احتجاج

پاکستانیوں کی جانب سے افغانستان میں طالبان کے مظالم کی مذمت

از زرک خان

21 جولائی کو لاہور میں سول سوسائٹی کے کارکنان نے طالبان کے جاری تشدد کے خلاف مظاہرہ کیا اور افغان حکومت اور فوج کے لیے اپنی بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔ [زرک خان/پاکستان فارورڈ]

21 جولائی کو لاہور میں سول سوسائٹی کے کارکنان نے طالبان کے جاری تشدد کے خلاف مظاہرہ کیا اور افغان حکومت اور فوج کے لیے اپنی بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔ [زرک خان/پاکستان فارورڈ]

اسلام آباد -- پاکستان میں شہری فعالیت پسند، قانون ساز اور عام شہری ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان کے مظالم پر سراپا احتجاج ہیں، جہاں حالیہ مہینوں میں عسکریت پسندوں اور افغان افواج کے درمیان خونریز لڑائی دیکھنے میں آئی ہے۔

مئی کے بعد سے، کئی افغان صوبوں میں طالبان کے بڑھتے ہوئے حملے عام شہریوں کی آسمان کو چھوتی تعداد میں اموات، ہزاروں خاندانوں کی بے گھری اور وسیع پیمانے پر تباہی پر منتج ہوئے ہیں۔

فساد کی تازہ ترین مثال میں، جمعہ (6 اگست) کے روز طالبان نے کابل میں ایک مسجد کے قریب ایک افغان حکومتی ترجمان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا، جس کی دھمکی وہ کئی روز سے دے رہے تھے کہ وہ بڑھتے ہوئے فضائی حملوں کا انتقام لینے کے لیے اہم سرکاری شخصیات کو نشانہ بنائیں گے۔

لاہور میں، مقامی لوگوں نے 21 جولائی کو ایک ریلی نکالی جس کا انتظام ایک این جی او "رواداری تحریک" نے افغانستان میں طالبان کے فساد کی مذمت کرنے اور افغان عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرنے کے لیے کیا تھا۔

25 جولائی کو کراچی میں فکر مند مکینوں کے ایک گروپ نے قندھار میں طالبان جنگجوؤں کے ہاتھوں افغان مزاحیہ اداکار نذر محمد کی حالیہ ہلاکت کی مذمت کی۔ [فائل]

25 جولائی کو کراچی میں فکر مند مکینوں کے ایک گروپ نے قندھار میں طالبان جنگجوؤں کے ہاتھوں افغان مزاحیہ اداکار نذر محمد کی حالیہ ہلاکت کی مذمت کی۔ [فائل]

مظاہرین کا کہنا تھا کہ صرف افغان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا طالبان حکومت کی واپسی نہیں چاہتی۔

مظاہرین میں سے ایک، جبار بھٹی نے کہا، "پاکستانی عوام عام شہریوں پر طالبان کے جاری حملوں پر فکرمند ہیں اور ان افغان عوام کے ساتھ اظہارِ یکجیتی کرنا چاہتے ہیں جو ان کی مزاحمت کر رہے ہیں۔"

ان کا کہنا تھا، "طالبان کا اسلام کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے، وہ غیر انسانی اور وحشی ہیں.

مظاہرے میں شریک حقوقِ نسواں کی ایک کارکن، فوزیہ علی نے کہا کہ سنہ 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے، افغانستان میں حقوقِ نسواں میں بہتری آئی ہے، زیادہ لڑکیاں سکول جا رہی ہیں اور زیادہ خواتین افرادی قوت اور سیاست میں شامل ہو رہی ہیں۔

انہوں نے رپورٹوں کا حوالہ دیا کہ طالبان نے حال ہی میں جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے وہاں انہوں نے خواتین پر پابندیاں عائد کر دی ہیں.

فوزیہ کا کہنا تھا، "لیکن دنیا بھر، بشمول پاکستان، میں خواتین افغان خواتین کے ساتھ ہیں اور طالبان کی مزاحمت میں ان کی حمایت کرتی ہیں۔"

کراچی میں بھی مقامی افراد 25 جولائی کو مقامی پریس کلب کے سامنے جمع ہوئے جہاں انہوں نے طالبان کے ہاتھوں افغان مزاحیہ اداکار نذر محمد کی ہلاکت کی مذمت کی، جو کہ قندھار میں خاشہ زوان کے نام سے مشہور تھے۔

29 جولائی کو طالبان نے نذر محمد، جو آن لائن مزاحیہ ویڈیوز پوسٹ کرنے کے لیے مشہور تھے، کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس سے پہلے سوشل میڈیا پر ایسے کلپ ظاہر ہوئے تھے جن میں ان کے ساتھ مار پیٹ ہوتے ہوئے دکھایا گیا تھا اور پھر ان کی لاش دکھائی گئی تھی۔

نذر محمد کی تصاویر والے پوسٹر اٹھائے ہوئے، کراچی کے احتجاجی مظاہرین نے کہا کہ طالبان اپنی پرتشدد کارروائیوں کے ساتھ افغان عوام کو خوفزدہ نہیں کر سکتے۔

احتجاجی مظاہرے کے منتظم، ولیم صادق کا کہنا تھا، "ہم پُرامید ہیں کہ طالبان شکست سے دوچار ہوں گے اور یہ کہ وہ جس عدم برداشت، تشدد اور نفرت کے حامی ہیں اس کی بیخ کنی ہو گی۔"

انہوں نے کہا، "افغانوں نے بہت مصیبتیں دیکھی ہیں، جن میں سے بیشتر غیر رپورٹ شدہ ہی چلی گئیں۔ پورا پاکستان ان جاری ہلاکتوں کا خاتمہ چاہتا ہے۔"

افغان پاکستانی حمایت کے لیے شکرگزار

پاکستانی سیاستدانوں نے طالبان کی کارروائیوں پر ان کی مذمت کی ہے۔

پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی کے ایک رہنماء، ذاکر شاہ نے کہا کہ پاکستانیوں نے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، افغان طالبان کے ساتھ اتحادی ایک کالعدم دہشت گرد تنظیم، کی دہشت گردی سے بہت تکلیفیں اٹھائی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی افغان حکومت اور عوام کی جانب سے دہشت گردوں کی حکم عدولی کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔

ٹی ٹی پی نے پاکستانی افواج اور عام شہریوں پر سینکڑوں حملے کیے ہیں۔

150 سے زائد پاکستانی، بیشتر بچے، 16 دسمبر 2014 کو شہید ہو گئے تھے، جب ٹی ٹی پی کے دہشت گرد پشاور میں ایک سکول میں زبردستی گھس گئے تھے۔ 110 سے زائد دیگر افراد زخمی ہوئے تھے۔

پاکستانی فوج نے قبائلی علاقہ جات میں فعال عسکریت پسند گروہوں کے خلاف فوجی آپریشن کے ساتھ جواب دیا جس نے ٹی ٹی پی کو بھاگ کر افغانستان چلے جانے پر مجبور کر دیا، جہاں افغان طالبان اسے تحفظ فراہم کرتے رہے ہیں۔

شاہ نے کہا، "طالبان، خواہ وہ پاکستان میں ہیں یا افغانستان میں، ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں اور بے گناہ عوام کو مارنے میں ملوث ہیں۔"

کابل کے مقامی سیاسی کارکن، عظمت نوری نے کہا کہ طالبان مخالف مہمات میں ہزاروں پاکستانی نوجوانوں کی جانب سے جس حمایت کا اظہار کیا گیا ہے وہ افغان عوام کے لیے حوصلہ افزاء رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر پاکستانی افغان امن کی سرگرمیوں کے ساتھ منسلک ہیں اور طالبان جنگجوؤں کے لیے اپنی مخالفت کا اظہار کر رہے ہیں جو افغانستان میں پُرتشدد بغاوت کیے ہوئے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ہو سکتا ہے کچھ پاکستانی شہری افغانستان اور افغان شہریوں سے ہمدردی رکھتے ہوں. پھر بھی حقیقت یہی ہے کہ اس ملک کی فوج اور آئی ایس آئی انٹیلی جنس نیٹ ورک دہشتگردوں کو پروان چڑھا رہے ہیں، انہیں تربیت دے رہے ہیں، اسلحہ فراہم کر رہے ہیں اور انہیں افغانوں کو قتل کرنے اور افغانستان کو تباہ کرنے کے لئیے بھیج رہے ہیں. یہ 45 برس سے ایسا کر رہے ہیں، اور سبکدوش عہدیداران، حالیہ عہدیداران، اور ارکانِ پارلیمان نے بھی اس کی تصدیق کی ہے.

جواب