قاہرہ -- بیجنگ ایک ایسے قانون کا استعمال کر رہا ہے جس کے تحت چین میں کتابوں یا رسالوں کی آن لائن تقسیم کے لیے اجازت نامے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دنیا بھر کے لاکھوں مسلمانوں کی جانب سے قابل بھروسہ قرآن کی ایپ کو خاموش کر دیا جا سکے۔
اس ماہ کے آغاز میں، ایپل نے قرآن مجید ایپ کو چین میں اپنے ایپ اسٹور سے ہٹا دیا جس سے اسے تقریبا ایک ملین سے زیادہ استعمال کنندگان کے لیے ناقابلِ استعمال بنا دیا۔ یہ بات اس اپلیکیشن کو بنانے والے ادارے، پاکستان ڈیٹا مینجمنٹ سروسز (پی ڈی ایم ایس) نے بتائی۔
ادارے کے مطابق، اس ایپ پر "دنیا بھر میں 25 ملین سے زیادہ مسلمان اعتماد کرتے ہیں" جو دوسری چیزوں کے علاوہ اسے قرآن سننے اور پڑھنے کے لیے، نماز کے اوقات کا پتہ رکھنے کے لیے، قبلہ کی سمت معلوم کرنے کے لیے اور مکہ اور مدینہ کی براہ راست کوریج کو دیکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
چین کے سنسرشپ کے قوانین کو چیلنج کرنا
بی بی سی نے 15 اکتوبر کو خبر دی تھی کہ قرآن مجید ایپ کو غیر قانونی مذہبی متن لگانے پر نکالا گیا ہے مگر یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس ایپ کو چین میں کن مخصوص قوائد کی خلاف ورزی کی ہے۔
بی بی سی کی طرف سے شائع کیے جانے والے ایک بیان میں پی ڈی ایم ایس نے کہا کہ "ایپل کے مطابق، ہماری ایپ قرآن مجید کو چین کے ایپ اسٹور سے اس لیے نکالا گیا ہے کیونکہ اس میں ایسا مواد موجود ہے جس کے لیے چین کے حکام کی طرف سے اضافی دستاویزات کی ضرورت ہے"۔
اس میں کہا گیا کہ "ہم چین کی سائبر اسپیس انتظامیہ اور متعلقہ حکام سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اس مسئلہ کو حل کیا جا سکے"۔
چین کی حکومت نے اخباری نمائںدوں کی طرف سے تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا ابھی تک جواب نہیں دیا ہے۔
ایپل نے اپنی انسانی حقوق کی پالیسی کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ: "ہمیں مقامی قوانین کا احترام کرنا ہوتا ہے اور ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب انتہائی پیچیدہ معاملات ہوتے ہیں اور جن پر ہم حکومتوں سے اختلاف رکھتے ہیں"۔
تقریبا اسی وقت پر، ایک اور مشہور مذہبی ایپ -- آلیو ٹری بائبل ایپ -- کو بھی چین کے ایپ اسٹور سے نکال دیا گیا۔
ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ "آلیوٹری بائبل سافٹ وئیر کو ایپ اسٹور کے جائزے کے دوران آگاہ کیا گیا تھا کہ ہمیں ایسا اجازت نامہ فراہم کرنا ہو گا جس میں دکھایا گیا ہو کہ ہمیں مین لینڈ چائنا میں ایک ایسی ایپ کی ڈسٹریبیوشن کی اجازت ہے جس میں کتاب یا رسالے کا مواد موجود ہے "۔
"چونکہ ہمارے پاس ایسا اجازت نامہ نہیں ہے اور ہمیں اپنی ایپ کی اپ ڈیٹ کو منظور کروانے اور صارفین تک پہنچانے کی ضرورت ہے، اس لیے ہم نے اپنی بائبل ایپ کو چین کے ایپ اسٹور سے ہٹا دیا"۔
ایپل سنسرشپ -- ایک ویب سائٹ جو کہ عالمی پیمانے پر ایپل کے ایپ اسٹور پر ایپس کی نگرانی کرتی ہے -- نے پہلی بار 12 اکتوبر کو خارج کیے جانے کی خبر دی تھی۔
دی میک آبزرور نے 15اکتوبر کو خبردی کہ آڈیبل، ایمیزون کی ملکیت والی آڈیو بک اور پوڈ کاسٹ سروس نے، گزشتہ ماہ چین میں ایپ اسٹور سے اپنی ایپ کو "اجازت کے تقاضوں کی وجہ سے" ہٹا دیا۔
مائیکروسافٹ نے 14 اکتوبر کو اعلان کیا کہ وہ بیجنگ کے سنسرشپ قوانین کی تعمیل کے "چیلنجوں" کی وجہ سے اپنے کیریئر پر مبنی سوشل نیٹ ورک لنکڈ ان کو ہٹا رہا ہے۔
ایک 'احمقانہ' اقدام
مصری وزارت اوقاف کے ڈائریکٹوریٹ برائے مذہبی راہنمائی کے راجح صابری نے کہا کہ قرآن مجید ایپ کو حذف کرنے کی درخواست کرنے کا چین کا فیصلہ "احمقانہ" تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ ایپ میں "غیر قانونی مذہبی متن" موجود ہے، ماہرانہ علم کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ "پہلے اہم مذہبی حکام کے ساتھ مشورہ اور ان کی رائے کو جانے بغیر، ایپ کو ہٹا دیے جانے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ طرزعمل، مذہبی آزادی اور عقیدہ کی آزادی کو دبانے کے زمرے میں آتا ہے۔"
قاہرہ میں الازہر یونیورسٹی کے شریعت اور قانون کے شعبہ کے سیاسی محقق اور پروفیسرعبدالنبی بکر نے کہا کہ اسلامی مسئلہ چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے لیے درد سر بن گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "اس لیے، چین کی انتظامیہ کی سوچ کے مطابق، سوشل میڈیا سے اسلامی اپلیکیشن کو ہٹائے جانے کو انتہائی ضروری معاملہ اور ایک ایسا مقصد سمجھا گیا جسے اسلامی لہر کو دبانے کے لیے حاصل کرنا ضروری تھا"۔
انہوں نے کہا کہ مگر ایسا کرتے ہوئے "چین ان اسلامی ممالک سے اپنے تعلقات کو خطرے میں ڈال رہا ہے جن سے اس کے مضبوط تعلقات ہیں"۔
بکر نے کہا کہ "چونکہ چینی حکام نے اپنا فیصلہ یک طرفہ طور پر کیا ہے ۔۔۔ اس لیے وہ اس مدد سے محروم ہو گئے جو اسلامی ممالک سے اسے مل سکتی تھی کیونکہ انہوں نے ایسی کوئی وضاحت پیش نہیں کی جو ذرا سی بھی قائل کر دینے والی ہو"۔
سلام ٹائمز کے ایک افغان قاری نے بیجنگ کے پانچ سال کے "چینی طور طریقے اختیار کرانے کے عمل" کی ایک رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ "چین میں مساجد کے مینار اور اسلامی نشانیاں تباہ کی جا رہی ہیں"۔
قاری نے کہا کہ یہ خبریں، انتہائی مشہور اور با اعتماد قرآن اپلیکیشن کو خارج کرنے کی خبروں سے مل کر، انتہائی پریشان کن ہیں"۔
"اس کے ساتھ، چین مسلمانوں سے غنڈہ گردی کرنا چاہتا ہے اور اس کی حکومت انٹرنیٹ سروسز اور آن لائن معلومات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔"
اذان کو خاموش کروانا
چینی صدر شی جن پنگ، سالوں سے "چینی طور طریقے اختیار کرانے کے عمل" کے لیے زور دے رہے ہیں۔
اگست میں ایک تقریر میں شی نے کہا کہ مذہبی اور نسلی گروہوں کو "چینی اتحاد کے بینر کو زیادہ اونچا اٹھانا چاہیے"۔
سی سی پی کے 2022-2018 کے منصوبے کے ایک حصہ کے طور پر، حکام مسجدوں کے گنبدوں، میناروں اور اسلامی فنِ تعمیر کی دوسری علامات کو ہٹا رہے ہیں اور مسجدوں میں لاوڈ اسپیکر پر اذان دینے پر پابندیاں لگا رہے ہیں۔
اس منصوبے کو نہ صرف مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ، جہاں یہ پالیسی ایسی ناانصافیوں کے لیے بدنام ہوئی، جسے انسانی حقوق کے گروپ اور کچھ مغربی حکومتیں "نسل کشی" قرار دیتی ہیں بلکہ پورے چین میں فعال طور پر نافذ کیا جا رہا ہے۔
سنکیانگ میں، چینی حکام نے ایک ملین سے زیادہ ایغور اور ترک نسل - -- جن میں قازق اور کرغیز بھی شامل ہیں --- مسلمانوں کو 400 سے زیادہ قید خانوں میں، جن میں "سیاسی تعلیم" کے کیمپ، مقدمات سے قبل قید کے مراکز اور جیلیں شامل ہیں، میں قید کر رکھا ہے۔
دیگر لاکھوں انتہائی نگرانی اور کنٹرول کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔
بیجنگ ان سہولیات کا "ووکیشنل تربیتی مراکز" کے طور پر دفاع کرتا ہے جن کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ کرنا اور ملازمت کو مواقع کو بہتر بنانا ہے۔
تاہم، ان اداروں کے بارے میں وسیع پیمانے پر خبریں دی گئی ہیں کہ وہ جبری حراست کے مرکز ہیں جنہیں کچھ لوگوں نے "حراستی مراکز" سے جوڑا ہے۔
آزادانہ تفتیش اور سابقہ قیدیوں سے کیے جانے والے انٹرویوز سے جسمانی و نفسیاتی تشدد، برین واشنگ، منظم عصمت دری، مسلمان خواتین کی جبری نسل بندی، زبردستی اعضاء نکال لینے، جنسی استحصال اور دیگر ہولناکیوں کا اظہار ہوتا ہے۔
سنکیانگ میں چینی حکام کی طرف سے کیے جانے والے دیگر جرائم میں، علاقے میں 1,000 سے زیادہ آئمہ اور مذہبی شخصیات کو اپنی مرضی سے قید کرنا اور تقریبا 16,000 مساجد کو نقصان پہنچانا یا مسمار کرنے شامل ہے۔
اے ایف پی کی طرف سے 2019 میں کی جانے والی ایک تفتیش کے مطابق، علاقے میں درجنوں قبرستانوں کو تباہ کر دیا گیا ہے جس سے انسانی باقیات اور تباہ ہونے والی قبروں کی اینٹیں ہر جگہ بکھری ہوئی ہیں۔
قاہرہ سے ولید ابو الخیر نے اس خبر کی تیاری میں حصہ لیا۔