سیاست

قانی کی بے دم قیادت میں آئی آر جی سی کی قدس فورس جمود کی شکار

از فارس العمران

4 جنوری 2020 کو ایرانی افراد آئی آر جی سی-کیو ایف کے نئے مقرر کردہ کمانڈر اسماعیل قانی کے پیش رو قاسم سلیمانی کے قتل کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ایک ریلی کے دوران قانی کے پورٹریٹ اٹھا ئے ہوئے ہیں۔ [عطاء کنارے/اے ایف پی]

4 جنوری 2020 کو ایرانی افراد آئی آر جی سی-کیو ایف کے نئے مقرر کردہ کمانڈر اسماعیل قانی کے پیش رو قاسم سلیمانی کے قتل کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے ایک ریلی کے دوران قانی کے پورٹریٹ اٹھا ئے ہوئے ہیں۔ [عطاء کنارے/اے ایف پی]

سپاہِ پاسدارانِ اسلامی انقلاب کی قدس فورس (آئی آر جی سی-کیو ایف) جو ایران کی بیرونی کارروائیوں کی رہنمائی کرتی ہے، اس کا اثر و رسوخ جو کبھی بہت مضبوط ہوا کرتا تھا بریگیڈیئر جنرل اسماعیل قانی کی قیادت میں کمزور ہوتا جا رہا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ جنوری 2020 میں اپنے پیشرو، قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد، مختصر نوٹس پر سربراہی سنبھالنے کے بعد، قانی اپنے نئے کردار میں خود کو ممتاز کرنے میں، اور کوئی قابل ذکر کامیابیاں اپنے نام کروانے میں ناکام رہے ہیں۔

ایرانی رہبر علی خامنہ ای کی جانب سے سلیمانی کی جگہ پُر کرنے کے لیے قانی کی تقرری کے ساتھ ہی ریاستی میڈیا کی قیادت میں ایک شدید پروپیگنڈہ مہم چلائی گئی تھی، جس کا مقصد سلیمانی کی ہلاکت کے مکمل اثرات کو گھٹا کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔

مبصرین کا کہنا ہے، لیکن پسِ پردہ، یہ بات سبھی کو معلوم تھی کہ سلیمانی کے قتل نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

آئی آر جی سی-کیو ایف کے کمانڈر، بریگیڈیئر جنرل اسماعیل قانی، یہاں ایک نامعلوم تاریخ کو لی گئی تصویر میں نظر آ رہے ہیں۔ [ایران الیوم]

آئی آر جی سی-کیو ایف کے کمانڈر، بریگیڈیئر جنرل اسماعیل قانی، یہاں ایک نامعلوم تاریخ کو لی گئی تصویر میں نظر آ رہے ہیں۔ [ایران الیوم]

انہوں نے مزید کہا کہ جیسے جیسے قانی اس عہدے پر اپنی دوسری سالگرہ کے قریب پہنچ رہے ہیں، بہت سے ایرانی اب اس بات پر یقین کر رہے ہیں کہ وہ اتنی اہلیت نہیں رکھتے ہیں جیسا کہ خطے میں آئی آر جی سی کے کم ہوتے ہوئے اثر و رسوخ سے ظاہر ہوتا ہے۔

بے دم کارکردگی

عراقی عسکری ماہر حاتم الفلاحی نے کہا کہ قانی کو ایک تجربہ کار کمانڈر جو ایران کے بیرونی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کافی حد تک اہل ہے، کے طور پر پیش کرنے کی حکومتی کوششوں کے باوجود، ان کی کارکردگی "کمزور، یا بڑی حد تک ناکام" رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی آر جی سی-کیو ایف کے نئے کمانڈر "سلیمانی کے چھوڑے ہوئے خلا کو پُر کرنے یا اپنے نام کے ساتھ کسی کامیابی کو منسلک کرنے سے قاصر ثابت ہوئے ہیں اور ایرانی حکومت قائل ہو چکی ہے کہ وہ چیلنجز کا سامنا نہیں کر سکتے"۔

الفلاحی نے کہا کہ قانی کی بے دم قیادت نے ایرانی حکومت کو مایوس کیا ہے، جس نے عراق، شام اور یمن میں ایران کے اثر و رسوخ کو کم ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ناکامی کے بہت سے اشارے ہیں، لیکن ان میں سب سے واضح "عراق میں اپنے روایتی اتحادیوں پر ایران کی گرفت کا ڈھیلا ہونا" ہے -- جو اس کی پراکسی ملیشیاء ہے۔

انہوں نے کہا کہ بغداد کے اپنے خفیہ دوروں کے دوران، قانی ملیشیاؤں پر اختیار استعمال کرنے سے قاصر رہا ہے، جنہوں نے احکامات کی "مکمل اطاعت کا مظاہرہ نہ کرنا" شروع کر دیا ہے اور تفصیلات پر جھگڑا کرنا شروع کر دیا ہے، خصوصاً جب وہ ان کے مفادات کو متاثر کرتے ہوں۔

قانی نے اس وقت بے اختیار ہونے کا مظاہرہ کیا جب وہ بغداد میں جون میں ہونے والے ایک اجلاس کے دوران ملیشیاء کے رہنماؤں کو راکٹ حملے بند کرنے اور عراقی حکومت کے خلاف ان کی بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے قائل کرنے میں ناکام رہے۔

عراقی حکومت نے ایران کے رہنماؤں سے کہا تھا کہ وہ اپنے گروہوں کو "لگام" دیں۔

ملیشیاؤں کا ایک اتحاد جو خود کو "عراقی مزاحمتی رابطہ کمیٹی" کہتا ہے جو عصائب اہل الحق، سید الشہداء اور کتائب حزب اللہ سے منسلک چھوٹے دھڑوں پر مشتمل ہے، ایران کی ہدایات کی خلاف ورزی اور ان سے کنارہ کشی جاری رکھے ہوئے ہے۔

اختلافات اور دھچکے

حالیہ مہینوں میں عراق میں ایران سے منسلک ملیشیاؤں میں خراج کی رقم، اسمگلنگ کی دکانوں اور منشیات کی اسمگلنگ کے تنازعات کے نتیجے میں، اور جب وہ طاقت اور اثر و رسوخ کے لیے سرگرم ہیں، تو ان میں اختلافات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

الفلاحی نے کہا، اس صورتحال کا سامنا کرتے ہوئے، قانی اتنا بااثر نہیں ہے کہ "ملیشیاؤں کو اپنی مرضی کے آگے جھکنے پر مجبور کر دے یا غصہ کرنے کے بارے میں دو بار سوچے"۔

انہوں نے کہا، "وہ ایک طویل عرصے تک افغانستان اور پاکستان کے ڈوزیئرز کے انچارج تھے، لیکن اب وہ زیادہ پیچیدہ اور ایک مختلف جغرافیہ کے ڈوزیئر سے نمٹ رہے ہیں، اور وہ یقیناً کوئی نئے سلیمانی نہیں ہیں جیسا کہ ایران نے ان کے بارے میں تصور کر لیا تھا۔"

انہوں نے کہا کہ قانی کو عربی نہیں آتی، اور عراقی اور علاقائی ڈوزیئرز کے ساتھ ذہانت اور پیشہ ورانہ طریقے سے نمٹنے کے لیے اس کے پاس کافی تجربہ نہیں ہے۔ اس کے پاس آئی آر جی سی کی علاقائی پراکسیوں کے لیے اسلحے کی سمگلنگ کی براہ راست کارروائیاں کرنے کی مہارت کا بھی فقدان ہے۔

آئی آر جی سی-کیو ایف کی ناکامیوں کی حالیہ مثالوں میں عراق-شام سرحد کے قریب بین الاقوامی اتحاد کے کامیاب فضائی حملے شامل ہیں جن میں ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنے کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا جنہیں ایران سے منسلک ملیشیائیں اور سرحد پار ایرانی ہتھیار لے جانے والے قافلے استعمال کرتے ہیں۔

مزید برآں، یمن میں حوثیوں کے لیے ایرانی ہتھیاروں کی کھیپ بحیرۂ عرب کے پانیوں میں ضبط کر لی گئی ہے۔

عراقی مصنف اور صحافی ہلال العبیدی نے کہا کہ قانی "سلیمانی کے شروع کردہ منصوبے کو آگے بڑھانے یا آئی آر جی سی کے لیے ٹھوس یا اہم نتائج حاصل کرنے سے قاصر ہے۔"

انہوں نے کہا، "ان کے اور سلیمانی کے درمیان موازنہ واضح طور پر ان کی کمی کو دو افراد کے کام کے درمیان بنیادی فرق سے ظاہر کرتا ہے، خاص طور پر اگر ہم میدانِ عمل پر ہر ایک کی کامیابیوں، ان کے کردار اور علاقائی اور بین الاقوامی روابط کو درج کریں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500