جرم و انصاف

چین کو ایران کے منی لانڈرنگ آپریشنز کے نئے مرکز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے

فارس العمران

شنگھائی، چین میں بینک کا ایک ملازم، 100 یوآن کے نوٹ گننے کے لیے نوٹ گننے والی مشین استعمال کر رہا ہے۔ [جوہانس ایسلی/ اے ایف پی]

شنگھائی، چین میں بینک کا ایک ملازم، 100 یوآن کے نوٹ گننے کے لیے نوٹ گننے والی مشین استعمال کر رہا ہے۔ [جوہانس ایسلی/ اے ایف پی]

ایرانی حکومت اور اس کی سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) کے اقتصادی مفادات کی حمایت میں چین کے کردار کے بارے میں مزید شواہد سامنے آ رہے ہیں۔

امریکی ٹریژری نے 17 ستمبر کو چین میں تجارتی اور بینکاری کے کاروباری اداروں کا انتظام کرنے والے نیٹ ورک پر پابندیاں عائد کر دیں جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس نے لاکھوں ملین ڈالرز کی منی لانڈرنگ کی ہے، یہ فنڈز آئی آر جی سی اور اس سے وابستہ گروہوں کو پہنچائے گئے ہیں۔

غیر ملکی کرنسیوں اور سونے کا کاروبار کرنے والے اس نیٹ ورک کا انتظام چین میں رہنے والے مرتضی مینی ہاشمی اور دو چینی شہری یان سو ژوان اور سونگ جینگ کرتے ہیں، جو اس کی کمپنیوں کے کرایے کے مالکان کے طور پر خدمات انجام دیتے ہیں اور اسے بینکاری کی خدمات اور سہولیات فراہم کرتے ہیں۔

بین الاقوامی مشاہدین کا کہنا ہے کہ اس نیٹ ورک کو نشانہ بنانے سے، ایران اور چین، جن کے مشترکہ مفادات ہیں اور جو دنیا بھر میں عدم استحکام کی سرگرمیوں کے لیے سرمایہ کاری فراہم کرنے کے لیے اکٹھے کام کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں، کے بارے میں عالمی سطح کے خطرات کے بارے میں موجود خدشات پر روشنی پڑتی ہے۔

ایک ایرانی شخص، 18 ستمبر کو تہران میں ایک کھوکھے پر، روزنامہ اطلاعات کا شمارہ پڑھ رہا ہے جس میں شہ سرخی ہے کہ "ایران شنگھائی کوآپریشن کا ایک نیا رکن ہے" جو کہ چین اور روس کی سربراہی میں کام کرنے والا ایک بلاک ہے۔ [عطا کنارے/ اے ایف پی]

ایک ایرانی شخص، 18 ستمبر کو تہران میں ایک کھوکھے پر، روزنامہ اطلاعات کا شمارہ پڑھ رہا ہے جس میں شہ سرخی ہے کہ "ایران شنگھائی کوآپریشن کا ایک نیا رکن ہے" جو کہ چین اور روس کی سربراہی میں کام کرنے والا ایک بلاک ہے۔ [عطا کنارے/ اے ایف پی]

منی لانڈرنگ کے محاذ

عراقی سینٹر برائے اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر غازی فیصل حسین نے کہا کہ ایران اتحادی ممالک جیسے کہ چین، میں ایسے اداروں اور ان کے عمومی تجارتی کاروبار کا انتظام چلا رہا ہے جو کہ خفیہ منی لانڈرنگ آپریشنز کے لیے محاذ کا کام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی حکومت ان سرگرمیوں اور غیر قانونی تجارت، بدعنوانی اور اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی کو آئی آر جی سی اور اس کی علاقائی پراکسیوں کی مالی اعانت کے لیے استعمال کرتی ہے تاکہ وہ "پوری دنیا میں تباہی پھیلاتے رہیں"۔

انہوں نے کہا کہ چین، جس کے ایرانیوں کے ساتھ اقتصادی تعلقات اور سرمایہ کاری ہے، "ایرانی مفادات کے لیے کور اور تحفظ فراہم کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ منی لانڈرنگ اور غیر قانونی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہے"۔

انہوں نے کہا کہ اس میں "سامان کی قزاقی، برینڈ کی چیزوں کی نقل بنایا اور منافع کے لیے بغیر لائسنس کے دو نمبر کی مصنوعات بنانا شامل ہیں"۔

حسینی نے کہا کہ ایران پابندیوں کو جُل دینے کے لیے منی لانڈرنگ کی مہمات کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے "مگر ایسی کاموں کو زیادہ عرصے کے لیے چھپایا نہیں جا سکتا"۔

انہوں نے کہا کہ "انہیں واشنگٹن کی طرف سے ڈالر کی نقل و حرکت پر سخت کنٹرول اور دوسرے ممالک کے ساتھ اس کے سیکورٹی اور انٹیلیجنس کے تعاون کے نتیجہ میں جلد ہی دریافت کر لیا گیا"۔

چین میں قائم نیٹ ورکس

گزشتہ سال، امریکہ نے چین میں قائم، شپنگ کمپنیوں کے ایک پیچیدہ نیٹ ورک پر پابندی لگائی جو ایرانی حکومت کو پابندیوں سے بچنے میں مدد فراہم کر رہا تھا اور اس کی پراکسیوں کو مالی مدد بھی دے رہا تھا۔

شنگھائی سے تعلق رکھنے والا ایک چینی شہری، شین یونگ، ایسی فرنٹ اور ہولڈنگ کمپنیاں چلاتا ہے جو اسلامی جمہوریہ ایران شپنگ لائن گروپ، جس پر امریکہ نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں کو اس نیٹ ورک کے اندر چھپ کر کام کرنے دیتا ہے۔

اس کے علاوہ ایسی کمپنیوں کو بھی پابندیوں کا سامنا ہے جو چین میں کام کرتی ہیں اور ایران کو تیل اور پیٹروکیمیکلز برآمد کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔

ان میں سے ایک ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والی ٹرائیلینس پیٹرو کیمیکل کمپنی ہے جس نے نیشنل ایرانی آئل کمپنی (این آئی او سی) کو، ایرانی پیٹروکیمیکلز، خام تیل اور پٹرولیم مصنوعات کی ادائیگی کے لیے لاکھوں ڈالر دیے ہیں۔

مبصرین نے نوٹ کیا کہ چینی حکام اکثر ایرانی کمپنیوں کے اثاثے منجمد کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور ایران میں اپنے معاشی مقاصد کو ترقی دینے یا برقرار رکھنے کے لیے ایران کے خلاف بین الاقوامی قراردادوں کے نفاذ سے بچ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین ایرانی تجارت کا ایک تہائی حصہ رکھتا ہے۔

چین اور ایران نے مارچ میں ایک 25 سالہ معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت بیجنگ ایران میں ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا اور اس کے بدلے میں اسے سہولیات اور ایرانی تیل اور گیس کی مصنوعات خریدنے میں بھاری رعایت دی جائے گی -- جو کہ چین کی طرف سے اپنا عالمی اثر بڑھانے کے لیے دوسرے ممالک میں کیے جانے والے کاموں سے مختلف نہیں ہے۔

قومی دولت ضائع ہوئی

سیاسی تجزیہ کار غانم العابد نے کہا کہ یہ معاشی شراکتیں ایرانی عوام کو نقصان پہنچاتی ہیں، جن کی دولت ایک ایسی حکومت ضائع کر رہی ہے جو صرف اپنی توسیع کے لیے کوششاں ہے اور پڑوسیوں کی سلامتی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی حکومت "دھوکہ دہی کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اور چین اور دیگر جگہوں پر منی لانڈرنگ سے متعلق سرگرمیوں میں ملوث ہے تاکہ متعدد غیر قانونی ذرائع سے سرمایہ اکٹھا کر سکے"۔

العابد نے کہا کہ اس طرح یہ کوشش کر رہا ہے کہ "اپنے موئے حساس نما ملحقہ اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کرے اور انہیں اپنے مفادات کو پورا کرنے کی ہدایت دے"۔

انہوں نے کہا کہ ایران کی ایک تہائی آبادی کو بے روزگاری کا سامنا ہے اور معیارِ زندگی اور عوامی سہولیات میں قابلِ قدر تنزلی آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک بہت سے بحرانوں سے دوچار ہے، اور اس سب کی وجہ جارحیت کی وہ حکمت عملی ہے جس پر ایران کے لیڈر زور دیتے ہیں اور وہ بین الاقوامی پابندیوں اور دباؤ سے حفاظت کے خواہاں ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500