سلامتی

طالبان کی طرف سے حملوں کے دوران لوٹ مار اور گھروں کو نذر آتش کرنے کے باعث رہائشی نقل مکانی پر مجبور

از محمد قاسم

قندوز کے صوبائی حکام کا کہنا ہے گزشتہ ماہ، گل تپیہ ضلع میں باغِ شرکت کے علاقے میں افغان نیشنل آرمی (اے این اے) کی ایک چوکی پر قبضہ کرنے کے بعد، طالبان نے 400 خاندانوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے گھروں کو چھوڑ دیں اور انہیں دھمکی دی ہے کہ وہ ان کے گھروں کو نذرِ آتش کر دیں گے۔ [محمد قاسم /سلام ٹائمز]

قندوز -- ملک بھر میں جاری جارحیت کے دوران، طالبان کے جنگجو بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر رہے ہیں اور شہریوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاگ جائیں۔

سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں طالبان کو، افغان فورسز کی حمایت کے انتقام میں، سرکاری عمارتوں اور دکانوں کو جلاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

قندوز میں صوبائی حکام کا کہنا ہے گزشتہ ماہ، گل تپیہ ضلع میں باغِ شرکت کے علاقے میں افغان نیشنل آرمی (اے این اے) کی ایک چوکی پر قبضہ کرنے کے بعد، طالبان نے 400 خاندانوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے گھروں کو چھوڑ دیں اور انہیں دھمکی دی ہے کہ وہ ان کے گھروں کو نذرِ آتش کر دیں گے۔

باغِ شرکت کے علاقے سے تعلق رکھنے والے مقامی نمائںدے قاری سراج الدین کا کہنا ہے کہ کچھ خاندان، قندوز صوبہ کے دوسرے حصوں میں چلے گئے ہیں۔

گل تپیہ ضلع میں باغِ شرکت کے علاقے سے طالبان کی وجہ سے اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور ہونے والے خاندان، 3 جولائی کو قندوز شہر کے شاہد ظریفی اسکول پہنچ رہے ہیں۔ [محمد قاسم/ سلام ٹائمز]

گل تپیہ ضلع میں باغِ شرکت کے علاقے سے طالبان کی وجہ سے اپنے گھروں سے بھاگنے پر مجبور ہونے والے خاندان، 3 جولائی کو قندوز شہر کے شاہد ظریفی اسکول پہنچ رہے ہیں۔ [محمد قاسم/ سلام ٹائمز]

افغان سیکورٹی فورسز اور طالبان کے جنگجوؤں کے درمیان بدغیس صوبہ کے دارالحکومت، قلعہِ نو میں جاری لڑائی کے دوران، 7 جولائی کو ایک گھر سے دھویں کے بادل اٹھ رہے ہیں۔ [اے ایف پی]

افغان سیکورٹی فورسز اور طالبان کے جنگجوؤں کے درمیان بدغیس صوبہ کے دارالحکومت، قلعہِ نو میں جاری لڑائی کے دوران، 7 جولائی کو ایک گھر سے دھویں کے بادل اٹھ رہے ہیں۔ [اے ایف پی]

دیگر نے انتقام کے خوف سے، بدغشاں صوبہ کے دارالحکومت فیض آباد میں پناہ لی ہے کیونکہ ان میں سے کچھ کے رشتہ دار افغان نیشنل آرمی و سیکورٹی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) میں خدمات انجام دے رہے تھے۔

سراج الدین نے کہا کہ جب طالبان 29 جون کو صوبائی مرکز میں داخل ہوئے تو انہوں نے لاوڈ اسپیکر پر شہریوں کو بتایا کہ ان کے پاس "اپنی حفاظت" کے لیے بھاگ جانے کے لیے دو گھنٹے ہیں۔

شاہدین کے مطابق، طالبان نے بہت سے قبائلی بزرگوں کو مارا پیٹا اور دو شہریوں کو گولی مار دی -- جن میں سے ایک دکاندار اور دوسرا مقامی ملیشیاء فورس کا رکن تھا -- انہیں حکومت سے تعلقات کے الزام میں قتل کیا گیا۔

سراج الدین نے کہا کہ "اس خوف سے کہ ہمارے اہلِ خاندان کو بھی قتل کر دیا جائے گا، ہم اپنے گھر چھوڑ کر فیض آباد شہر آ گئے"۔

انہوں نے کہا کہ "میرا خاندان اپنا گھر چھوڑ آیا۔ پھر طالبان نے اسے اور اس میں موجود ہر چیز کو جلا دیا"۔

باغِ شرکت سے تعلق رکھنے والے بے گھر ہو جانے والے شخص عبدل حنان، جنہوں نے قندوز شہر کے شاہد ظریفی اسکول میں عارضی پناہ لے رکھی ہے، کہا کہ "میرے زیادہ تر رشتہ دار اے این اے (افغان نشینل آرمی) کی بیس میں خدمات انجام دے رہے تھے اور ہم نے ہمیشہ ان کی حمایت کی کیونکہ وہ ہمارے علاقے کی سیکورٹی کو قائم رکھے ہوئے تھے"۔

انہوں نے کہا کہ طالبان نے خاندانوں کو نکالنے کے بعد بہت سے گھروں کو نذرِ آتش کر دیا مگر ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ انہوں نے کتنے گھروں کو جلایا ہے۔

باغِ شرکت سے تعلق رکھنے والی ایک اور بے گھر ہو جانے والی خاتون، حمیدہ جہنوں نے شاہد ظریفی اسکول میں پناہ لی ہے، کہا کہ وہ اور ان کے خاندان کے چھہ افراد مصائب اور غیر یقینی صورتحال میں رہ رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ "باغِ شرکت سے تعلق رکھنے والے بے گھر افراد کے پاس جینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے"۔

انہوں نے حکومت پر زور دیتے ہوئے کہ وہ ان کے گاؤں کو محفوظ بنائے اور ان کی باحفاظت واپسی کو یقینی بنائے، کہا کہ "بے گھر ہو جانے والے افراد کو خوراک اور پینے کے پانی کی کمی کا سامنا ہے"۔

قندوز کی صوبائی کونسل کی سیکریٹری فوزیہ یافتالی نے باغِ دشت کے سینکڑوں خاندانوں کے بے گھر ہو جانے اور طالبان کی لوٹ مار کی تصدیق کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "طالبان کا یہ قدم واضح طور پر جنگی جرم ہے۔ ہم متحارب فریقوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ اپنی لڑائی اور جھڑپوں کے دوران عام شہریوں کو نقصان نہ پہنچائیں"۔

ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے بہت سے اندرونِ ملک بے گھر ہو جانے والے افراد (آئی ڈی پیز) کا انٹرویو کیا ہے جنہوں نے بھی یہ کہا کہ طالبان نے اے این ڈی ایس ایف کے خلاف اپنی جارحیت کے دوران عام شہریوں کے گھروں کو لوٹا اور نذرِ آتش کیا۔

ایچ آر ڈبلیو کی ایسوسی ایٹ ایشیاء ڈائریکٹر پیٹریسیا گوسمین نے 7 جولائی کو کہا کہ"حکومت کی حمایت کرنے والے شہریوں کے خلاف طالبان کے انتقامی حملے، مستقبل میں ہونے والے مظالم کے خطرے کا ایک بدشگون انتباہ ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "طالبان کی قیادت میں اپنی فورسز کے مظالم کو روکنے کی طاقت ہے مگر انہوں نے ایسا کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے"۔

ایک 45 سالہ بیوہ نے ایچ آر ڈبلیو کو بتایا کہ طالبان کے جنگجو گھر گھر جا کر تلاشی لے رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ "انہوں نے کہا کہ مجھے جانا ہو گا کیونکہ میں "کافروں" کی مدد کر رہی ہوں۔ میں 20 سالوں سے اس گاؤں میں رہ رہی تھی۔ اب میں فیض آباد میں ایک خیمے میں رہ رہی ہوں"۔

بے گھر ہو جانے والے خاندانوں کے لیے امداد

قندوز کے حکام کے مطابق، 22 جون سے لے کر 5 جولائی تک ہونے والی شدید لڑائی کے باعث، 12,000 سے زیادہ خاندان بھاگ کر ہمسایہ صوبوں اور کابل چلے گئے ہیں۔

یہ بے گھر ہو جانے والے خاندان قندوز شہر کے مضافات اور امام صاحب، علی آباد اور چہار درہ ڈسٹرکٹس سے تعلق رکھتے ہیں۔

قندوز کے مہاجرین اور وطن واپسی کے محکمہ کے ڈائریکٹر غلام سخی رسولی نے بتایا کہ ان کے محکمے نے ایک 30 رکنی ٹیم تعینات کی ہے جو جائزہ لے گی اور بے گھر ہونے والے خاندانوں کی فوری ضروریات کی شناخت کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ بے گھر ہوجانے والے کم از کم 7,000 خاندانوں نے قندوز شہر میں پناہ لی ہے اور 3,000 سے زیادہ خاندانوں کو امدادی پیکج ملے ہیں جن میں خوراک اور ضرورت کی اشیاء موجود تھیں۔

بدغشاں کے حکام نے کہا کہ باغِ شرکت سے تعلق رکھنے والے 200 سے زیادہ خاندانوں نے اپنے گھروں کو چھوڑ کر صوبہ میں پناہ لی ہے۔ کچھ آئی ڈی پیز نے بدغشاں میں اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں پناہ لی ہے جبکہ دیگر فیض آباد شہر کے ایک باغ میں رہ رہے ہیں۔

بدغشاں کے گورنر کے ایک ترجمان نائک محمد نظری نے کہا کہ مقامی حکومت نے آئی ڈی پیز کے درمیان خیمے، خوراک اور ضرورت کی اشیاء تقسم کی ہیں اور جلد ہی انہیں مناسب پناہ گاہیں فراہم کر دی جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی گورنر نے تمام انسانی اور امدادی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تنازعات سے متاثرہ آئی ڈی پیز، خاص طور پر ان لوگوں کو فوری طور پر امداد فراہم کریں جنھیں صوبہ قندوز میں حالیہ لڑائی سے بے گھر ہو گئے ہیں۔

نظیری نے کہا کہ "بدغشاں میں ورلڈ فوڈ پروگرام نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ وہ آئی ڈی پیز کی مدد کے لیے ہماری مدد کرے گا"۔

عالمی ادارہِ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے جمعہ (9 جولائی) کو، جنگ زدہ ملک سے امریکی افواج کے واپس چلے جانے کے بعد، طالبان کی بڑھتی ہوئی جارحیت کے دوران، افغانستان میں صحتِ عامہ تک رسائی کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔

مشرقی بحیرہ روم کے خطے میں ڈبلیو ایچ او کے ایمرجنسی ڈائریکٹر، ریک برینن نے کہا کہ "یہ ایک انتہائی تشویشناک صورتحال ہے اور ابھی یہ بہت ہی رواں ہے۔"

انہوں نے جنیوا میں صحافیوں سے قاہرہ سے ویڈیو کال کے ذریعے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ "ہمیں صحت عامہ تک کم ہوتی ہوئی رسائی پر، واضح طور پر بہت تشویش ہے"۔

طالبان کی طرف سے سخت پابندیاں

طالبان کی طرف سے کئی ڈسٹرکٹس پر قبضہ کرنے کے بعد، ان علاقوں کے رہائیشوں کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند سخت پابندیاں لگاتے ہیں جو کہ اس صورت حال کی یاد دلاتی ہے جس کا 20 سال پہلے ان میں سے اکثریت نے سامنا کیا تھا۔

قندوز کی خانہ آباد ڈسٹرکٹ کے ایک شہری محمد حارث فقیری نے کہا کہ طالبان نے شہریوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان کے ارکان کے لیے دن میں تین وقت کھانا تیار کریں یا انہیں نقد ادائیگی کریں۔

انہوں نے کہا کہ شہریوں کو بہت تشویش ہے۔ "مقامی حکومت کے حکام اور خواتین اتنے خوف زدہ ہیں کہ وہ باہر نہیں نکلتے"۔

قندوز صوبہ کی امام صاحت ڈسٹرکٹ کے ایک شہری عبدل کریم لطیفی نے کہا کہ طالبان کی طرف سے ڈسٹرکٹ کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد، لوگ بہت خوف زدہ اور پریشان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "طالبان نے ہمیں بتایا ہے کہ خواتین کسی قریبی مرد رشتہ دار کے بغیر گھر سے باہر نہیں جا سکتی ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان نے شہریوں کو حکم دیا ہے کہ وہ موسیقی نہ سنیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500