حقوقِ انسانی

بیلاروس میں مایوس تارکین وطن روس کے جغرافیائی و سیاسی پیادے

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

8 نومبر کو لی گئی ایک تصویر میں بیلاروس-پولینڈ کی سرحد پر گروڈنو کے علاقے میں تارکین وطن کو دکھایا گیا ہے۔ پولینڈ نے 8 نومبر کو کہا کہ بیلاروس میں سینکڑوں تارکین وطن اس کی سرحد پر اتر رہے ہیں جس کا مقصد یورپی یونین کے رکن ملک میں زبردستی داخل ہونا ہے جسے نیٹو نے منسک کی طرف سے ایک دانستہ حربہ قرار دیا۔ [لیونڈ شیگلوف / بیلٹا / اے ایف پی]

8 نومبر کو لی گئی ایک تصویر میں بیلاروس-پولینڈ کی سرحد پر گروڈنو کے علاقے میں تارکین وطن کو دکھایا گیا ہے۔ پولینڈ نے 8 نومبر کو کہا کہ بیلاروس میں سینکڑوں تارکین وطن اس کی سرحد پر اتر رہے ہیں جس کا مقصد یورپی یونین کے رکن ملک میں زبردستی داخل ہونا ہے جسے نیٹو نے منسک کی طرف سے ایک دانستہ حربہ قرار دیا۔ [لیونڈ شیگلوف / بیلٹا / اے ایف پی]

بیلاروس، اپنے قریبی اتحادی روس کی شہہ پر، مشرق وسطیٰ، افغانستان اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مایوس تارکین وطن کو جغرافیائی و سیاسی کھیل میں پیادوں کے طور پر استعمال کر رہا ہے تاکہ یورپی یونین (ای یو) پر پابندیاں ہٹانے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔

پولینڈ کے وزیر اعظم میٹیوز موراویکی نے منگل (9 نومبر) کو روسی رہنماء ولادیمیر پیوٹن پر بیلاروس سے غیر قانونی طور پر پولینڈ میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کی ایک بے مثال لہر کو منظم کرنے کا الزام لگایا۔

انہوں نے کہا کہ اس اقدام، جس نے سینکڑوں تارکین وطن کو پولینڈ-بیلاروس کی سرحد پر پھنسا دیا ہے، سے یورپی یونین کے غیر مستحکم ہونے کا خطرہ ہے۔

پولینڈ کی پارلیمنٹ کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے موراویکی نے کہا، "یہ حملہ جو [بیلاروس کے صدر الیگزینڈر] لیوکاشینکا کر رہا ہے اس کا منصوبہ ساز ماسکو میں ہے؛ منصوبہ صدر پیوٹن نے بنایا ہے۔"

20 اگست کو، بیلاروس کے ساتھ سرحد کے قریب بیالیسٹوک، پولینڈ کے قریب واقع اسنارز گورنی گاؤں میں، تارکین وطن کے ایک گروہ، جس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ اس کا تعلق افغانستان سے ہے، کا ایک رکن پولینڈ میں بین الاقوامی تحفظ حاصل کرنے کے لیے پولینڈ کے رضاکار وکلاء سے، صحافیوں اور پولش پارلیمنٹ کے نمائندوں کی موجودگی میں، اپنی خواہش کی تصدیق کرنے کی کوشش کرتے ہوئے۔ [ووجتک رادوانسکی/اے ایف پی]

20 اگست کو، بیلاروس کے ساتھ سرحد کے قریب بیالیسٹوک، پولینڈ کے قریب واقع اسنارز گورنی گاؤں میں، تارکین وطن کے ایک گروہ، جس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ اس کا تعلق افغانستان سے ہے، کا ایک رکن پولینڈ میں بین الاقوامی تحفظ حاصل کرنے کے لیے پولینڈ کے رضاکار وکلاء سے، صحافیوں اور پولش پارلیمنٹ کے نمائندوں کی موجودگی میں، اپنی خواہش کی تصدیق کرنے کی کوشش کرتے ہوئے۔ [ووجتک رادوانسکی/اے ایف پی]

9 نومبر کو پولینڈ-بیلاروس کی سرحد کے قریب، ضحک، عراق سے تعلق رکھنے والے ایک کرد خاندان کو این جی او گروپا گرانیکا (سرحدی گروپ) کے کارکنان کی جانب سے مدد فراہم کی گئی جب وہ انتظار کر رہے تھے کہ سرحدی محافظ انہیں ناریوکا، پولینڈ لے جائیں۔ خاندان نے تقریباً 20 روز جنگل میں گزارے اور انہیں آٹھ بار بیلاروس میں واپس دھکیل دیا گیا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں بیلاروسی فوجیوں نے مارا اور کتوں سے ڈرایا۔ [ووجتک رادوانسکی / اے ایف پی]

9 نومبر کو پولینڈ-بیلاروس کی سرحد کے قریب، ضحک، عراق سے تعلق رکھنے والے ایک کرد خاندان کو این جی او گروپا گرانیکا (سرحدی گروپ) کے کارکنان کی جانب سے مدد فراہم کی گئی جب وہ انتظار کر رہے تھے کہ سرحدی محافظ انہیں ناریوکا، پولینڈ لے جائیں۔ خاندان نے تقریباً 20 روز جنگل میں گزارے اور انہیں آٹھ بار بیلاروس میں واپس دھکیل دیا گیا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں بیلاروسی فوجیوں نے مارا اور کتوں سے ڈرایا۔ [ووجتک رادوانسکی / اے ایف پی]

کئی مہینوں سے ناقدین کا کہنا ہے کہ لیوکاشینکا یورپی یونین کی پابندیوں کا بدلہ لینے کے لیے مشرق وسطیٰ سے تارکین وطن کو سرحد پار بھیجنے کے لیے اپنے ملک میں ورغلا کر لا رہے ہیں۔

بیلاروس نے اس دعوے کی تردید کی ہے اور پولینڈ پر تارکین وطن کو داخلے کی اجازت دینے سے انکار کرکے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔

کشیدہ صورتحال نے سرحد پر تصادم کا خطرہ پیدا کر دیا ہے جہاں دونوں ممالک کے فوجی دستے تعینات ہیں۔

بدھ کے روز پولینڈ کی پولیس نے کہا کہ انہوں نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بیلاروس سے پولینڈ میں داخل ہونے والے 50 سے زائد تارکین وطن کو حراست میں لیا ہے، اور ابھی بھی دیگر کی تلاش میں ہیں، کیونکہ وارسا نے کراسنگ میں اضافے کا اشارہ دیا تھا۔

سرحدی خلاف ورزیوں پر اکسانا

پیر کے روز پولینڈ نے کہا کہ اس نے سینکڑوں تارکین وطن کی بیلاروس سے غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا تھا لیکن یہ کہ ہزاروں مزید لوگ راستے میں تھے۔

پولینڈ کے سرحدی محافظوں نے ویڈیو فوٹیج ٹویٹ کی جس میں تارکین وطن کو تار کٹرز اور شاخوں کا استعمال کرتے ہوئے سرحدی باڑ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

پولینڈ کے وزیر دفاع ماریوز بلاسزیزک نے بدھ کے روز پولش ریڈیو کو بتایا، "صورتحال پُرسکون نہیں ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ تارکین وطن کے چھوٹے چھوٹے گروہ اب یورپی یونین اور نیٹو کے رکن ممالک کی سرحدیں پار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وزارت دفاع نے یہ الزام بھی لگایا کہ بیلاروسی حکام تارکین وطن کو سرحد پار کرنے پر مجبور کرنے کے لیے دھمکیاں دے رہے ہیں۔

پولینڈ کی وزارت دفاع نے بدھ کے روز سوشل میڈیا پر دو ویڈیو کلپ پوسٹ کیے تھے جن میں ایک مسلح شخص کی جانب سے سرحد کے بیلاروسی جانب مبینہ طور پر گولی چلائی گئی تھی۔

پولش حکومت کے ترجمان پیوٹر مُلر نے کہا کہ سرحد کے قریب 3,000 سے 4,000 تارکین وطن تھے، اور انہوں نے الزام لگایا کہ پیر کے روز ہونے والی خلاف ورزی کو "بیلاروس کی سپیشل سروسز سے منسلک افراد" نے منظم کیا تھا۔

امریکہ نے منسک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تارکین وطن کی منظم آمد کو روکے، جبکہ یورپی یونین نے حکومت کے خلاف نئی پابندیوں کا مطالبہ کیا ہے۔

نیٹو نے منسک پر تارکین وطن کو سیاسی پیادوں کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔

'سیاسی پیادے'

نیٹو نے بیلاروس کی جانب سے یورپی یونین پر دباؤ ڈالنے کے لیے تارکین وطن کے استعمال کو "ناقابل قبول" قرار دیتے ہوئے، سرحد پر "کشیدگی" کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔

یورپی کمیشن (ای سی) کی صدر ارسولا وون ڈیر لیئن نے پیر کے روز رکن ممالک سے بیلاروس کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔ یورپی کمیشن یورپی یونین کی انتظامی شاخ ہے۔

انہوں نے ایک بیان میں کہا، "سیاسی مقاصد کے لیے تارکین وطن کا استعمال ناقابل قبول ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ برسلز اس بات کا بھی جائزہ لے گا کہ تارکین وطن کو بیلاروس لانے والی "تیسرے ملک کی ایئر لائنوں" پر کیسے پابندی لگائی جائے۔

منسک نے مبینہ طور پر عراق اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک سے تارکین وطن کو بیلاروس جانے کی اجازت دیتے ہوئے خصوصی ویزے جاری کیے ہیں۔ اس کے بعد وہ بیلاروس-پولینڈ کی سرحد پر چلے جاتے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے دیگر علمبرداروں کے مطابق، سرحدی علاقے میں جمع ہونے والے مہاجرین میں 32 افغان شامل ہیں جو اگست سے وہاں پھنسے ہوئے ہیں، اور کوئی بھی ملک انہیں داخل نہیں ہونے دے رہا۔

امریکی محکمۂ خارجہ نے بیلاروس کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ "اپنی سرحدوں سے یورپ میں غیر قانونی تارکین وطن کے بہاؤ کو منظم کرنے اور مجبور کرنے کی مہم کو فوری طور پر روک دے"۔

درمیان میں پھنسے ہوئے، تارکین وطن اکثر بیلاروسی حکام کی طرف سے سرحد پار کرنے پر مجبور کیے جانے کی اطلاع دیتے ہیں، پھر پولش حکام کی جانب سے انہیں بیلاروس کے علاقے میں واپس دھکیل دیا جاتا ہے۔

پولینڈ کے روزنامہ گیزیٹا ویبورکزا کے مطابق، اس خطے میں کم از کم 10 تارکین وطن کی موت ہو چکی ہے، جن میں سے سات سرحد کے پولینڈ کی جانب تھے۔

کریملن کا سایہ

لیوکاشینکا نے منگل کے روز کہا کہ وہ مسلح تصادم نہیں چاہتے لیکن پولینڈ کے ساتھ سرحد پر تارکین وطن کے معاملے میں "گھٹنے نہیں ٹیکیں گے"۔

انہوں نے کہا، "ہم لڑائی کے خواہش مند نہیں ہیں،" انہوں نے خبردار کیا کہ بیلاروس کا اتحادی روس بھی تنازع میں کود پڑے گا۔

بیلاروس کے وزیر خارجہ ولادیمیر ماکیئی نے بدھ کے روز کہا کہ منسک روس کے ساتھ بحران پر "مشترکہ ردِعمل" کا خواہش مند ہے اور "باہمی تعاون" کی امید کر رہا ہے۔

پیوٹن لیوکاشینکا کے اصل حمایتی ہیں، جو پچھلے سال انتخابات کے بعد حزب اختلاف کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن کے بعد تیزی سے تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں، اپوزیشن کے بقول ان انتخابات میں دھاندلی کی گئی تھی۔

مئی میں، بیلاروس کے ایک لڑاکا طیارے نے ایک غیر ملکی سویلین ہوائی جہاز کو منسک میں اترنے پر مجبور کیا تاکہ لیوکاشینکا حکومت جہاز میں سوار ایک بیلاروسی مخالف کو اغواء کر سکے۔

بیلاروس روسی تزویراتی سوچ میں مرکزی مقام رکھتا ہے، شاید یوکرین کے علاوہ کسی بھی دوسرے پڑوسی سے زیادہ۔ ماسکو اسے اپنی "تزویراتی گہرائی" سمجھتا ہے۔

منسک میں آمریت بالٹک اور بحیرۂ اسود کے درمیان روس کا واحد کریملن حامی پڑوسی ہے۔ دیگر - ایسٹونیا، لٹویا، لتھوینیا اور یوکرین - سبھی پیوٹن کی حکومت کے مخالف ہیں.

سنہ 2014 میں روسی افواج کے یوکرین کے علاقے کریمیا کا الحاق اپنے ساتھ کرنے کے بعد سے یورپ کے ساتھ کریملن کے تعلقات مزید خراب ہو گئے ہیں، اور انتخابات میں مداخلت اور جاسوسی کے الزامات کی وجہ سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

یورپی رہنماؤں نے اگست 2020 میں سائبیریا میں کریملن کے ممتاز نقاد الیکسی ناوالنے کو زہر دینے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ماسکو پر مزید پابندیاں عائد کر کے جواب دے سکتے ہیں۔

ناوالنے زہر سے مرنے سے بال بال بچے تھے لیکن فروری میں مشکوک الزامات پر انہیں 32 ماہ قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500