معیشت

شکی المزاج افغانوں کے چین اور ایران کی جانب سے خفیف امداد پر سوالات

عمران

افغانوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ حکومت کے سکوت کے بعد چین اور ایران طالبان کو مدد کی پیشکش کے لیے میدان میں آئے، لیکن افغان عوام کے لیے ان ممالک کی امداد قلیل اور خودغرضانہ ہے۔ [عمران / دفتر گورنر ہرات/ سی سی ٹی وی]

صوبہ نمروز کے صدرمقام زارنج میں ایک سول سوسائٹی فعالیت پسند علی احمد سکندری نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں سے افغان امور میں ہمسایہ ممالک کی مداخلت کا مقصد ملک کے وسائل کی بہتات تک رسائی رہا ہے۔

انہوں نے کہا، "چین اور ایران طالبان کے قریب تر آنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ افغانستان کے محفوظ خام مال کی کشید کے لیے راہ ہموار کرنے کی غرض سے اچھے تعلقات استوار کر سکیں۔"

ہرات – افغانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ گزشتہ حکومت کے سکوت کے بعد چین اور ایران طالبان کو امداد کی پیشکش کرنے کے لیے میدان میں اترے، تاہم افغان عوام کو ان دونوں ممالک کی امداد قلیل اور خودغرضانہ ہے۔

بیجنگ اور تہران نے نئے حکمرانوں کو اپنی حمایت کی دوبارہ یقین دہانی کرانے کے لیے گزشتہ چند ہفتوں میں ہوائی جہازوں کے ذریعے خوراک، ادویات اور طبی سامان اور سردیوں کے کپڑے پہنچائے۔

29 ستمبر کو جیکٹس اور کمبلوں پر مشتمل، چینی امداد کی پہلی کھیپ کابل میں چینی سفارتخانے میں دیکھائی گئی ہے۔ [کابل میں چینی سفارتخانہ]

29 ستمبر کو جیکٹس اور کمبلوں پر مشتمل، چینی امداد کی پہلی کھیپ کابل میں چینی سفارتخانے میں دیکھائی گئی ہے۔ [کابل میں چینی سفارتخانہ]

چین کے سفیر نے چین کی پہلی کھیپ، جس میں کمبل اور سویٹر شامل تھے، 29 ستمبر کو طالبان کی پناہ گزین اور جنگی قیدیوں کی واپسی کے امور کی وزارت کے وزیر کے حوالہ کی۔

حکومتِ ایران نے اب تک خوراک، ادویات اور طبی آکسیجن کے ٹینکس پر مشتمل چار کھیپ فراہم کی ہیں۔

تازہ ترین کھیپ 5 اکتوبر کو صوبہ ہرات میں اسلام قلعہ سرحدی پھاٹک پر پہنچی۔

ملک بھر سے افغانوں نے چین اور ایران کی جانب سے پیش کی جانے والی اس انسانی معاونت کو "معمولی اور قابلِ تمسخر" کہا اور فریاد رس ہیں کہ جو تھوڑا بہت آیا ہے وہ ابھی تک ضرورت مندوں میں تقسیم نہیں ہوا۔

ہرات کے ایک رہائشی عبدالکریم نے کہا، "گزشتہ دورِ حکومت میں مختلف ممالک سے کافی مقدار میں امداد افغانستان آتی اور مستحقین تک پہنچتی تھی، لیکن اب جبکہ طالبان برسرِ اقتدار ہیں، وہ اپنے لوگوں کو بھی نہیں کھلا سکتے۔"

انہوں نے کہا، "افغانستان کی 35 ملین آبادی میں سے 30 ملین سے زائد خطِ غربت سے نیچے رہتے ہیں اور وہ شدید بھوک کے عالم میں ہیں، اور چند ٹرک آٹا، چاول اور کمبل ان کی ضروریات نہیں پوری کر سکتے۔"

ہرات کے ایک رہائشی صمیم احدی نے کہا کہ طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے زیادہ تر افغانی بھوکوں مر رہے ہیں اور انہیں مدد کی اشد ضرورت ہے، لیکن چین اور ایران اپنی قلیل اعانت سے ان زدپزیر عوام کا مذاق اڑا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، "جبکہ افغان ۔۔۔ پچھلی حکومت کے سکوت سے متاثر ہیں، ایران اور چین نے ناکافی انسانی امداد دی ہے جو صرف چاول اور کمبلوں پر مشتمل ہے۔"

"ان ممالک کو سمجھنا چاہیئے کہ ان کی امداد ناکافی ہے اور آنے والے تباہ کن معاشی اثرات کو روک نہیں سکتی۔"

انہوں نے کہا، "گزشتہ 20 برس کے دوران بین الاقوامی برادری نے امداد میں کھربوں ڈالر دیے اور افغانوں کی زندگیوں کو بدل دیا، لیکن ہمسایہ ممالک کی جانب سے فراہم کی جانے والی حالیہ امداد چند چھوٹے کنبوں کے لیے بھی ناکافی ہے۔"

عدم استحکام کا چکر

یہ کم امداد موصول ہوئی جبکہ دوسری طرف مغربی خطے میں افغان سول سوسائٹی فعالیت پسندوں نے سابقہ افغان حکومت کی بربادی کے پیچھے فتنہ پردازیوں کا الزام تین ممالک پر لگایا۔

ان کا کہنا ہے کہ ان تین میں ایران اور چین کے علاوہ روس شامل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد ان ممالک نے نہ صرف افغان عوام بلکہ طالبان کو بھی ایک مشکل صورتِ حال سے دوچار کر دیا ہے۔

صوبہ بادغیس کے صدرمقام قلعہٴ نوا کے ایک سول سوسائٹی فعالیت پسند نظام الدین اعظمی نے کہا کہ ایران، چین اور روس نے نہ صرف طالبان بلکہ دیگر حکومت مخالف عناصر کو بھی مسلسل مالی اور عسکری معاونت فراہم کی۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنی عسکری اور مالی معاونت کی فراہمی جاری رکھی، یہاں تک کہ طالبان نے گزشتہ حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

انہوں نے مزید کہا، "ایران، روس اور چین کی حالیہ تضویری کاروائیوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ممالک افغانوں کی فلاح نہیں چاہتے۔"

انہوں نے کہا، "طالبان کو صرف خوراک اور کمبلوں پر مشتمل ناکافی مقدار میں امداد فراہم کر کے وہ ظاہر کر رہے ہیں کہ انسانی امداد کے نام پر افغانستان میں اپنا ایجنڈا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔"

اعظمی نے کہا کہ ایران، روس اور چین کی جانب سے طالبان کے ساتھ حالیہ برتاؤ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا واحد مقصد سابقہ افغان حکومت کا تختہ الٹنا اور افغانستان کو مزید غیر مستحکم کرنا تھا۔

صوبہ غور کے صدرمقام فیروز کوہ کے ایک رہائشی عزیز احمد واقف نے کہا کہ ایران، روس اور چین کی مداخلت کے بغیر سابق افغان حکومت کبھی نہ گرتی۔

انہوں نے کہا، "ہمسایہ ممالک نے قریباً 20 برس تک افغانستان میں ہر قسم کے توپخانہ اور بارودی سرنگوں کے تجربات کرتے ہوئے ہمارے ہزاروں سیکیورٹی اہلکاروں اور معصوم شہریوں کا خون بہایا۔"

واقفی نے کہا، "ایران اور چین کی طالبان کو معمولی امداد انسانی بنیادوں پر نہیں، بلکہ اس کا مقصد افغانستان میں ایک اور نہ ختم ہونے والے دشمنی کے کھیل کا ایک اور منحوس چکر پھیلانا ہے۔"

افغانستان کے محفوظ وسائل کا استحصال

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس، چین اور ایران نے افغانستان کے زیرِ زمین وسائل کی کشید میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے، جو ان کے ممالک کے معاشی پہلوؤں کو یکسر بدل سکتے ہیں۔

ہرات کے ایک سیاسی تجزیہ کار فرہاد کیبرزنی نے کہا کہ چین چاہتا ہے کہ افغانستان کو اپنی معمولی امداد کی مدد سے وہ ملک کے معدنی وسائل پر اجارہ داری کے لیے طالبان سے اجازت حاصل کر لے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتِ چین ایک معاشی دیو ہے اور کبھی ایسی جگہ سرمایہ کاری نہیں کرتی جہاں سے اسے منافع کی توقع نہ ہو۔

انہوں نے کہا، "چین کئی برسوں سے افغانستان کی محفوظ کانوں اور زیرِ زمین وسائل تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اب چین کے پاس جتنا موقع ہے اتنا کبھی نہ تھا۔"

کیبرزنی نے کہا، "افغانستان کے ممکنہ قدرتی وسائل افغان عوام کا پیدائشی حق ہیں، اور ہم طالبان پر زور دیتے ہیں کہ وہ ان قومی خزانوں کو دنیا کے سب سے بڑے معاشی مافیہ، چین کے حوالہ نہ کریں۔"

انہوں نے کہا کہ مزید برآں ایران کے چین کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور یہ دونوں ممالک مشترکہ طور پر افغانستان میں لوٹ مار کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "اگر چین اور ایران کانوں پر اختیار حاصل کر لیتے ہیں تو سب سے زیادہ منافع ان ممالک کو جائے گا اور افغانستان کے معاشی نتائج میں بہتری پر اس کا کوئی اثر نہ ہو گا۔"

سکندری نے کہا کہ طالبان کو اس امر کو سمجھنا ہو گا کہ وہ افغان عوام کے ساتھ با معنی مشاورت کیے بغیر افغان وسائل کو لوٹنے کے لیے ایران اور چین جیسے ہمسایہ ممالک کے لیے دروازے نہیں کھول سکتے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500