سلامتی

پاکستان کی جانب سے 2011 میں سعودی سفارتکار کے قتل کی از سرِ نو تحقیقات شروع

از زرق خان

پاکستانی پولیس اہلکار 16 مئی 2011 کو کراچی میں ایک جان لیوا حملے کے بعد سعودی سفارتکار حسن القحطانی کی گولیوں سے چھلنی گاڑی کا معائنہ کرتے ہوئے۔ [رضوان تبسم/اے ایف پی]

پاکستانی پولیس اہلکار 16 مئی 2011 کو کراچی میں ایک جان لیوا حملے کے بعد سعودی سفارتکار حسن القحطانی کی گولیوں سے چھلنی گاڑی کا معائنہ کرتے ہوئے۔ [رضوان تبسم/اے ایف پی]

پاکستان نے کالعدم ایرانی حمایت یافتہ شیعہ عسکریت پسند تنظیم کے ساتھ منسلک 2011 میں کراچی میں ایک سعودی سفارتکار کے قتل کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی ہے۔

موٹر سائیکل سوار مسلح افراد نے 16 مئی 2011 کو کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں سعودی قونصل خانے کے اہلکار حسن القحطانی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

یہ قتل کراچی میں سعودی قونصل خانے، جہاں القحطانی کام کرتے تھے، پر نامعلوم حملہ آوروں کی جانب سے دستی بم پھینکے جانے کے پانچ دن بعد ہوا تھا، تاہم کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ملی تھی۔

دونوں واقعات میں حملہ آور فرار ہو گئے تھے۔

سعودی سفیر نواف بن سعود المالکی کی قیادت میں سعودی حکومت کے ایک وفد کی 2011 میں کراچی میں ایک سعودی سفارتکار کے قتل کی تحقیقات پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے 17 نومبر کو پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سے ملاقات۔ [پاکستانی وزارت داخلہ]

سعودی سفیر نواف بن سعود المالکی کی قیادت میں سعودی حکومت کے ایک وفد کی 2011 میں کراچی میں ایک سعودی سفارتکار کے قتل کی تحقیقات پر تبادلۂ خیال کرنے کے لیے 17 نومبر کو پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد سے ملاقات۔ [پاکستانی وزارت داخلہ]

پاکستانی حکام نے تحقیقات سندھ پولیس کے شعبۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کو منتقل کر دی ہیں، جس نے 13 نومبر کو اس قتل کی تحقیقات کے لیے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) عمر شاہد حامد کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔

سی ٹی ڈی کے ٹرانس نیشنل دہشت گردی سیل کے سربراہ راجہ عمر خطاب، شیعہ عسکریت پسند سیل کی نگرانی کرنے والے علی رضا اور مختلف عسکری اور سویلین انٹیلیجنس ایجنسیوں کے نمائندے بھی کمیٹی کا حصہ ہیں۔

پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے بھی 17 نومبر کو سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی سے ملاقات میں یقین دہانی کرائی تھی کہ سی ٹی ڈی کی تحقیقاتی ٹیم "30 دن کے اندر اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔"

سی ٹی ڈی کے ایک افسر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تحقیقات کو دوبارہ کھولنے اور اسے سی ٹی ڈی کے حوالے کرنے کا بنیادی مقصد ان گروہوں کو بے نقاب کرنا ہے جو پاکستان کی سنی اور شیعہ برادریوں اور سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کو بڑھانا چاہتے ہیں۔

افسر نے مزید کہا، "تحقیقات کو 'انتہائی قومی اہمیت' کا معاملہ قرار دیا گیا ہے۔

پاکستانی حکام نے کالعدم سپاہ محمد پاکستان (ایس ایم پی) کو دونوں حملوں سے منسلک کیا ہے، جو ایک شیعہ دہشت گرد تنظیم ہے جس نے مبینہ طور پر ایرانی حکومت سے معاونت اور فنڈز حاصل کیے ہیں۔

مختلف رپورٹوں میں القحطانی کے قتل میں ایران کے ملوث ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

دسمبر 2018 میں سندھ کے محکمۂ داخلہ کو پیش کردہ ایک رپورٹ میں، اس قتل کی تحقیقات کرنے والے پاکستانی پولیس حکام نے کہا کہ اس قتل میں ملوث تین مرکزی مجرم ایس ایم پی کے المہدی دھڑے کے رکن تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ تین دیگر ملزمان اب ایران میں روپوش ہیں۔

اکتوبر 2011 میں واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی تھی کہ پاکستانی انٹیلیجنس رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے، سعودی حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ حملہ آور ایس ایم پی کا رکن تھا، انہوں نے خاص طور پر یاد دلایا کہ دہشتگرد تنظیم کا تعلق ایران کی سپاہِ پاسدارانِ اسلامی انقلاب (آئی آر جی سی) کی قدس فورس سے ہے، جو تہران کی بیرونی کارروائیوں کی ہدایتکار ہے۔

پاکستانی حکام اور دفاعی تجزیہ کار پاکستان کے اندر ایرانی انٹیلیجنس کی سرگرمیوں کے بڑھتے ہوئے خطرے اور اسلام آباد اور ریاض کے تعلقات پر ان کے اثرات پر خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔

سعودی عرب نے 26 اکتوبر کو پاکستان کو 4.2 بلین ڈالر کی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا، جس سے جنوبی ایشیائی ملک کو سکون کا سانس آئے گا کیونکہ پاکستانی روپے کی قدر اب تک کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے.

شیعہ عسکریت پسند

پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں، بشمول سی ٹی ڈی، نے اُن شیعہ عسکریت پسند گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا ہے جن پر پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینے اور نوجوانوں کو بیرون ملک، خاص طور پر شام میں لڑنے کے لیے بھیجنے کا الزام ہے۔

اگست میں، سی ٹی ڈی نے کراچی کے عائشہ منزل علاقے سے ایس ایم پی کے ایک مبینہ رکن سید علی رضا نقوی کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا۔

سی ٹی ڈی کے ایک افسر اسرار اعوان کے مطابق، نقوی گزشتہ تین دہائیوں سے کراچی میں علمائے دین اور حریف سنی فرقوں کے ارکان کے قتل میں ملوث تھا۔

اعوان نے کہا، "گرفتار عسکریت پسند کا تعلق کالعدم ایس ایم پی سے ہے اور اس کا رابطہ زینبیون بریگیڈ کے جنگجوؤں سے تھا، جو کہ پاکستانیوں پر مشتمل ملیشیاء ہے جو الاسد کی حکومت کی حمایت میں شام میں لڑنے کے لیے بھیجی گئی تھی.

جنوری میں، کراچی میں ایک چھاپے کے دوران سی ٹی ڈی نے زینبیون بریگیڈ کے ایک "مطلوب ترین" ملزم عباس جعفری کو بھی گرفتار کیا تھا.

پولیس کا کہنا ہے کہ جعفری، کراچی میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے جاسوسی کرنے کے علاوہ، مبینہ طور پر شیعہ نوجوانوں کو بھرتی کرنے اور انہیں آئی آر جی سی کی زیرِ ہدایت جنگوں میں لڑنے کے لیے بیرون ملک بھیجنے میں ملوث تھا۔

امریکی محکمۂ خزانہ نے جنوری میں "ان غیر قانونی نیٹ ورکس جو [ایرانی] حکومت دنیا بھر میں دہشت گردی اور بدامنی کو برآمد کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے"، کو بند کرنے کی کوششوں کے ایک جزو کے طور پر زینبیون بریگیڈ کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔

پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق، ایسے شیعہ عسکریت پسند گروہوں، خصوصاً ایس ایم پی اور زینبیون بریگیڈ کو، خطے میں ایرانی اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کے جزو کے طور پر تہران کی حمایت حاصل ہے۔

سی ٹی ڈی نے جون میں اپنی ریڈ بک کا تازہ ترین شمارہ شائع کیا تھا، جس میں مطلوب دہشت گرد اور عسکریت پسند ملزمان کی فہرست ہے، جس میں ایس ایم پی کے 24 ارکان اور زینبیون بریگیڈ کے چار عسکریت پسندوں کے نام شامل ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500