اسلام آباد -- تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسند، جنہیں افغان طالبان نے افغانستان کی جیلوں سے رہا کیا ہے، پاکستان کی طرف سے اپنی سرحدوں کے اندر دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
افغان طالبان نے افغانستان پر قبضہ کرنے کے عمل کے دوران، سینکڑوں قیدیوں کو جیلوں سے رہا کر دیا ہے، جن میں بشمول ٹی ٹی پی کے راہنماوں کے، اکثریت عسکریت پسندوں کی ہے۔
ٹی ٹی پی کے سابقہ نائب سربراہ مولوی فقیر محمد بھی ان میں شامل ہیں۔
افغان پولیس اور انٹیلیجنس کے حکام نے 2013 میں محمد کو گرفتار کیا تھا جو باجوڑ کے قبائلی ضلع میں ٹی ٹی پی کی سربراہی کرتے تھے اور جن کے، افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں، القاعدہ کے راہنما ایمن الظواہری سے قریبی تعلقات تھے۔
ٹی ٹی پی نے 16 اگست کو محمد کی رہائی کے بعد، ان کی ایک تصویر جاری کی اور کہا کہ "گروہ انہیں اور دوسرے عسکریت پسندوں کی بڑی تعداد کو رہائی پر مبارکباد پیش کرتا ہے"۔
ٹی ٹی پی کے ایک راہنما نے پاکستان فاروڈ کو بتایا کہ قید شدہ بہت سے دوسرے اہم کمانڈروں کو بھی افغان طالبان نے رہا کر دیا ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے مسیحی سرگرم کارکن سلیم سہوترا نے کہا کہ "افغان طالبان نے ایسے عسکریت پسندوں کو رہا کر کے، پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ اپنی دشمنی کا اظہار کر دیا ہے، جنہوں نے ملک بھر میں عبادت گاہوں، بازاروں، اسکولوں اور عوامی جگہوں پر بم دھماکے کیے ہیں"۔
سہوترا کے بھائی، ٹی ٹی پی سے متعلقہ گروہ کی طرف سے آل سینٹس چرچ پر کیے جانے والے جڑواں خودکش دھماکوں میں ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ حملہ ستمبر 2013 میں ہوا تھا اور اس میں 104 افراد ہلاک اور دیگر 142 زخمی ہو گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ "افغان طالبان اور ٹی ٹی پی، دونوں ہی غیر انسانی ہیں اور ان کا اسلام یا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے"۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے انسدادِ دہشت گردی کے ایک سینئر اہلکار نے بھی بڑی تعداد میں ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی رہائی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اہلکار نے گمنام رہنے کی شرط پر بتایا کہ "افغان طالبان، ٹی ٹی پی کو کمزور بنانے اور بہتر طور پر منظم کردہ کوششوں سے عسکریت پسندی کا خاتمہ کرنے کے لیے، پاکستان کی کئی دہائیوں سے جاری کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ "پاکستان کی فوج اور سیاسی قیادت کو علم ہونا چاہیے کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں"۔
اہلکار نے کہا کہ "افغان طالبان کی مدد کرنے کی بجائے، پاکستان کو افغان طالبان، ٹی ٹی پی اور افغانستان میں اس کے القاعدہ سے اتحاد، کے خلاف عالمی کوششوں کا حصہ بن جانا چاہیے"۔
ایک مضبوط ٹی ٹی پی
ٹی ٹی پی نے پاکستانی سیکورٹی فورسز اور عام شہریوں دونوں پر سینکڑوں حملے کیے ہیں جن میں 2014 میں پشاور کے اسکول پر ہونے والا ایک حملہ بھی شامل ہے جس میں 145 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔
پاکستان بھر میں ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں کے خلاف ہونے والے کریک ڈاون کے بعد، عسکریت پسندوں نے اپنی پناہ گاہوں کو افغانستان کے ہمسایہ صوبوں میں منتقل کر دیا تھا۔
وہاں سے انہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کے کاموں کی منصوبہ سازی کی اور سرحد پار سے حملے کیے جس کا نتیجہ پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے درمیان کشیدگی کی صورت میں نکلا۔
تاہم، افغان سیکورٹی فورسز نے اتحادی فورسز کے ساتھ مل کر، زمینی اور فضائی حملوں میں، افغانستان میں ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی بڑی تعداد کو ہلاک یا گرفتار کر لیا جس سے اس دہشت گرد گروہ میں مزید تنزلی آ گئی۔
پاکستان نے 2017 میں افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر ایک باڑ لگانے کا کام شروع کیا تھا۔
یہ عوامل اور ان کے ساتھ یکے بعد دیگرے راہنماوں کی ہلاکتوں اور اندرونی چپقلش کے باعث، 2020 کے آغاز تک ٹی ٹی پی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی مگر شاکی ذیلی گروہوں کے حالیہ اتحاد اور افغان طالبان کی علاقائی کامیابیوں نے اس گروہ کو دوبارہ متحرک کر دیا ہے۔
ٹی ٹی پی نے پاکستان کے سرحدی اضلاع -- پاکستان کی فوج کی طرف سے 2014 میں بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیے جانے سے پہلے تک ٹی ٹی پی کے سابقہ گڑھ --- میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
گروہ نے حال ہی میں 30 جولائی اور 2 اگست کو ہونے والے دو مختلف حملوں کی ذمہ داری قبول کی جن میں وہ تین پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے تھے جنہیں ڈیرہ اسماعیل خان اور پشاور میں پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں کی حفاظت پر معمور کیا گیا تھا۔