تجزیہ

زبردست کور اپ: چین نے کیسے دنیا کو کووڈ -19 کے بارے میں دھوکہ دینے کی کوشش کی

پاکستان فارورڈ

ایک دکاندار، گذشتہ سال 3 نومبر کو، 2021 کے کیلنڈر بند کر کے رکھ رہا ہے جن میں مرحوم کمیونسٹ رہنما ماؤ زے تنگ (دائیں) اور موجودہ چینی صدر ژی جنپنگ (اوپر بائیں) کو، کورونا وائرس سے لڑنے کی کوششوں پر ایوارڈ حاصل کرنے والے چار طبی اسکالرز کی تصاویر کے اوپر ہاتھ ہلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ [گریگ اکر/ اے ایف پی]

ایک دکاندار، گذشتہ سال 3 نومبر کو، 2021 کے کیلنڈر بند کر کے رکھ رہا ہے جن میں مرحوم کمیونسٹ رہنما ماؤ زے تنگ (دائیں) اور موجودہ چینی صدر ژی جنپنگ (اوپر بائیں) کو، کورونا وائرس سے لڑنے کی کوششوں پر ایوارڈ حاصل کرنے والے چار طبی اسکالرز کی تصاویر کے اوپر ہاتھ ہلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ [گریگ اکر/ اے ایف پی]

جیسے جیسے عالمی رہنماؤں اور وبائیات دانوں نے کورونا وائرس کی اصلیت کے بارے میں شفاف تحقیقات کے لئے دباؤ ڈالا ہے، بیجنگ اپنے متبادل بیانیہ کی پروپیگنڈا مہم میں بہت زیادہ جارحانہ ہو گیا ہے۔

جب سے کووڈ-19 کے پہلے واقعہ کا دسمبر 2019 میں ووہان میں پتہ چلا ہے، چین کی طرف سے ملنے والی معلومات انتہائی دھندلی رہی ہیں۔

ناقدین نے الزام عائد کیا ہے کہ جب یہ وباء سب سے پہلے سامنے آئی تو بیجنگ نے اس کے پھیلاوُ کے پیمانے اور وسعت کو کم کر کے پیش کیا جبکہ کچھ نظریہ نگاروں کا قیاس ہے کہ یہ وائرس ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی (ڈبلیو آئی وی) کی ایک لیب سے نکلا ہو سکتا ہے ۔

اس بات کے نئے ثبوت سامنے آئے ہیں کہ اس مجوزہ لیبارٹری کے چینی فوج سے مبینہ تعلقات ہو سکتے ہیں۔

چینی ماہِر سمیات شی زینگلی (بائیں) 23 فروری 2017 کو چین کے صوبہ ہوبی کے علاقے ووہان میں پی 4 لیبارٹری کے اندر دکھائی دے رہی ہیں۔ [جوہانس ایسل/ اے ایف پی]

چینی ماہِر سمیات شی زینگلی (بائیں) 23 فروری 2017 کو چین کے صوبہ ہوبی کے علاقے ووہان میں پی 4 لیبارٹری کے اندر دکھائی دے رہی ہیں۔ [جوہانس ایسل/ اے ایف پی]

عالمی اداراہِ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ٹیم کے ارکان جو کووڈ -19 کورونا وائرس کے آغاز کے بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں، 3 فروری کو چین کے صوبہ ہوبی کے ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی پہنچے۔ [ہیکٹر ریٹیمال/ اے ایف پی]

عالمی اداراہِ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ٹیم کے ارکان جو کووڈ -19 کورونا وائرس کے آغاز کے بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں، 3 فروری کو چین کے صوبہ ہوبی کے ووہان انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی پہنچے۔ [ہیکٹر ریٹیمال/ اے ایف پی]

امریکہ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے جنوری میں ڈبلیو آئی وی پر "خفیہ عسکری سرگرمیوں" میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔

15 جنوری کو شائع ہونے والی حقائق کی فہرست میں کہا گیا ہے کہ "ایک سال سے زیادہ کے عرصے تک، چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) نے کووڈ-19 کی وباء کے نکتہِ آغاز کے بارے میں شفاف اور مکمل تفتیش کو منظم طریقے سے روکے رکھا اور اس کی بجائے بھاری وسائل کو دھوکہ دہی اور غلط معلومات پھیلانے کے لیے مختص کیا"۔

اس میں کہا گیا کہ "سی سی پی کا رازداری اور کنٹرول کے بارے میں جان لیوا جنون کی قیمت، چین اور دنیا بھر میں لوگوں کی صحت عامہ کی صورت میں دینی پڑی ہے۔

یہ رازداری اور دھوکہ دہی کی ثقافت، کرونا وائرس کے نکتہ آغاز کے بارے میں مزید تفتیش، خصوصی طور پر ڈبلیو آئی وی کے بارے میں زیادہ گہرائی میں جائزہ لینے سے روکتی ہے۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ "ڈبلیو آئی وی نے چین کی فوج کے ساتھ مطبوعات اور خفیہ منصوبوں پر مل کر کام کیا ہے۔ ڈبلیو آئی وی خفیہ تفتیش میں ملوث رہی جس میں لیبارٹری کے جانوروں پر کم از کم 2017 سے اب تک، چین کی فوج کی طرف سے کیے جانے والے تجربات شامل ہیں"۔

لیبارٹری سے نکلنے کے نظریہ پر ایک اور نظر

یہ الزامات اس وقت سامنے آئے ہیں جب عالمی ادارہِ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تفتیش کار آخرکار ووہان پہنچے -- ایک سال سے زیادہ کے عرصے کے تعطل اور سیاسی جھگڑوں کے بعد -- کرونا وائرس کے آغاز کے بارے میں تفتیش کرنے کے لیے۔

ڈبلیو ایچ او کی انتہائی متوقع تحقیقات کو بیجنگ کی طرف سے سخت کنٹرول کا سامنا کرنا پڑا۔

چینی حکام نے ڈبلیو ایچ او کے تفتیش کاروں کو کووڈ-19 کے ابتدائی کیسوں پر خام اعدد و شمار دینے سے انکار کر دیا، جس سے ماہرین کی بین الاقوامی ٹیم کو مایوسی ہوئی۔ ایک ماہ طویل مہم کے بعد، شرکاء کو کوئی حتمی نتیجہ نہیں ملا۔

حقیقت کی تلاش میں مدد کرنے کے بجائے چینی حکام نے الزام تراشی اور "بہادر" چینی ردعمل اور معاشی بحالی کی طرف توجہ مبذول کروانے پر زور لگایا۔

بیجنگ نے بار بار ایسے نظریات کو پھیلایا کہ یہ وائرس منجمد سمندری غذا جیسی مصنوعات کی پیکنگ کے ذریعے چین میں آیا تھا یا کسی ثبوت کے بغیر یہ تجویز کیا کہ اس وائرس کی ابتدا اٹلی یا ریاستہائے متحدہ میں ہوئی ہے۔

ابتدا میں ان کوششوں سے ڈبلیو آئی وی اور لیبارٹری سے نکلنے کے نظریہ کی طرف سے توجہ ہٹانے میں بظاہر کامیابی ہوئی۔

لیکن جب ڈبلیو ایچ او کی ٹیم نے مارچ میں اپنی رپورٹ میں کہا کہ ڈبلیو آئی وی سے لیک ہونے کا امکان انتہائی کم ہے تو ناقدین، حتی کہ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذانوم گریبیسس نے بھی اس دعوے کو جلد بازی سے مسترد کردیا۔

انہوں نے 30 مارچ کو کہا کہ "میرا خیال ہے کہ یہ تفتیش اتنی وسیع نہیں تھی"۔

مئی میں، امریکی صدر جو بائیڈن نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کو لیبارٹری سے لیک ہونے کے نظریہ سمیت نکتہ آغاز کے سوال کی تحقیقات کرنے اور 90 دن کے اندر رپورٹ کرنے کا حکم دیا۔

گزشتہ ماہ، جی 7 سربراہی اجلاس میں، دنیا کی امیر ترین جمہوریتوں کے رہنماؤں نے چین پر زور دیا کہ وہ کورونا وائرس کے نکتہِ آغاز کی نئی تحقیقات میں حصہ لے۔ انہوں نے تحقیقات کے ایک حصے کے طور پر چینی لیبارٹریوں تک رسائی حاصل کرنے کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا۔

بائیڈن نے کہا کہ "ہر طرف سے شفافیت کا مظاہرہ کیا جانا ضروری ہے"۔

انسانی جینوم میں ترمیم کے بارے میں، عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کی مشاورتی کمیٹی میں خدمات انجام دینے والے جیمی میٹزل نے کہا کہ "ہم چین کو صدی کی سب سے زیادہ خوفناک وبائی بیماری کی تحقیقات کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں ویٹو کا حق نہیں دے سکتے ہیں۔"

عسکری تعلق

چین کی طرف سے ڈبلیو آئی وی کے بارے میں آزاد تفتیش کی اجازت دینے یا اپنی تحقیق کے اعداد و شمار سانجھے کرنے سے انکار کرنے سے، صرف شکوک و شبہات کو جنم ملا ہے کہ وبائی بیماری اسی شہر کو کیسے گرفت میں لے سکتی ہے جہاں ایک ایسا ادارہ موجود ہے جو چمگادڈوں میں موجود کورونا وائرس پر کام کرنے کے لئے مشہور ہے۔

ڈبلیو ای وی پر نئی دوبارہ سے پڑنے والی توجہ نے، چین کی ایک اعلی وائرسولوجسٹ ڈاکٹر شی زینگلی پر توجہ مرکوز کی ہے جو ڈبلیو ای وی کے ابھرتی ہوئی متعدی بیماریوں کے مرکز کی ڈائریکٹر ہیں۔

کچھ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ شی نے ناکافی حفاظتی اقدامات کے ساتھ لیبارٹریوں میں چمگادڑوں کے کرونا وائرس کے ساتھ خطرناک تجربات کیے۔ دوسروں کا کہنا ہے کہ ڈبلیو آئی وی میں چینی فوجی سائنس دانوں کے ساتھ شی کے کام کی مزید تفتیش کی جانے کی ضرورت ہے۔

این بی سی نیوز کی خبر کے مطابق، اگرچہ اس نے جون میں نیو یارک ٹائمز کے ساتھ غیر معمولی، غیر منصوبہ بندی والی گفتگو کے دوران چینی فوج کے ساتھ کسی بھی رابطے سے انکار کیا تھا، شی کے فوجی حکام کے ساتھ متعدد رابطے ہیں۔

انہوں نے اور دیگر افراد نے 2018 کے موسم بہار میں کورونا وائرس ریسرچ کے بارے میں چینی فوجی سائنس دان ٹونگ یوگینگ کے ساتھ اور دسمبر 2019 میں چاؤ یوسن کے ساتھ تعاون کیا۔

دی ویکنڈ آسٹریلین نے خبر دی ہے کہ بیجنگ کی طرف سے وائرس کے انسان سے انسان میں منتقل ہونے کو تسلیم کیے جانے کے صرف پانچ ہفتوں بعد، پیپلز لبریشن آرمی کے ایک فوجی سائنس دان، چاؤ نے 24 فروری 2020 کو کرونا وائرس سے متعلق ویکسین کے لئے پیٹنٹ دائر کیا۔

اس انکشاف نے ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ چینی حکومت نے کووڈ - 19 کے پھیلنے کو عوامی طور پر تسلیم کرنے سے قبل ہی، ایک بے نام ویکسین کی جانچ شروع کر دی تھی۔

ایک اور پراسرار بات، چاؤ کی مئی 2020 میں نامعلوم حالات میں موت ہو گئی۔

چاؤ کے ایسے ایوارڈ یافتہ عسکری سائنس دان، جس کے ڈبلیو آئی وی سے تعلقات بھی تھے، ہونے کے باجود چینی ذرائع ابلاغ نے ان کی موت کی اطلاع نہیں دی اور ان کے "بہادر" کام کو خراج تحسین پیش نہیں کیا۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شی اور چاوُ کے درمیان مضبوط کام سے متعلقہ تعلقات - اور چاؤ کی موت سے متعلق حکومت کی خاموشی - اس نظریہ کی تائید کرتی ہے کہ ڈبلیو آئی وی "خفیہ فوجی سرگرمی" میں ملوث تھی۔

امریکی محکمہ خارجہ کے سابق تفتیش کار ڈیوڈ ایشر نے این بی سی نیوز کو بتایا، "مجھے مکمل یقین ہے کہ فوج ایک خفیہ پروگرام میں مالی اعانت فراہم کررہی تھی جس میں کورونا وائرس شامل تھے۔"یہ بات میں نے کئی غیر ملکی محققین سے سنی ہے جنھوں نے اس لیبارٹری میں لیبارٹری کے فوجی کوٹوں کو پہنے ہوئے کئی محققین کو کام کرتے دیکھا ہے۔"

آسٹریلیا کے ایک اخبار، دی سیٹرڈے ٹیلیگراف نے مئی 2020 میں خبر دی تھی کہ وبائی مرض کے آغاز کے بعد سے، چینی حکومت نے "بین الاقوامی شفافیت پر حملہ" کرتے ہوئے، وائرس سے متعلق شواہد کو جان بوجھ کر دبایا یا تباہ کردیا ہے۔

اس میں امریکہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا اور برطانیہ کی فائیو آئیز کی خفیہ ایجنسیوں کی مرتب کردہ ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا۔

اخبار نے کہا کہ چینی حکومت نے - "دوسرے ممالک کو خطرے سے دوچار کرتے ہوئے" - اپنے خلاف بولنے والے ڈاکٹروں کو خاموش یا "غائب" کرتے ہوئے وائرس سے متعلق خبروں کو چھپایا، تجربہ گاہوں میں کووڈ-19 کے ثبوت کو ختم کیا اور ویکسین پر کام کرنے والے سائنس دانوں کو نمونے فراہم کرنے سے انکار کیا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500