سلامتی

طالبان کی جانب سے اقلیتوں پر ظلم کی وجہ سے خانہ جنگی کا خدشہ

حمزہ

جولائی میں پوسٹ کی گئی اس تصویر میں ایک نامعلوم مقام پر فاطمیون جنگجو دکھائے گئے ہیں۔ [فاطمیون]

جولائی میں پوسٹ کی گئی اس تصویر میں ایک نامعلوم مقام پر فاطمیون جنگجو دکھائے گئے ہیں۔ [فاطمیون]

کابل – شعیہ ہزارہ اور افغانستان میں دیگر اقلیتی نسلی گروہوں کے خلاف طالبان کے استبداد اور امیتازی سلوک کی وجہ سے ایران کی پشت پناہی کی حامل فاطمیون برگیڈ اور دیگر گروہوں کے لیے افغانستان میں "جہاد" لانے کی توجیہ مل جانے کا خدشہ ہے۔

فاطمیون ڈویژن افغانوں پر مشتمل ایک ملشیا ہے، جسے سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) نے مالیات فراہم کیے، تربیت دی اور مسلح کیا، اور یہ 2014 میں شام میں شامی حکومت کے ایما پر لڑتی رہی ہے۔

ایران طویل عرصہ سے شعیوں کی مذہبی ذمہ داری کی حس کو محرک کر کے یا پیسے اور ایرانی رہائشی اجازت نامہ کے وعدوں کے ذریعے جنگجو بھرتی کرنے کے لیے افغان مہاجرین کا استحصال کرنے کے لیے معروف رہا ہے۔

مثال کے طور پر گزشتہ برس تہران نے شام میں فاطمیون ڈویژن میں ملازمت کے دوران مارے جانے والوں کے خاندانوں میں رہائشی پلاٹ تقسیم کرنے کا وعدہ کیا – متعدد اسے ایرانی حکومت کی جانب سے ایران میں قابلِ رحم حالت میں رہائش پذیر افغانوں کو دھوکہ دے کر اس ملشیا میں شمولیت اختیار کرنے کی چال کے طور پر دیکھتے ہیں۔

10 ستمبر کو ہزارہ برادری کے ارکان کابل کے نواح میں ایک مسجد کے باہر نمازِ جمعہ ادا کر رہے ہیں۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

10 ستمبر کو ہزارہ برادری کے ارکان کابل کے نواح میں ایک مسجد کے باہر نمازِ جمعہ ادا کر رہے ہیں۔ [عامر قریشی/اے ایف پی]

2019 میں مشہد، ایران میں فاطمیون ڈویژن کے ارکان امام رضا کی شہادت کی یاد منانے کے لیے جمع ہیں۔ [فائل]

2019 میں مشہد، ایران میں فاطمیون ڈویژن کے ارکان امام رضا کی شہادت کی یاد منانے کے لیے جمع ہیں۔ [فائل]

تاہم، ایران کی ضمنی جنگوں میں لڑنے کے بعد، ملشیا کے ارکان اور مارے جانے والوں کے اہلِ خانہ اکثر بے یار و مددگار ہوتے ہیں، اور کچھ ان کی شام جانے کی وجوہات پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔

اپنے عروج پر تقریباً 10,000 تا 20,000 افغان اس ملشیا میں لڑ رہے تھے۔

اڑھائی برس تک شام میں لڑنے والے 47 سالہ کمانڈر علی، جو اب کابل میں رہتے ہیں، نے کہا، "شام میں افغانوں کے دوگروہوں نے ’دولتِ اسلامیہٴ عراق و شام‘ (داعش)، جبہتہ النصرہ اور دیگر بشار الاسد مخالف گروہوں کے خلاف جنگ کی۔"

انہوں نے کہا، "پہلا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے اپنے مقاماتِ مقدسہ : شعیہ مسلمانوں کے تیسرے امام، امام حسین کی بہن اور بیٹی زینب اور رقیہ کے مزارات کی حفاظت کے لیے جنگ کی، ان میں سے سینکڑوں تاحال شام میں موجود ہیں۔"

انہوں نے کہا، "جنگجوؤں کا دوسرا گروہ ایران میں رہنے والے مہاجرین اور افغانستان کے اندر بھرتی ہونے والے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔"

"انہوں نے پیسے کے لیے اور ایرانیوں کی جانب سے کیے گئے دیگر وعدوں، جیسا کہ ایران میں مستقل رہائش حاصل کرنے کے لیے جنگ لڑی۔"

ہزارہ کی ایذا

شعیہ اقلیت کے خلاف طالبان کے امتیازی برتاؤ کی روزافزوں خبروں کے دوران فاطمیون کے مذہبی جوش سے متحرک ارکان اب افغانستان لوٹنے کا ارادہ کر رہے ہیں۔

اے ایف پی نے جمعہ (24 ستمبر) کو خبر دی کہ وسطی افغانستان میں ہزارہ اکثریتی کسان برادری کا کہنا ہے کہ طالبان جنگجوؤں نے انہیں ان جاگیرداروں کے کہنے پر اپنے گھروں سے نکلنے کا حکم دیا ہے جو ان کی فصلیں اور گودام ضبط کرنا چاہتے ہیں۔

طالبان کے قبضہ کے بعد سے اب تک نظربند، ایک ہزارہ سیاسی رہنما محمّد محقق نے گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے ایک خط میں گزشتہ ماہ اس صورتِ حال کے بارے میں کہا کہ طالبان نے ڈائکنڈی اور ارزگان کے صوبوں سے ملحقہ ایک دورافتادہ ضلع میں 800 سے زائد خاندانوں کو اپنے گھروں سے باہر نکل جانے کا حکم دیا۔

ان عسکریت پسندوں نے گزشتہ ماہ ایک نمایاں طالبان مخالف جنگجو اور بامیان شہر میں ہزارہ برادری کی نمائندگی کرنے والے ایک سیاسی رہنما عبد العلی مزاری کے مجسمہ کا سر بھی قلم کر دیا تھا۔ طالبان نے 1996 میں انہیں قتل کیا تھا۔

ہزارہ ایک شعیہ اکثریت پر مبنی نسلی اقلیت ہیں جنہیں طویل عرصہ سے طالبان اور داعش کی ایذا رسانیوں کا سامنا ہے، جو کہ انہیں خارجی خیال کرتے ہیں۔

گزشتہ دہائی کے دوران ایرانی سیکیورٹی فورسز نے فاطمیون ڈویژن سمیت ہزاروں ہزارہ کو تربیت دی اور شام کی خانہ جنگی میں شعیہ عسکریت پسندوں کے ساتھ تعینات کیا۔

علی نے کہا، "ہزارہ کی ٹارگٹ کلنگ، بامیان میں ان کے رہنما کا مجسمہ توڑا جانا اور طالبان حکومت میں ہزارہ کو نظر انداز کرنا فاطمیون ڈویژن کو اپنے ملک واپس لے آئے گا۔"

انہوں نے کہا، "ان سے متعلق میرے علم کی بنا پر، یہ عین ممکن ہے کہ وہ طالبان کے خلاف ہتھیار اٹھا لیں۔"

افغانستان واپسی

ایک فاطمیون جنگجو، عبّاس، جو اب ایران میں رہتا ہے، نے کہا کہ وہ افغانستان کے دفاع کے لیے واپس لوٹنا چاہتا ہے۔

اس نے کہا، "اگر ہمارا یقین اور ہمارے لوگ افغانستان یا کہیں اور خطرے میں ہیں، تو ہم جائیں گے۔۔۔ اور لڑیں گے جیسا کہ ہم نے شام میں اپنے یقین اور اپنے لوگوں کو بچانے کے لیے کیا۔"

اس نے کہا، "ہم اپنے ملک میں جنگ کے حق میں نہیں، ہمارے لوگوں کو امن اور معاشرتی انصاف کی ضرورت ہے، لیکن بامیان کے واحد ہزاہ رہنما، شہید مزاری کا مجسہ توڑا جانا اور طالبان کی جانب سے ہزارہ کے خلاف استبداد اور ان کے ساتھ امتیازی برتاؤ ہمیں لڑنے پر مجبور کر دے گا، جیسا کہ ہم نے شام میں اپنے ایمان اور لوگوں کے تحفظ کے لیے کیا۔"

صوبہ نورستان کے سابق گورنر تمیم نورستانی نے کہا، "ایرانیوں نے قندھار اساسی طالبان پر بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔"

انہوں نے کہا، "اب جبکہ حقانی نیٹ ورک نے طالبان حکومت میں زیادہ طاقت حاصل کر لی ہے اور ایران کی پشت پناہی کے حامل اس گروہ کو دیوار سے لگا دیا ہے، طالبان کے خلاف ایک نیا محاذ کھلنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔"

نورستانی نے پیش گوئی کرتے ہوئے کہا، "اگر طالبان کے ساتھ ایران کے تعلقات بگڑتے ہیں، اور آئی آر جی سی طالبان کے ساتھ تعاون نہیں کرتا، تو فاطمیون افغانستان میں فعال ہو جائیں گے۔"

انہوں نے کہا، "طالبان حکومت میں ہزارہ کے حقوق سے انکار اور ہزارہ کو ہدف بنائے جانے اور انہیں رسوا کرنے سے آئی آر جی سی افغانستان میں فاطمیون کو فعال کر دے گا۔" انہوں نے مزید کہا کہ "عین ممکن ہے" کہ فاطمیوں ڈویژن افغانستان میں طالبان کے خلاف ہتھیار اٹھا لے۔

افغانستان میں نسلی، مذہبی جنگ

کابل میں ایک نجی جامعہ میں سیاسیات کے ایک 31 سالہ طالبِ علم اسد اللہ ابراہیمی نے کہا، "قوت اور امتیازی سلوک کا استعمال کرکے اور خاتمہ کی ایک پالیسی پر عمل پیرا ہو کر، طالبان حکومت اور سیاسی قوت سے شعیہ [فرقہ] اور دیگر نسلی گروہوں کی بیخ کنی کر رہے ہیں۔"

اس نے کہا، "دیگر، بطورِ خاص ہزارہ کے خاتمہ کے لیے طالبان کی کوششیں جلد ہی عسکریت پسند گروہوں کی تشکیل کا باعث بنیں گی۔ فاطمیون شعیہ کے حقوق کے تحفظ کے لیے کاروائی کریں گے، جبکہ دیگر نسلی گروہ بھی نئے محاذ بنائیں گے۔"

اس نے کہا، "اس صورت میں ہم نہایت خون آشام مذہبی اور نسلی تنازع کا مشاہدہ کریں گے۔"

ابراہیمی نے کہا، "چند خبروں کے مطابق، تین برس قبل جب طالبان نے غزنی اور ارزگان کے چند اضلاع میں ہزارہ پر ظلم کیا تو ان علاقوں میں فاطمیون طالبان کے ساتھ متصادم ہوئے۔"

اس نے کہا، "آج دوبارہ اگر طالبان نے مذہبی اور نسلی گروہوں کے مطالبات کا احترام نہ کیا اور ایک ایسی مخلوط حکومت نہ بنائی جس میں ہزارہ، تاجک، ازبک اور دیگر گروہ شامل ہوں، تو [افغانستان کے] ہمسایوں کے لیے ایک اور موقع کھل جائے گا۔ "

ایک سیاسی تجزیہ کار سلیم پائگِر نے کہا، "فاطمیون شام سے افغانستان آئیں گے، اور دیگر نسلی گروہ ہتھیار اٹھا لیں گے۔"

انہوں نے کہا، اس سے "افغانستان میں ایک نسلی اور مذہبی جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے جو اسے شام میں بدل دے گی۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500