اسلام قلعہ، افغانستان – امدادی ایجنسیوں اور مشاہدین کا کہنا ہے کہ قحط کے خدشہ کے باوجود ایران دسیوں ہزاروں افغانوں کو واپس افغانستان بھیج رہا ہے، جبکہ متعدد جلاوطن کنندگان نے ایرانی حکام کی جانب سے بدسلوکی کی اطلاعات دی ہیں۔
کئی دہائیوں کے تنازع کے دوران تشدد اور بکھری ہوئی معیشت سے فرار کی تلاش میں دسیوں لاکھوں افغان سرحد پار کر کے اپنے مغربی ہمسایوں کی طرف چلے گئے ۔
اگست میں افغان حکومت کے سکوت نے – بین الاقوامی امداد کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالتے ہوئے – عین اس وقت بحران کو کئی گنا بڑھا دیا جب نصف سے زائد آبادی ایک شدید قحط کی وجہ سے خوراک کی شدید قلت کا سامنا کر رہی ہے۔
لیکن، باوجودیکہ ہولناک صورتِ حال ان کی منتظر ہے، ایران مسلسل افغانوں کو سرحد پار بھیجنے کے لیے مجبور کر رہا ہے۔
’وہ ہمیں انسان نہیں سمجھتے‘
واپس لوٹنے والے افغان، جنہوں نے اے ایف پی سے بات کی، نے بتایا کہ انہیں پرہجوم، غلیظ حراستی کیمپوں میں رکھا گیا جہاں کچھ کو سرحدی گزرگاہ بھیجے جانے سے قبل پیٹا جاتا تھا۔
ہر دوپہر کے آغاز میں، تھکے ماندے خاندانوں سے لدی بسیں، ایران کے ساتھ مرکزی سرحدی گزرگاہ کے افغانستان کی جانب، اسلام قلعہ پہنچتیں۔
اے ایف پی نے سرحد پر اور قریبی شہر ہرات میں واپس لوٹنے والے تقریباً 20 افغانوں سے بات کی، جنہوں نے بتایا کہ جن کے پاس بس کے ٹکٹ خریدنے کے پیسے نہیں انہیں حراستی کیمپوں میں رکھا جاتا تھا۔
جو کسی صحافی سے بات کرنے کو تیار ہوئے انہوں نے بدسلوکی کی داستانیں سنائیں۔
مجید نامی ایک جلاوطن نے کہا کہ حکام نے ان کے موبائل فون ضبط کر لیے تاکہ وہ صورتِ حال کو دستاویزی صورت نہ دے سکیں۔
انہوں نے مزید کہا، "یہ کیمپ گنجائش سے زیادہ پر ہجوم ہے؛ لوگ نہایت غلیظ ہیں۔ جن کے پاس خوراک خریدنے کے پیسے نہیں انہیں صرف بچی ہوئی روٹی ہی ملتی ہے۔"
موسمِ سرما میں ٹھنڈ کی پہلی لہر کے آتے ہی، اپنے آبائی وطن کو دھکیل دیے جانے والے افغانوں کو غیر یقینی پر مبنی مستقبل کا سامنا ہے۔
جلا وطن کر کے افغانستان بھیج دیے جانے کے بعد 19 سالہ عبدالصمد نے سرحد پر اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، "ہم یہاں سرگرداں رہیں گے۔"
"ہمیں نہیں معلوم کہ اپنے گھروں کو واپس جانے کے لیے پیسہ کہاں سے لائیں۔"
دیگر پناہ گزینوں نے کہا کہ انہیں ایرانی حکام کے ہاتھوں تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
صمد، جو جلا وطن کیے جانے سے قبل ایران میں شعبہ تعمیرات میں کام کرتا تھا، نے کہا، "وہ ہمیں انسان نہیں سمجھتے۔"
صمد نے کہا کہ ایرانی حکام نے سرحد پر ایک مہاجر حراستی کیمپ میں اسے اس لیے پیٹا کہ اس کے پاس جلا وطنی کے لیے پیسے نہیں تھے۔
اس نے کہا، "انہوں نے ہمارے ہاتھ باندھ دیے اور ہمارے آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور ہماری بے عزتی کی۔"
مایوسی، تشدد
صمد اور دیگر کی شہادتوں کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی، اور اقوامِ متحدہ (یو این) کی ایجنسیوں نے مخصوصات پر رائے نہیں دی۔
تاہم یہ لوگ ایسے الزامات لگانے والے پہلے نہیں۔
ایران سے نکالے جانے والے دیگر افغانوں نے گزشتہ ستمبر سلام ٹائمز کو اپنے ابتلا سے آگاہ کیا۔
صوبہ ہرات کے ایک رہائشی میرواعظ یاوری نے 19 ستمبر کو اسلام قلعہ پر کہا کہ ایرانی پولیس افغان پناہ گزینوں کو جانور سمجھتی ہے – وہ انہیں پیٹتے ہیں اور تشدد کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا، "ایرانی حکومت خود کو اسلامی جمہوریہ کہتی ہے، لیکن درحقیقت وہ کافروں کی جمہوریہ ہے۔"
یاوری نے کہا، "حالیہ برسوں میں افغانوں اندر ناامیدی بڑھ رہی ہے کیوں کہ ملک کے اندر ملازمت کے مواقع نہایت کم ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ چند ایک ہی ایران جا کر معاش کما سکتے ہیں کیوں کہ ایرانی حکام افغانوں کی اجرتیں ضبط کر لیتے ہیں، ان پر تشدد کرتے ہیں اور انہیں جلا وطن کر کے افغانستان بھیج دیتے ہیں۔
19 ستمبر کو ملک بدر کیے جانے والے سید احمد احمدی نے کہا کہ ایرانی پولیس نے اسے ااور اس کے دوست کو گرفتار کرنے کے بعد انہیں پیٹا اور ان پر تشدد کیا۔
اس نے یاد کرتے ہوئے کہا، "ایرانی پولیس نے ہمیں جانوروں کی آوازیں نکالنے پر مجبور کیا"، اس نے مزید کہا کہ وہ افغان نوجوانوں کو بری طرح سے پیٹتے ہیں۔
اس نے کہا کہ ایرانی حکام انہیں سونے نہیں دیتے اور کئی گھنٹوں تک انہیں کھڑا رکھتے ہیں۔
احمدی نے کہا، "ایرانی پولیس نے ہم سے تمام پیسہ چھین لیا؛ ہمارے پاس پانی کی بوتل تک خریدنے کے پیسے نہیں۔"
ایران سے ملک بدر کیے جانے والے، ضلع زندہ جن کے ایک رہائشی، محمّد فہیم کامرانی نے کہا کہ اس نے بنا خوراک کے ایک ایرانی جیل میں آٹھ دن گزارے۔
اس نے کہا، "انہوں نے ہم سب —تقریباً 10 افراد—کو ایک چھوٹے بیت الخلاء میں محسور رکھا،" اس نے مزید کہا کہ بیت الخلا پانی سے بھرا ہوا تھا اور انہوں نے اگلی صبح تک رات وہیں گزاری۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی سیکیورٹی فورسز نے متعدد حیلوں سے افغان پناہ گزینوں سے زبردستی پیسہ بھی لیا اور احتجاج کرنے والوں کو پیٹا بھی۔
اس نے مزید کہا کہ متعدد افغان کارکنان کو ایرانی آجروں سے اپنی اجرت نہیں ملی، اور ایرانی سکیورٹی فورسز نے وہ پیسہ ضبط کر لیا جو ان میں سے چند افراد کسی طرح سے اپنے ساتھ لے آئے تھے۔
’شکتہ اور شکتہ شد‘
بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرین (آئی او ایم) کے مطابق، رواں برس ایران سے دس لاکھ سے زائد افغان واپس بھیجے گئے – بشمول 28,000 جو اکتوبر کے آخری ہفتہ میں بھیجے گئے۔
آئی او ایم کے ڈائریکٹر جنرل انٹونیو وٹورنیو نے ایک بیان میں کہا کہ ملک میں واپس لوٹنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے افغانستان کو درپیش چیلنجز میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا، "اکثریت کو جلا وطن کیا گیا، جو صحت کی معاونت، خوراک اور دیگر کی ضرورت کے ساتھ شکستہ اور شکتہ شد حالت میں افغانستان لوٹے۔"
21 اور 27 اکتوبر کے درمیان، حالیہ عرصہ کے لیے آئی او ایم کے پاس ایران سے لوٹنے والے 28,115 افغان مہاجرین کی تعداد ہے، اور رواں برس اب تک 1,031,757 افراد واپس لوٹے ہیں۔
آئی او ایم جو سرحد پر ضرورت مندوں کو معاونت فراہم کرتا ہے، نے گزشتہ ماہ اے ایف پی کو بتایا کہ اس نے رواں برس ایران سے سرحد پار کرنے والوں میں کم از کم 3,200 لا وارث بچوں کی گنتی کی۔
اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) نے تمام ملکوں سے اپیل کی ہے کہ وہ "شدید غیر مستحکم صورتِ حال" کے پیشِ نظر افغانستان کو جبری واپسیاں روکیں، اور یہ حکومتِ ایران سے مسلسل وکالت کر رہا ہے۔
ایران نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ افغان پناہ گزینوں کا خیر مقدم کر رہا ہے اور انہیں درکار معاونت فراہم کر رہا ہے اور یہ کہ اس نے حالیہ ہفتوں میں امدادی سامان افغانستان بھیجا ہے۔
ایرانی میڈیا نے اکتوبر کے اواخر میں اقوامِ متحدہ کے لیے ایران کے سفیر ماجد تخت روانچی کے حوالہ سے کہا، "ہم بین الاقوامی برادری سے بنا کوئی نئے وسائل موصول کیے اپنے افغان بھائیوں کی میزبانی کر رہے ہیں۔"
تاہم، ریاست کے زیرِ انتظام تہران ٹائمز کے مطابق، ایران کے وزیرِ داخلہ احمد واحدی نے گزشتہ ماہ یہ کہتے ہوئے افغانوں سے ملک میں نہ آنے کا مطالبہ کیا کہ "ہمارے وسائل محدود ہیں"۔
یو این ایچ سی آر کے مطابق، 2020 میں ایران نے دو ملین کے قریب غیر دستاویزی مہاجرین اور 800,000 پناہ گزینوں سمیت 3.4 ملین سے زائد افغانوں کو پناہ فراہم کی۔
ایران کو اپنے جوہری منصوبے سے منسلک امریکی پابندیوں اور تباہ کن COVID-19 پھیلاؤ کے نتیجہ میں اپنے معاشی المیوں کا سامنا ہے۔