میں بارودی سرنگیں تھیں اور مرکزی سڑکوں پر بھی بارودری سرنگیں تھیں"۔
اقوامِ متحدہ کی مائن ایکشن سروس (یو این ایم اے ایس) کے مطابق،1988 سے اب تک، تقریبا 41,000 عام افغان شہری بارودی سرنگوں یا نہ پھٹنے والے اسلحے سے ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔
متاثرین میں سے دو تہائی سے زیادہ بچے تھے جن میں سے اکثریت کو، کھیل کے دوران یہ ہلاکت خیز آلات ملے اور انہوں نے انہیں اٹھا لیا۔
ہالو (ہیذرڈس ایریا لائف سپورٹ آرگنائزئشن) کو 1988 میں خصوصی طور پر ایسے اسلحے کو ناکارہ بنانے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا جسے ملک پر روسی قبضے کے دوران پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا۔
تاہم، ملک اتنا زیادہ آلودہ تھا کہ صفائی کا کام کبھی بھی نہیں رکا -- یہاں تک کہ 1997 میں ایک بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کے بعد بھی جس میں بارودی سرنگوں کے استعمال پر پابندی لگائی گئی تھی اور افغانستان نے 2002 میں اس معاہدے کی توثیق بھی کی تھی۔
30 سال سے زیادہ کے عرصے کے بعد، بارودی سرنگوں اور گھریلو ساختہ دھماکہ خیز آلات (آئی ای ڈی) کو دوبارہ بچھایا گیا اور جنگ کے تمام فریقین نے انہیں پیچھے بھی چھوڑا۔
لینڈ مائن اینڈ کلسٹر میونیشن مانیٹر کی 10 نومبر کو شائع ہونے والی سالانہ رپورٹ کے مطابق، بارودی سرنگیں اور آئی ای ڈیز بہت سے ممالک میں، جن میں افغانستان بھی شامل ہے، بے گناہ شہریوں کو نقصان پہنچانا جاری رکھے ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں 2020 کے وسط سے اکتوبر 2021 کے دوران، 100سے زیادہ اموات کی اطلاع ملی ہے۔
دردناک واقعات
ہالو نے ستمبر میں نئی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا تاکہ اس کے 2,500 سے زیادہ افغان ملازمین کام پر واپس آ سکیں۔
اگرچہ بارودی سرنگوں کے خاتمے کی کوششیں جاری ہیں، دھماکے پہلے ہی نادِ علی میں دیہاتیوں کی اموات کا باعث بن چکے ہیں۔
دو ماہ قبل، ایک استاد کی بیوی اس وقت اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہو گئی جب اس نے اپنے گھر کا دروازہ کھولا اور دھماکہ خیز مواد پھٹ پڑا۔
استاد بسم اللہ نے کہا کہ "یہ واقعہ بہت دردناک تھا۔ میں نے اسے اپنی آنکھوں سے ہوتا دیکھا"۔
"میں نے اپنے بچوں کو چیختے اور روتے ہوئے دیکھا ۔۔۔ میں اکیلا ہوں اور پریشانی بہت زیادہ ہے"۔
اس وقت سے، ضلع اور اس کے اسکول کو بارودی سرنگوں کے خاتمے کا "اعلی ترجیحی" زون قرار دے دیا گیا ہے۔
یہ ہالو تھا جس نے سرخ اور سفید پتھروں کا لگایا تھا تاکہ بارودی سرنگیں صاف کرنے والی اپنی 10 ٹیموں کے لیے اس وقت محفوظ راستہ فراہم کیا جا سکے جب وہ دھاتوں کا پتہ لگانے والے آلات سے زمین کا قریبی جائزہ لے رہے ہوں۔ ہر ٹیم میں بارودی سرنگوں کا خاتمہ کرنے والے آٹھ ماہرین ہیں۔
سپروائزر بہرام الدین احمدی نے کہا کہ "جب اسے دھات، بیٹری یا کسی چیز کا پتہ چلتا ہے تو الارم بج جاتا ہے۔ پھر ہم علاقے کی نشاندہی کرتے ہیں اور بہت دھیان سے کھدائی کرتے ہیں"۔
"جیسے ہی ہمیں بارودی سرنگ دکھائی دیتی ہے، ہم ناکارہ بنانے والی ٹیم کو مطلع کرتے ہیں اور مقامی سیکورٹی کو اطلاع دیتے ہیں کیونکہ انہیں زون کو صاف کرنے کی اجازت دینا ہوتی ہے اور پھر ہم اسے اڑا دیتے ہیں"۔
گزشتہ تین ماہ کے دوران، علاقے میں 102 دھماکہ خیز آلات کو ناکارہ بنایا گیا جن میں 25 اس ضلع میں تھے -- مگر خیال ہے کہ یہ زمین اور کچھ گھروں کے اندر دبائی جانے والی بارودی سرنگوں کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔
ہالو کے لیے یہ جنگ کے بعد کے افغانستان میں، وقت کے خلاف دوڑ ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ بارودی سرنگیں رکھنے والے ملک کو ان سے صاف کیا جا سکے۔
ترجیح بچوں کی حفاظت کرنا ہے۔ نادِ علی میں ہالو کے کارکن خطرات کے بارے میں صاف گو تھے۔
ہالو کے پروگرام منیجر نظیف اللہ نے زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھے ہوئے بچوں کے ایک گروہ کو بتایا کہ "براہ مہربانی اس بات کو سمجھیں، اگر آپ ایک ٹانگ سے محروم ہو گئے تو آپ کے والدین کا کتنا خرچ آئے گا اور اگر آپ مر گئے تو کتنا دکھ ہو گا"۔
اس نے بارودی سرنگ کی ایک تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان سے پوچھا "اگر آپ اسے دیکھیں تو آپ کیا کریں گے؟"
آٹھ سالہ نازیہ نے کہا کہ "میں فوری طور پر اپنے خاندان، اپنے بھائی یا مسجد کے امام کو بتا دوں گی"۔
"میں خوفزدہ ہوں مگر مجھے پتہ ہے کہ جب مجھے سفید پتھر نظر آتے ہیں تو میں کھیل سکتی ہوں مگر جہاں سرخ پتھر ہیں وہاں نہیں کھیل سکتی"۔