سلامتی

اویغور داعش کے خودکش بمبار نے چین کے ساتھ طالبان کے خطرناک تعلقات کو مرکزِ نگاہ بنا دیا ہے

از سلیمان

8 اکتوبر کو قندوز میں خودکش بم حملے کے بعد طالبان جنگجو شیعہ فرقے کی امام بارگاہ کے اندر تفتیش کرتے ہوئے۔ [اے ایف پی]

8 اکتوبر کو قندوز میں خودکش بم حملے کے بعد طالبان جنگجو شیعہ فرقے کی امام بارگاہ کے اندر تفتیش کرتے ہوئے۔ [اے ایف پی]

کابل -- تجزیہ کاروں نے متنبہ کیا ہے کہ جیسے جیسے طالبان چین کے ساتھ اتحاد کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں، افغانستان کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ بڑھ رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے قندوز کی ایک شیعہ فرقے کی امام بارگاہ میں ہونے والا دھماکہ حمایت حاصل کرنے کے لیے چین کی جانب جھکنے کے خطرات کی ایک مثال ہے۔

"دولتِ اسلامیہ" کی خراسان شاخ (داعش-کے) نے 8 اکتوبر کے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ خودکش حملہ آور کا تعلق اویغوروں سے تھا، جن کو نکالنے کے لیے طالبان نے چین کے مطالبات کے جواب میں اور [سنکیانگ میں] چین کی مسلمان مخالف پالیسیوں کے لیے حاضر ہونے کا وعدہ کیا ہے۔" ".

مقامی افراد کے مطابق، دھماکے میں تقریباً 100 شیعہ مسلمان ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے، جو کہ افغانستان کی اقلیتی برادری پر حملوں کی تازہ ترین واردات ہے، جنہیں داعش، القاعدہ اور طالبان جنہیں سنی مسلم انتہا پسند رافضی سمجھتے ہیں۔.

داعش نے 8 اکتوبر کو افغانستان کے شہر قندوز میں شیعہ فرقے کی امام بارگاہ پر حملہ کرنے والے خودکش حملہ آور 'محمد دی اویغور' کی تصویر آن لائن پوسٹ کی۔ [فائل]

داعش نے 8 اکتوبر کو افغانستان کے شہر قندوز میں شیعہ فرقے کی امام بارگاہ پر حملہ کرنے والے خودکش حملہ آور 'محمد دی اویغور' کی تصویر آن لائن پوسٹ کی۔ [فائل]

طالبان کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر (بائیں) جولائی کے آخر میں طالبان کے وفد کے دورہ چین کے دوران چین کے وزیر خارجہ وانگ یی کے ہمراہ۔ [اے ایف پی]

طالبان کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر (بائیں) جولائی کے آخر میں طالبان کے وفد کے دورہ چین کے دوران چین کے وزیر خارجہ وانگ یی کے ہمراہ۔ [اے ایف پی]

اویغور تعلق

ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی (آر ایف ای/آر ایل) نے 5 اکتوبر کو بتایا کہ طالبان نے 1990 کی دہائی میں اپنے اقتدار کے دوران اویغور گروہوں کو افغانستان میں کام کرنے کی اجازت دی تھی، لیکن حال ہی میں طالبان اویغور عسکریت پسندوں کو افغانستان کی چین کے ساتھ سرحد کے قریب ایک علاقے سے منتقل کر رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ منتقلی بیجنگ اور طالبان کے درمیان بڑھتی ہوئی ہم آہنگی کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو چین کی سلامتی کے خدشات کو دور کرنا چاہتے ہیں۔

بیجنگ کو خوف ہے کہ افغانستان کو سنکیانگ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے یغور علیحدگی پسندوں کے لیے کارروائیاں کرنے کے مرکز کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ خصوصاً چین کے لیے باعثِ تشویش یہ امر ہے کہ طالبان کے مشرقی ترکستان اسلامی تحریک (ای ٹی آئی ایم) اور اس کی جانشین، ترکستان اسلامی پارٹی (ٹی آئی پی) کے ساتھ تعلقات ہیں۔

بیجنگ نے ای ٹی آئی ایم اور ٹی آئی پی کی موجودگی کو سنکیانگ میں اپنے کارروائیوں کے جواز کے طور پر استعمال کیا ہے، حالانکہ 2017 سے اس خطے میں دہشت گردی کے کسی اہم واقعے کی اطلاع نہیں ملی۔

چینی حکام نے سنکیانگ میں ایک ملین سے زائد اویغوروں اور دیگر ترک مسلمانوں -- بشمول نسلی قازقوں اور کرغیزوں -- کو سینکڑوں "سیاسی تعلیم" کے کیمپوں، قبل از مقدمہ حراستی مراکز اور جیلوں میں قید کر رکھا ہے۔

بیجنگ ان مراکز کو "حرفتی تربیتی مراکز" کہہ کر ان کا دفاع کرتا ہے جن کا مقصد دہشت گردی کا قلع قمع کرنا اور روزگار کے مواقع کو بہتر بنانا ہے۔

تاہم، یہ مراکز بڑے پیمانے پر غیر ارادی حراستی مراکز بتائے جاتے ہیں جسے کچھ لوگ "عقوبتی کیمپوں" سے جوڑتے ہیں جہاں خوفناک زیادتیاں ہوتی ہیں.

طالبان اقتدار، دولت کے متلاشی

افغان سیاسی تجزیہ کار فرید منیر نے کہا کہ طالبان اسلام کے محافظ ہونے کے دعویدار ہیں، لیکن حالیہ اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ تو اسلام کو بچانے کے لیے لڑ رہے ہیں اور نہ ہی افغانستان کو آزاد کرانے کے لیے بلکہ اقتدار اور دولت کے لیے لڑ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، "اویغور مسلمانوں کی ان کے گھروں سے بے دخلی طالبان کی جانب سے چینی حکومت سے سیاسی حمایت اور قانونی جواز حاصل کرنے کے لیے ایک ناقابل تردید عمل ہے۔"

منیر نے کہا، "جبکہ ایک طرف طالبان اسلامی اقدار کی حفاظت کرنے اور ایک اسلامی نظام بنانے کے دعویدار ہیں، دوسری طرف ان کے نعروں کے برعکس، انہوں نے چینی حکومت کے ساتھ مل کر افغانستان میں رہنے والے اویغور مسلمانوں کو دبانے کا منصوبہ بنایا ہوا ہے تاکہ چین کے سیاسی اور معاشی مفادات کو یقینی بنائیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے، یغوروں کو دبانے میں طالبان کا چین کے ساتھ تعاون یقیناً طالبان کے خلاف ان کے غصے اور نفرت میں اضافہ کر دے گا، اور وہ قندوز خودکش بم دھماکے جیسے مزید حملے کریں گے۔

کابل میں ایک دوا خانے کے مالک، 35 سالہ سید رفیع اللہ نے کہا کہ چین مختلف طریقوں سے یغور مسلمانوں کا استحصال کرتا ہے ، بشمول ان کے مردوں اور عورتوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنا اور وحشیانہ تشدد اور ظلم کرنا۔

انہوں نے کہا، "بدقسمتی سے، طالبان نے بیجنگ کے ساتھ اتحاد کر لیا ہے تاکہ وہ چینی حکومت کے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے افغانستان میں اویغور عسکریت پسندوں کو نیست و نابود کر دیں۔"

رفیع اللہ نے کہا کہ اگر طالبان چینی حکومت کے ساتھ روابط برقرار رکھنا جاری رکھتے ہیں اور بیجنگ کے کہنے پر اویغوروں اور دیگر چینی مخالفین کا استحصال کرتے ہیں تو یغور اپنا انتقام لینا جاری رکھیں گے۔

"ایسے حالات میں، طالبان مزید بے گناہ افغانوں کے قتل کے ذمہ دار ہوں گے۔"

چین کی جنگ افغانستان کو برآمد کرنا

لندن میں مقامی ایک افغان سیاسی تجزیہ کار عزیز الدین مہارج نے کہا کہ چین کو یغوروں اور ای ٹی آئی ایم کی کسی بھی جغرافیائی توسیع پر گہری تشویش ہے اور انہیں روکنے کے لیے طالبان کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا، "اگرچہ اویغوروں نے [داعش] کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کر لیے ہیں، طالبان اور چین اویغوروں کو اپنا مشترکہ دشمن کہتے ہیں،" ان کا مزید کہنا تھا کہ چین طالبان سے سرحدی علاقوں میں اویغوروں کی پناہ گاہوں کو تباہ کرنے کی توقع رکھتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانوں کو چوکس رہنا چاہیئے کیونکہ چین اویغوروں کو دبانے کے لیے طالبان کو استعمال کر کے اپنی داخلی جنگ کو افغانستان میں گھسیٹنا چاہتا ہے اور اس طرح افغانیوں کو تشدد کے ایک اور شیطانی چکر میں پھنسا رہا ہے۔

مہارج نے کہا، "چین کے ساتھ طالبان کے کسی بھی وعدے میں افغانستان کے قومی مفادات کو مدِنظر رکھنا لازمی ہے کیونکہ اویغوروں پر جبر ملک کی صورتحال کو مزید پُرتشدد اور غیر مستحکم بنا دیتا ہے۔"

کابل کی ایک نجی یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر واثق اللہ حکمت نے کہا کہ افغانستان کو دوسروں کی پراکسی جنگ لڑنے کے لیے قطعاً استعمال نہیں کیا جانا چاہیئے۔

انہوں نے کہا، "افغانستان پر ایک آزاد ملک رہنا لازم ہے کیونکہ تاریخی طور پر افغانستان کا دوسرے ممالک پر انحصار ہمیشہ ہمارے لیے نقصان دہ رہا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ بیجنگ جو کچھ کرنا چاہتا ہے اگر طالبان وہی کرتے ہیں، تو تشدد مزید بڑھ جائے گا۔

حکمت نے کہا، "چین نے کبھی افغانیوں کی مدد نہیں کی۔ اگر اس نے طالبان کی حمایت کا وعدہ کیا ہے تو اس کے بدلے میں اس نے طالبان سے افغانستان میں اویغوروں کو دبانے کے لیے کہا ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ قندوز میں امام بارگاہ میں خونریز بم دھماکہ اس قسم کے تشدد کی مثال ہے جس کے اویغور عسکریت پسند اور داعش قابل ہیں۔

خطرناک نتائج والے اتحادی

کابل کی ایک نجی یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے طالب علم حبیب ستانکزئی نے کہا کہ چینی حکومت طالبان کو افغانستان اور اس سے باہر اپنے سیاسی، سلامتی کے اور معاشی اہداف کے حصول کے لیے ایک پیادہ کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان، جو جواز کے لیے بے چین ہیں، انہیں کسی بھی قیمت پر بیجنگ کی حمایت حاصل ہے -- حتیٰ کہ اپنے اویغور مسلمان بھائیوں کو نشانہ بنا کر بھی۔

ستانکزئی نے کہا، "گزشتہ 20 برسوں میں، جاری جنگ میں سینکڑوں ہزار افغانی ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔ لیکن، چین نے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن کی حیثیت سے، جنگ کے خاتمے یا افغانوں کے قتل کی مذمت کرنے کے لیے کبھی کوئی جرات مندانہ قدم نہیں اٹھایا۔"

انہوں نے کہا، "چین کے ساتھ طالبان کے غیر متناسب تعلقات ہمارے ملک کے مفاد میں نہیں ہیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ بیجنگ صرف اپنے مفادات کے تعاقب میں ہے اور اسے کوئی پرواہ نہیں ہے کہ اگر اویغور چین سے باہر خودکش حملے کرتے ہیں یا داعش کے ساتھ فوج میں شامل ہوتے ہیں۔

ستانکزئی نے کہا، "طالبان کا چین کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنا افغانستان کے لیے خطرناک نتائج کا حامل ہو گا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500