ہرات -- حالیہ ہفتوں میں افغانستان بھر میں بے روزگاری اور غربت میں غیر معمولی حد تک اضافہ ہوا ہے کیونکہ بہت سے علاقوں میں کاروباری سرگرمیاں بالکل رک گئی ہیں۔
دیہاڑی دار مزدوروں، جیسے کہ 58 سالہ حسین علی حسینی، جنہوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ اگست کے وسط سے انہیں ایک دن کے لیے بھی کام نہیں ملا، ملازمتیں انتہائی زیادہ کم ہو گئی ہیں۔
حسینی نے کہا کہ ہر روز وہ سڑک کے کنارے گھنٹوں انتظار کرتا ہے جہاں دوسرے مزدور بھی کام کے لیے لے جائے جانے کا انتظار کرتے ہیں مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ کھانے پینے کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے، کہا کہ "ہر روز میں کام کا انتظار کرتا ہوں مگر کامیابی نہیں ہوتی اور میں ذلیل و خوار ہوتا محسوس کرتا ہوں۔ اگر میرے پاس کام نہ ہو تو میں نو افراد پر مشتمل اپنے خاندان کا کہاں سے کھلاؤں اور ان کی ضروریات پوری کروں؟"
ہرات کے ایک دیہاڑی دار مزدار احمداللہ نے کہا کہ اس سے پہلے مزدورں کو ہفتے میں کم از کم کچھ دن ہی کام مل جاتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ "میں ہفتے میں چار دن کام کیا کرتا تھا ۔۔۔ اور یہ ہمارے اخراجات کے لیے کافی ہوتا تھا"۔
مگر اب اسے ہفتے میں ایک بھی دن کے لیے کام ملنا مشکل ہو رہا ہے۔
احمد اللہ نے کہا کہ اوسط دیہاڑی 300 افغانی (3.50 ڈالر) ہے لیکن ان دنوں اگر کوئی اسے 50 افغانی (0.60 ڈالر) کی پیشکش بھی کرے تو وہ اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ "افغانستان کی اقتصادی حالت بدترین ہوتی جا رہی ہے اور غریب آدمی کے لیے روزی کمانا مشکل ہوتا جا رہا ہے"۔
ہرات شہر سے تعلق رکھنے والے ایک کارکن محمد حسینی نے کہا کہ گزشتہ چند ہفتوں سے بے روزگاری میں کافی زیادہ اضافہ ہوا ہے اور کھانے پینے اور پیٹرول کی قیمتوں میں بھی۔
انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ وہ صبح سے لے کر شام تک، سڑک کے کنارے کھڑے مزدوری کا انتظار کرتے رہے ہیں کہا کہ "میں نے گزشتہ تین ہفتوں سے کام نہیں کیا ہے"۔
ملازمت کے مواقع میں کمی
سرکاری اور نجی شعبے کے سینکڑوں ملازم گزشتہ ماہ میں اپنی ملازمتوں سے محروم ہو چکے ہیں اور ہرات میں ہزاروں سرکاری ملازمین کو ملازمت پر واپس آنے سے روک دیا گیا ہے۔
ہرات چیمبر آف انڈسٹریز اینڈ مائنز کے چیرمین حمید اللہ خادم نے کہا کہ ایک ماہ سے بھی کم کے دورانیے میں، ہرات انڈسٹریل سٹی میں نجی شعبے کے 3,000 ملازم اپنی ملازمت سے محروم ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ درجنوں فیکٹریوں نے اپنی رات کی شفٹ کو بند کر دیا ہے اور "رات کی شفٹ میں کام کرنے والے ہزاروں کارکنوں کو فارغ کر دیا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ ہرات انڈسٹریل سٹی میں پیداوار کا حجم نمایاں طور پر کم ہو گیا ہے کیونکہ ملک کا مالیاتی نظام کمزور ہو رہا ہے، غربت بڑھتی جا رہی ہے اور منڈیاں سکڑتی جا رہی ہیں۔
محمد ناصر عزیزی ہرات انڈسٹریل سٹی کے ایک کھانے کے کارخانے میں پانچ سال سے کام کر رہے تھے مگر اب وہ اپنی ملازمت سے محروم ہو گئے ہیں۔
عزیزی نے کہا کہ "ہم نے تنازعہ کے اختتام کے ساتھ امن اور خوشحالی کی خواہش کی تھی مگر اب جبکہ لڑائی تقریبا ختم ہو گئی ہے، لوگ بھوکے مر رہے ہیں"۔
انہوں نے سنا ہے کہ کارخانے نے تقریبا اپنے آدھے کارکنوں کو فارغ کر دیا ہے کیونکہ مقامی منڈیوں میں کوئی مانگ نہیں ہے اور کارخانے کا مالک اتنا نہیں کما رہا کہ وہ اپنا کاروبار چلا سکے۔
منڈلاتی ہوئی تباہی
یکم ستمبر کو اپنے ایک بیان میں، اقوامِ متحدہ (یو این) کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ افغانستان کو ایک انسانی تباہی کا سامنا ہے۔ افغانستان کے کل 38 ملین باشندوں میں سے تقریبا نصف کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اس بات کو اجاگر کرتے ہوئے کہ ملک کی آبادی بنیادی اشیاء اور سہولیات سے ہر روز محروم ہو رہی ہے، کہا کہ 18 ملین افغان شہریوں کو زندہ رہنے کے لیے فوری بین الاقوامی امداد کی ضرورت ہے۔
غور صوبہ کی دارالحکومت فیروز کوہ سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن فیض محمد احاری نے کہا کہ مستقبل میں، روزگار کے مواقع فراہم کرنا اور سماجی مسائل کو حل کرنا طالبان کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا کہ "اگر طالبان عالمی برادری کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر نہیں لائے اور افغان شہریوں کے لیے بین الاقوامی برادری کی امداد کی بحالی کو یقینی نہ بنایا تو ملک کو ایک انسانی تباہی کا سامنا کرنا ہو گا"۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بے روزگاری اور غربت میں پہلے ہی اضافہ ہو گیا ہے اور اس خطرے کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔
ہرات شہر کے رہائشی ولی محمد صدیقی نے کہا کہ "طالبان، افغانستان کی موجودہ حکومت ہونے کے ناطے ملازمتیں پیدا کرنے اور پرامن زندگی فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کو بین الاقوامی برادر کے مطالبات کو مان لینا چاہیے اور باقی کی دنیا سے افغانستان کے تعلقات کو بحال کرنے چاہیے۔