دہشتگردی

داعش کے قید کردہ سابق ارکان کی بنیاد پرستی کی سنجیدہ کہانیاں

از کسینیا بوندال

ڈی یو ایم کے کی ایک ویڈیو کے سکرین شاٹ میں الماس عاشروف، اعلیٰ درجے کے سابق داعش جنگجو جو اب قازقستان کی جیل میں ہیں، کو دکھایا گیا ہے۔

ڈی یو ایم کے کی ایک ویڈیو کے سکرین شاٹ میں الماس عاشروف، اعلیٰ درجے کے سابق داعش جنگجو جو اب قازقستان کی جیل میں ہیں، کو دکھایا گیا ہے۔

الماتے -- قازقستان کے مسلمانوں کی روحانی انتظامیہ (ڈی یو ایم کے) ان افراد کے ساتھ ویڈیو انٹرویو کا ایک سلسلہ نشر کر رہی ہے جو شام میں "دولت اسلامیہ" (داعش) میں شامل ہوئے اور بعد میں مجرم قرار پائے۔

یہ پہل کاری قازقستان میں شدت پسندی کو روکنے کی کوشش کا ایک جزو ہے۔

25 اگست کو Kazislam.kz پر پوسٹ کیے جانے والے انٹرویوز میں سزائے قید کاٹ رہے سابق عسکریت پسندوں نے بتایا کہ کیسے وہ شام میں جنگ کے میدان میں پہنچے، بمشکل خود کو اور اپنے خاندان کو بچا کر قازقستان لوٹ گئے، جہاں اب وہ سزائے قید کاٹ رہے ہیں۔

سنہ 2019 میں، جب اتحادی افواج کی بمباری میں داعش شامی علاقے کے اپنے آخری ٹکڑے سے بھی محروم ہو رہی تھی، قازقستان نے آپریشن جوسان (کڑوی افسنتین) شروع کیا، پروازوں کا سلسلہ سنہ 2021 تک جاری رہا۔ دو سالہ کارروائی میں شام سے 700 سے زیادہ قازق واپس جانے پر مجبور ہو گئے۔

ڈی یو ایم کے کی ایک ویڈیو کے سکرین شاٹ میں داعش کے ایک 'ممتاز' جنگجو کی بیوہ، جازیرہ اسانووا کو دکھایا گیا ہے، جو اب جیل کاٹ رہی ہے۔

ڈی یو ایم کے کی ایک ویڈیو کے سکرین شاٹ میں داعش کے ایک 'ممتاز' جنگجو کی بیوہ، جازیرہ اسانووا کو دکھایا گیا ہے، جو اب جیل کاٹ رہی ہے۔

ڈی یو ایم کے کی ایک ویڈیو کے سکرین شاٹ میں شمالی قازقستان صوبے کی ایک جیل میں خواتین کی عمارت دکھائی گئی ہے جہاں جازیرہ اسانووا اپنی سزا کاٹ رہی ہے۔

ڈی یو ایم کے کی ایک ویڈیو کے سکرین شاٹ میں شمالی قازقستان صوبے کی ایک جیل میں خواتین کی عمارت دکھائی گئی ہے جہاں جازیرہ اسانووا اپنی سزا کاٹ رہی ہے۔

داعش کے میدان جنگ سے لے کر محنت کشی تک

الماس عاشروف سنہ 2013 میں داعش کے زیرِ اثر آیا اور اس نے شام جا کر لڑنے کا فیصلہ کیا۔

وہ طلاق یافتہ تھا اور اپنے بیٹے کی اکیلے ہی پرورش کر رہا تھا، وہ دانتوں کی صفائی کے ماہر کے طور پر اچھی نوکری ہونے کے باوجود دہشت گردوں کے پراپیگنڈے کا شکار ہو گیا۔

اس نے نوکری چھوڑ دی اور اپنے بیٹے کو رشتے داروں کے پاس چھوڑ دیا۔

"[داعش کے بھرتی کاروں] نے دلیل پیش کی کہ شام میں ایک 'جہاد' ہو رہا ہے اور ہمیں مسلمانوں کی مدد کے لیے وہاں جانا ہے۔ انہوں نے بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کی ایک ویڈیو پوسٹ کی، جو نعرے لگا رہے تھے کہ 'دنیا کے مسلمانو، تم کہاں ہو؟ تم [ہمیں بچانے کے لیے] کیوں نہیں آ رہے؟'"

عاشروف نے کہا، انہوں نے کہا کہ ہمیں روزِ قیامت اپنے اعمال کا جواب دینا ہو گا۔

شام پہنچتے ہی اسے احساس ہوا کہ اس کی کارروائیاں کسی کی حفاظت میں مدد نہیں کر رہیں۔ تاہم اس نے پھر بھی ہتھیار نہیں ڈالے۔

اس نے یاد کرتے ہوئے بتایا، "ہم نے عام شہریوں اور روسی اور امریکی فوجیوں کا یکساں مقابلہ کیا۔ یہی پالیسی تھی۔"

عاشروف عسکریت پسندوں میں کافی اونچے مقام پر تھا اور جب تک داعش کمانڈروں نے کسی وجہ سے اسے غدار قرار نہیں دیا تب تک وہ وہاں سے واپس نہیں آیا تھا۔

عاشروف نے کہا، "قائدین کی طرف سے ایک اعلان ہوا کہ تمام مرتدوں کو سزا دی جائے۔ اس وقت وہاں بڑا ہنگامہ تھا۔ انسانی زندگی کی قیمت محض ایک گولی سے بھی کم تھی۔"

عاشروف شام سے اس کنبے کے ساتھ فرار ہو گیا جو اس نے وہاں بنایا تھا، ایک بیوی اور چار بچے۔

آپریشن جوسان کی وجہ سے بڑے پیمانے پر وطن واپسی سے ایک سال قبل، جنوری 2018 میں، وہ اور اس کا خاندان قازقستان پہنچا۔ اسے دہشت گردی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر 15 سال سزا بامشقت سنائی گئی۔

حتیٰ کہ اب بھی، اسے پوری طرح سمجھ نہیں آئی کہ وہ کس لیے لڑ رہا تھا، وہ اسے اپنی "حماقت" قرار دیتا ہے۔

رہائی کے بعد، اس نے کہا کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش بڑے فخر کے ساتھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

'ممتاز' جنگجو کی بیوہ

جازیرہ اسانووا دسمبر 2019 میں آپریشن جوسان کے ذریعے قازقستان واپس آئی اور اسے دہشت گردی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر آٹھ سال قید کی سزا ہوئی۔

اس نے کہا کہ وہ اپنی ساتھی قیدی خواتین میں ایک اچھوت کی طرح ہے۔

اسانووا نے کہا، "میں نے سنہ 2010 میں نماز شروع کی، اور اس کے ایک سال بعد، میری ایک آدمی سے ملاقات ہوئی اور اس سے شادی ہو گئی۔ ایک سال بعد، اس نے مشورہ دیا کہ ہم چند سال عربی پڑھنے کے لیے مصر چلے جائیں۔"

اس نے کہا، تاہم زبانوں کی تعلیم کے مجاز سکولوں میں پڑھنے کی بجائے، انہوں نے ملک میں غیر قانونی مراکز میں تعلیم حاصل کی، جہاں انہوں نے عربی سیکھی اور جھوٹے-شیخوں کے زیر اثر آ گئے۔

ایک روز اس کے شوہر نے اسے کہا کہ وہ اپنے "مسلمان بھائیوں" کی مدد کے لیے شام جا رہا ہے۔ چار ماہ بعد، اسانووا اس کے پیچھے گئی اور نتیجتاً شام میں خانہ جنگی کے عروج پر، سنہ 2013 میں ایک عسکریت پسند کیمپ میں جا پہنچی۔

اپنی عربی زبان میں مہارت کے صدقے، اسانووا کا شوہر داعش کمانڈروں کا بااعتماد اور "ممتاز" جنگی یونٹ کا رکن بن گیا۔

لیکن وہ ایک فضائی حملے میں مارا گیا تھا۔

اسانووا نے کہا، "میرے شوہر کے مرنے سے کچھ ہی دیر پہلے، میں نے اسے بتایا کہ میں گھر جانا چاہتی ہوں، لیکن اس نے انکار کر دیا۔"

اپنے شوہر کے انتقال کے بعد، اسانووا کے پاس کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ وہ اور اس کے بچے بھوکے بھٹکتے رہے۔ بالآخر، وہ اور دیگر کئی خواتین ایک کرد کیمپ میں بھاگ گئیں، جہاں سے اسے اور اس کے بچوں کو واپس بھیج دیا گیا۔

اس نے کہا، "میں اب یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ شام میں کوئی مذہب نہیں تھا۔ جہاں جنگ ہوتی ہے وہاں کوئی جنت نہیں ہو سکتی۔ یہ میری غلطی ہے کہ میں یہاں [جیل میں] ہوں، اپنے بچوں سے جُدا ہوں۔"

جیل میں شدت پسندوں کی نظریاتی صفائی

الماتے کے مقامی، شدت پسندی کی روک تھام کے ماہر اسیلبک ایزبیروف نے کہا کہ شدت پسندی کا خاتمہ جیل سے باہر کی نسبت جیل میں زیادہ مؤثر ہے کیونکہ قیدی عام طور پر بحالی کے خواہش مند ہوتے ہیں۔

ایزبیروف نے کاروان سرائے کو بتایا، "تاہم، بہت کچھ ان کے اندرونی عقائد پر منحصر ہے، اگر ایک مومن کو گمراہ نظریئے کو منتخب کرنے پر پچھتاوا ہے ۔۔۔ جیل ایک ایسی جگہ ہے جہاں اسے دوبارہ تعلیم دی جا سکتی ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "لیکن اگر وہ سمجھتا ہے کہ سزا غیر منصفانہ ہے تو وہ زودرنج ہو جائے گا اور اس کے انتہا پسندانہ رجحانات مضبوط تر ہو جائیں گے۔"

انہوں نے کہا کہ جیل حکام کو انتہا پسندوں کو اچھوت بنانے سے گریز کرنا ہو گا، جو ان کی بحالی کو پیچیدہ بنا دیتا ہے، انہوں نے متنبہ کیا کہ سزایافتہ انتہا پسندوں میں عام مجرموں میں تبدیل ہونے کا زبردست رجحان ہوتا ہے۔

سابقہ انتہا پسندوں تک رسائی اور بحالی میں مہارت رکھنے والی این جی او، اکنیت کے کوکشتاؤ دفتر کے ڈائریکٹر رستم سدوئیف نے کہا کہ جیل سے باہر کی دنیا میں، راسخ العقیدہ مسلمانوں کو بنیاد پرست بنایا جا سکتا ہے کیونکہ وہ اپنی عبادت میں جذباتی الہام کی کمی محسوس کرتے ہیں۔

انہوں نے کارواں سرائے کو بتایا کہ داعش اور دیگر تخریبی تحریکیں انہیں وہ کچھ پیش کرتی ہیں جس کے لیے وہ تڑپ رہے ہوتے ہیں۔

البتہ، سدوئیف کو الماتے کے عالمِ دین یرلان اکاتائیف کی تبلیغ میں حوصلہ افزائی ملتی ہے، جو کہ آرین-کازے مسجد میں سابق بنیاد پرستوں کو اپنے خطبات کی طرف راغب کرتے ہیں۔

سدوئیف نے کہا کہ "کرشماتی" اکاتائیف "مذہبی عقائد یا اسلامی قانون کی بجائے روحانی اخلاقیات پر زور دیتا ہے"۔

سدوئیف نے کہا، "وہ مسلمانوں کو جذباتی تحریک دیتا ہے۔ بنیاد پرستی کے سابق حامی ان کے خطبات سن رہے ہیں۔ یہ ان کے لیے روایتی اسلامی تبلیغ سے واقف ہونے کا ایک طریقہ ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500