سلامتی

دہشت کے نئے خطے میں، قبضہ کیے گئے علاقوں میں طالبان کی بربریت مرکزِ نگاہ بن گئی ہے

از عمر

ہرات پر طالبان کے قبضے کے ایک روز بعد، عسکریت پسندوں نے مبینہ چوروں کو گلیوں میں گھمایا، اور انہیں نامعلوم سزا دی۔ [سوشل میڈیا پر بانٹی گئی تصویر]

ہرات پر طالبان کے قبضے کے ایک روز بعد، عسکریت پسندوں نے مبینہ چوروں کو گلیوں میں گھمایا، اور انہیں نامعلوم سزا دی۔ [سوشل میڈیا پر بانٹی گئی تصویر]

ہرات – جیسے جیسے طالبان مزید علاقوں پر قابض ہو رہے ہیں، عسکریت پسند گروہ جن علاقوں پر قبضہ کر رہا ہے وہاں کے مکینوں کی زندگی کو استحصالی قوانین، بھتہ خوری، ظلم و ستم، سرِ عام پھانسیوں، سر قلم کرنے اور جبری شادی کے لیے لڑکیوں کے اغواء سے زیادہ سے زیادہ قابلِ ترس بنا رہا ہے۔

افغانستان بھر میں مکینوں کا کہنا ہے کہ طالبان جنگجوؤں نے عام شہریوں کو رات کے وقت گھسیٹ کر ان کے گھروں سے نکالا اور دکھاوے کے مقدمات چلانے کے بعد انہیں پھانسی دے دی، یہ سب کچھ دم بخود کر دینے والی پابندیاں لگانے کے بعد کیا گیا ہے۔

تمام تر پابندیاں، جیسے کہ خواتین کے لیے برقعے، مردوں کے لیے لمبی داڑھیاں اور مساجد میں زبردستی بلاوا، 1990 کی دہائی میں طالبان حکومت کی یاد دلاتے ہیں، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ دنیا کو دیکھنے کے ان کے انداز میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

جیسا کہ وہ پہلے کرتے رہے ہیں، طالبان ٹیکنالوجی اور حقوقِ نسواں کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

13 اگست کو لی گئی اس تصویر میں، ایک طالبان جنگجو ہرات میں سڑک کے کنارے راکٹ لگائے ہوئے گرنیڈ اٹھائے ہوئے ہے۔ [اے ایف پی]

13 اگست کو لی گئی اس تصویر میں، ایک طالبان جنگجو ہرات میں سڑک کے کنارے راکٹ لگائے ہوئے گرنیڈ اٹھائے ہوئے ہے۔ [اے ایف پی]

صوبہ بادغیس میں طالبان کے فساد کی وجہ سے بے گھر ہونے والے، قلعۂ نو کے مکین بشمول خواتین اور بچوں، کو 8 جولائی کو صوبہ ہرات کے ضلع انجیل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ [عمر/سلام ٹائمز]

صوبہ بادغیس میں طالبان کے فساد کی وجہ سے بے گھر ہونے والے، قلعۂ نو کے مکین بشمول خواتین اور بچوں، کو 8 جولائی کو صوبہ ہرات کے ضلع انجیل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ [عمر/سلام ٹائمز]

ہرات، جس پر طالبان نے 6 جولائی کو قبضہ کیا تھا، کے ضلع گوریان کے ایک 55 سالہ مکین، سید محمد سکندری نے کہا کہ طالبان نے مقامی باشندوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ٹیلی وژن نہ دیکھیں، لڑکیوں کو سکول نہ بھیجیں اور اگر محرم ساتھ نہ ہو تو خواتین کو گھر سے باہر مت نکلنے دیں۔

سکندری کا کہنا تھا، "طالبان بالکل بھی نہیں بدلے ہیں، اور وہ عام شہریوں کے ساتھ بالکل اسی طرح بدسلوکی اور ان پر تشدد کر رہے ہیں ۔۔۔ جیسے وہ 20 برس پہلے کرتے تھے۔"

انہوں نے کہا، "طالبان کسی سماجی، ثقافتی یا روایتی اصول کو نہیں مانتے،" ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ بزرگوں اور بچوں کے ساتھ "جانوروں کی طرح" پیش آتے ہیں۔

صوبہ ہرات کے ضلع زندہ جان کی ایک مکین اور یونیورسٹی کی ایک طالبہ، مہناز حیدری نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ چند اضلاع میں طالبان کی آمد کے ساتھ ہی، خواتین کی زندگیاں ہمیشہ سے زیادہ تاریک ہو گئی ہیں۔ طالبان نے تمام خواتین اور لڑکیوں کو برقعہ پہننے پر مجبور کر دیا ہے۔

زندہ جان 8 جولائی کو طالبان کے ہاتھوں میں چلا گیا تھا۔

حیدری نے کہا، "مجھے کبھی بھی برقعہ پہننے کی عادت نہیں رہی، اور مجھے یہ پہننا سخت ناپسند ہے"، ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کی دھمکیوں نے اس کے پاس "جیل جیسا" برقعہ پہننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں چھوڑا۔

انہوں نے کہا، "طالبان کے زندہ جان ضلع میں داخل ہونے سے پہلے، میں یونیورسٹی جانے کے لیے ہفتے میں کئی بار اکیلی ہرات چلی جایا کرتی تھی۔ لیکن اگر طالبان کو پتہ چل گیا کہ میں طالبہ ہوں، وہ مجھے فوراً قتل کر دیں گے۔"

حیدری نے کہا کہ طالبان کے نیچے زندگی گزارنا جہنم جیسا ہے۔

جمعرات (12 اگست) کو بی بی سی نے خبر دی تھی کہ جو لوگ طالبان کے احکامات پر عمل نہیں کرتے انہیں ظالمانہ سزائیں دی جاتی ہیں۔

ایک طالبان جج نے بی بی سی کو بتایا، "ہماری شریعت میں یہ بالکل واضح ہے: جو لوگ شادی سے پہلے مباشرت کرتے ہیں – خواہ مرد ہو یا عورت – ان کی سزا سرِ عام 100 کوڑے مارنا ہے۔ لیکن جو کوئی بھی شادی شدہ ہو کر زنا کا ارتکاب کرتا ہے اس کے لیے سنگساری کی سزا ہے۔۔۔ چوری کرنے والوں کے لیے: اگر جرم ثابت ہو جائے، تو ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔"

عام شہریوں سے بھتہ وصولی

دریں اثناء، طالبان کے زیرِ قبضہ علاقوں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ طالبان عام شہریوں سے زبردستی پیسے اور کھانے پینے کی اشیاء چھین رہے ہیں۔

ضلع گوریان کے ایک مکین، طور احمد کریمی نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ طالبان عام شہریوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ دن میں دو یا تین بار ان کے لیے کھانا تیار کریں۔

کریمی نے کہا، "طالبان نے گھرانوں کو حکم دیا ہے کہ اپنے مویشی ذبح کریں ۔۔۔ اور انہیں گوشت دیں۔" ان کا مزید کہنا تھا کہ عام شہریوں کو حکم ماننا پڑتا ہے۔ "اگر کوئی انکار کر دیتا ہے، طالبان انہیں مارتے پیٹتے ہیں اور ان پر تشدد کرتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ طالبان نے – عشر اور زکوٰۃ کے نام پر – ہر کسی سے ٹیکس اکٹھا کرنا شروع کر دیا ہے۔

کریمی نے کہا کہ لمبی خشک سالی کی وجہ سے اس سال دیہاتیوں کی فصل اچھی نہیں ہوئی تھی، لیکن طالبان پھر بھی کسانوں اور باغبانوں کو بھاری رقوم ادا کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، "ضلع گوریان کے طالبان کے زیرِ تسلط علاقوں میں زندگی ناقابلِ برداشت ہو گئی ہے۔"

صوبہ بادغیس کے ضلع قادس کے مجیب اللہ حق دوست نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ طالبان زندگی کو مشکل بنا رہے ہیں۔

ضلع قادس پر قبضہ 18 مئی کو ہوا تھا۔

انہوں نے کہا، "طالبان نے خاندانوں سے کہا ہے کہ وہ نوجوانوں کو ان کی صفوں میں بھرتی کروائیں،" ان کا مزید کہنا تھا کہ بہت سے نوجوان جو ہتھیار نہیں اٹھانا چاہتے انہیں طالبان کی دھمکیوں کی وجہ سے مجبوراً اٹھانا پڑے۔

حق دوست کے مطابق، نوجوان طالبان کے نظریئے پر یقین نہیں رکھتے لیکن انہیں طالبان کے رکن بننے کا دکھاوا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، "عام شہری طالبان کے مظالم اور جہالت سے تنگ آ گئے ہیں۔" بہت سے خاندان حکومت کے زیرِ اثر علاقوں میں فرار ہو گئے ہیں۔

حق دوست کا کہنا تھا کہ طالبان بہت سے لوگوں کی سوچ سے زیادہ ظالم اور زیادہ جاہل ہیں۔

فرحا کی صوبائی کونسل کے چیئرمین، داد اللہ قانی نے سلام ٹائمز کو بتایا، اگرچہ طالبان غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں سے لاکھوں ڈالر وصول کرتے ہیں، وہ پھر بھی عام شہریوں سے بھتہ وصول کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ طالبان مقامی لوگوں، بشمول غرباء سے "عشر اور زکوٰۃ" کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بہت سے عام شہریوں کے پاس "کھانے کو نہیں ہے، لیکن طالبان انہیں پیسے دینے کے لیے ادھار لینے پر مجبور کر رہے ہیں۔"

قانی کا کہنا تھا کہ ہزاروں خاندان طالبان کی بھتہ خوری اور مظالم سے بچنے کے لیے بڑے شہروں کی طرف بھاگ گئے ہیں۔

عوامی خدمات میں خلل

ہرات کے مقامی حکام اور مکینوں کا کہنا ہے کہ "ٹیکس" اکٹھا کرنے کے باوجود، طالبان نے جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے وہاں سرکاری خدمات کو معطل کر دیا ہے، اور حکومت سے متعلقہ تمام انتظامی دستاویزات کو تباہ کر دیا ہے، ساتھ ہی ساتھ سڑکوں، پُلوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے پر کام کو روک رہے ہیں۔

ہرات کے گورنر عبدالصبور قانی نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ طالبان نے زبردستی ان خدمات میں خلل ڈالا ہے، جس سے مقامی باشندے پریشان ہو گئے ہیں۔

شہری آبادی کو خدمات فراہم کرنے کی بجائے، طالبان جبراً بھتہ وصول کرتے ہیں اور خوفزدہ کرتے ہیں۔

قانی نے مزید کہا کہ طالبان حکومت کو ان سہولیات کی بحالی کی اجازت نہیں دے رہے جو انہوں نے دھماکے سے اڑا دی ہیں۔

ہرات شہر میں سول سوسائٹی کے ایک کارکن، عبدالقدوس احدی نے کہا کہ طالبان نے قبضہ شدہ علاقوں کو کم از کم 20 برس پیچھے دھکیل دیا ہے۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ طالبان افغانستان کو تباہ کرنا اور افغانوں کو فنا کرنا چاہتے ہیں، ان کا کہنا تھا، "طالبان نے اپنی پوری تاریخ میں ملک کے لیے کچھ بھی اچھا نہیں کیا۔"

انہوں نے کہا کہ طالبان نے عام شہریوں کو سرکاری خدمات سے اور بین الاقوامی امداد سے محروم کر دیا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ جہاں کہیں بھی گئے ہیں وہاں کچھ نہیں لائے، سوائے تاریکی، جہالت، فساد اور ظلم و ستم کے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500