معیشت

طالبان کی جانب سے پاکستانی سرحدی گزرگاہ پر قبضے کے بعد ٹرکوں سے سامان لے جانے کے اخراجات بڑھ گئے

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

ٹرک ڈرائیور، 27 جولائی کو ویش، افغانستان اور چمن، پاکستان کے درمیان سرحدی گزرگاہ کی طرف جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ [اصغر اچکزئی/ اے ایف پی]

ٹرک ڈرائیور، 27 جولائی کو ویش، افغانستان اور چمن، پاکستان کے درمیان سرحدی گزرگاہ کی طرف جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ [اصغر اچکزئی/ اے ایف پی]

چمن، پاکستان -- طالبان کی طرف سے افغان- پاکستان سرحد کی اہم سرحدی چوکی پر قبضے سے، ٹرکوں کے ذریعے سامان لے جانے کے اخراجات میں انتہائی زیادہ اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ عسکریت پسند اور حکومتی اہلکار تاجروں پر الگ الگ ٹیکس لگا رہے ہیں اور ڈاکو سامان کو حفاظت سے گزر جانے کی اجازت دینے کے لیے رشوت مانگ رہے ہیں۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے چمن سے ایسی سینکڑوں گاڑیاں، روزانہ افغانستان کی طرف قندھار صوبہ کی سپن بولدک ڈسٹرکٹ کے علاقے ویش جاتی ہیں جن پر قندھار شہر کو جانے والا سامان لدا ہوتا ہے۔

واپسی پر وہ عام طور پر ایسی زرعی مصنوعات کو لے کر جاتی ہیں جن کی منزل پاکستان کی منڈیاں یا بندرگاہیں ہوتی ہیں۔

یہ تجارت -- جس کی مالیت اگر زیادہ نہیں تو، سالانہ لاکھوں ملین ڈالر ہے -- جولائی کے آغاز میں اس وقت بالکل رک گئی جب طالبان نے دھول سے اٹے ہوئے سرحدی قصبے پر قبضہ کر لیا۔ مگر یہ عسکریت پسندوں کی طرف سے بظاہر مکمل کنٹرول سنبھال لینے کے بعد، گزشتہ ہفتے دوبارہ شروع ہو گئی۔

انہوں نے، حملوں کا ایک سلسلہ شروع کرنے کے بعد، مئی کے آغاز سے ملک کے بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔ وہ غیر ملکی فوجوں کے واپس چلے جانے کے آخری مرحلے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگرچہ انہوں نے ابھی تک کسی صوبائی دارالحکومت پر قبضہ نہیں کیا ہے، مگر انہوں نے کئی اہم سرحدی چوکیوں پر قبضہ کر لیا ہے -- جو ایران، تاجکستان، ترکمانستان اور پاکستان کے ساتھ ہیں -- اور جو خُشکی سے محصُور ملک میں آنے والے سامان پر کسٹم ڈیوٹی سے اہم آمدنی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔

چمن میں ٹرک چلانے والے ہدایت اللہ خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ "ہم نے قندھار میں انگور لادے اور راستے میں ہمیں کم از کم تین بار لوٹا گیا۔"

انہوں نے کہا کہ کبھی وہ 3,000 روپے (20 ڈالر) مانگتے، کسی اور جگہ پر 2,000 روپے اور کہیں 1,000 روپے"۔

افراتفری اور الجھن

گزشتہ ہفتے چمن میں جن ٹرک چلانے والوں کا انٹرویو لیا گیا انہوں نے سرحد کے افغان جانب موجود افراتفری اور الجھن کے بارے میں بتایا۔

پاکستان افغانستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر عمران کاکڑ نے کراچی سے کپڑے لے جانے والے ٹرک کی ایک مثال دی جو قندھار جا رہا تھا۔

طالبان نے ڈرائیور سے ڈیوٹی کے طور پر سپن بولدک میں 150,000 روپے (تقریبا 1,000 ڈالر) وصول کیے لیکن جب گاڑی قندھار پہنچی تو سرکاری اہلکار بھی انتظار کر رہے تھے۔

کاکڑ نے کہا کہ "ہمیں اور بھی زیادہ کسٹم ڈیوٹی ادا کرنا پڑی کیونکہ وہ طالبان کی طرف سے وصول کی جانے والی رقم کو تسلیم نہیں کر رہے تھے"۔

یہ مناظر 1990 کی دہائی میں ہونے والی سفاک خانہ جنگی کے دوران موجود افغانستان کی یاد دلاتے ہیں جب مختلف ملیشیاؤں کے ایک مجموعے نے اہم تجارتی راستوں پر قبضہ کر لیا تھا اور سڑکوں کو اپنی مرضی سے استعمال کرتے ہوئے ٹرک والوں اور رہائشیوں سے بھتہ وصول کیا تھا۔

گزشتہ بدھ (28 جولائی) کو سینکڑوں ٹرک سرحد کی پاکستانی جانب قطار بنائے کھڑے تھے اور سرحد پار کرنے کی اجازت کا انتظار کر رہے تھے۔

گزشتہ ہفتے ایک خاک آلود میدان میں، جس کے پس منظر میں ناہموار پہاڑیاں موجود تھیں، ڈرائیور اور شاگرد "اسپینر بوائے"سفر سے پہلے اپنی گاڑیوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

اگرچہ فاصلہ صرف 100 کلومیٹر کا ہے مگر یہ سفر خطروں سے بھرا ہوا ہے۔

افغانستان میں گاڑیاں اور سڑکیں خراب ہیں، پولیس اور فوج کی چوکیاں معمول کے مطابق ہر ڈرائیور سے "چائے کے پیسے" یا اس سے زیادہ کا مطالبہ کرتی ہیں اور ڈاکو انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں - وہ یا تو سامان چوری کرتے ہیں یا محفوظ راستے کے لیے مزید ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

پھر بھی تاجروں اور ڈرائیوروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ٹرکوں سے سامان لانے لے جانے کا کام جاری رکھنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔

ایک ٹرک ڈرائیور عبدالرزاق جو چوزوں کو قندھار لے جا رہے تھے، نے کہا کہ "ہم جانتے ہیں کہ جنگ جاری ہے لیکن ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے"۔

٣انہوں نے کہا کہ "سامان کی نقل و حمل ہمارے خاندانوں کو کھانا کھلانے کا واحد راستہ ہے۔"

ترقیاتی منصوبے

افغان حکومت طالبان کے سفاکانہ نظریے اور شہریوں کی روزی روٹی پر مسلسل حملوں کا جواب دے رہی ہے اور وسیع پیمانے پر ایسے منصوبے شروع کر رہی ہے جس سے لاکھوں افراد کو فائدہ ہو گا۔

مئی میں حکومتی ترجمان دوا خان میناپال نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ طالبان نے ایک ارب ڈالر سے زائد مالیت کے عوامی بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے شمسی سال کے آغاز سے ملک کے مختلف حصوں میں کئی پلوں، سڑکوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو دھماکے سے اڑا دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے آبپاشی کے نظام کو بھی نقصان پہنچایا، بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا اور2,000 ہزار سے زائد گھروں میں بم نصب کیے۔

حکومت نے مارچ میں شمسی سال کے آغاز سے درجنوں عوامی منصوبوں کا افتتاح کیا ہے۔

کمال خان ڈیم کا افتتاح اور کئی دوسرے ڈیموں پر کام کا آغاز ان بڑے منصوبوں میں شامل ہیں جن کا افغان شہریوں نے بڑے پیمانے پر خیر مقدم کیا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500