سلامتی

طالبان جارحانہ کاروائیاں بند کر دیں ورنہ ہوائی حملوں کے لیے تیار ہو جائیں، امریکی جنرل کا انتباہ

سلام ٹائمز اور اے ایف پی

امریکی فضائیہ کا ایک لڑاکا طیارہ 23 جنوری 2020 کو افغانستان کے اوپر پرواز کر رہا ہے۔ [اتحادی افواج]

امریکی فضائیہ کا ایک لڑاکا طیارہ 23 جنوری 2020 کو افغانستان کے اوپر پرواز کر رہا ہے۔ [اتحادی افواج]

کابل - افغانستان میں امریکی اعلی کمانڈر نے منگل (29 جون) کو اس امکان کو مسترد نہیں کیا کہ اگر طالبان نے ملک بھر میں نئے علاقے پر قبضہ کرنے کی اپنی مہم کو جاری رکھا تو ان کے خلاف فضائی حملے ہو سکتے ہیں۔

مئی کے آغاز سے، جب امریکی افواج نے فوجیوں کا انخلا شروع کیا تھا، ملک کے ناہموار دیہی علاقوں میں لڑائی میں شدت آ گئی ہے۔

منگل کے روز کابل میں، افغانستان میں امریکی فوجیوں کے کمانڈر، امریکی جنرل سکاٹ ملر نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکی فوج کے پاس باغیوں کے خلاف فضائی حملے کرنے کے لئے اب بھی طاقت موجود ہے اگرچہ کہ وہ انخلا کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

انہوں نے کہا کہ "مجھے اب بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ میں افغان سیکیورٹی فورسز کی مدد اور دفاع کروں اور یقینی طور پر اپنا دفاع بھی کروں۔"

افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل سکاٹ ملر (دائیں)، اس وقت کے قائم مقام وزیر دفاع اسداللہ خالد (درمیان میں) کے ساتھ 6 جون، 2019 کو مغربی کابل میں افغان نیشنل آرمی (اے این اے) کی چوکی کا دورہ کر رہے تھے۔ [تھامس واٹکنز/ اے ایف پی]

افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل سکاٹ ملر (دائیں)، اس وقت کے قائم مقام وزیر دفاع اسداللہ خالد (درمیان میں) کے ساتھ 6 جون، 2019 کو مغربی کابل میں افغان نیشنل آرمی (اے این اے) کی چوکی کا دورہ کر رہے تھے۔ [تھامس واٹکنز/ اے ایف پی]

ملر نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ انہوں نے طالبان سے کہا ہے کہ وہ جارحانہ کاروائیاں روک دیں، کہا کہ "میں ہوائی حملے دیکھنا نہیں چاہتا ہوں لیکن اگر آپ ہوائی حملے نہیں چاہتے تو آپ تمام تر تشدد کو روکیں۔"

اے ایف پی نے ریڈیو فری یورپ/ ریڈیو لبرٹی سے جو فوٹیج حاصل کی ہے اس میں جنرل نے طالبان کو طاقت کے ذریعہ ملک پر قبضہ کرنے کی کوشش کے خلاف متنبہ کیا۔

وائس آف امریکہ نے ملر کے بیان کے حوالے سے بتایا ہے کہ "فوجی قبضہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے، یقینا یہ افغانستان کے عوام کےمفاد میں نہیں ہے۔"

ملر نے کہا کہ "افغان عوام کے لئے جس طرح یہ سب ختم ہونا چاہئے وہ ایسا کچھ ہے جو ایک سیاسی حل کے گرد گھومتا ہے۔ اگر آپ تشدد کو کم نہیں کرتے ہیں تو یہ سیاسی حل زیادہ مشکل ہوتا جاتا ہے۔"

انہوں نے افغان حکومت اور طالبان کے مذاکرات کاروں کے، دوحہ میں مذاکرات کی میز پر واپس آنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ وہ دشمنیوں پر سیاسی تصفیہ کریں۔

ملر نے مزید کہا کہ افغان سکیورٹی فورسز "آگے بڑھنے کے ساتھ ہی مناسب مقامات پر تبدیلیاں بھی لا رہی ہیں۔"

علاوہ ازیں منگل کے روز وزارت داخلہ نے کہا کہ اس نے 4,000 ارکان پر مشتمل "ریپڈ ری ایکشن فورس" تشکیل دی ہے جس کی سربراہی فوج کے ریٹائرڈ جنرلوں کے پاس ہوگی اور جو عام سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر طالبان سے لڑیں گے۔

افغانستان کے سیکیورٹی کے شعبے کے ترجمان، جنرل اجمل عمر شنواری نے کہا کہ ان کے تمام ارکان افغان شہری ہیں جو طالبان کے خلاف اپنے ملک کا دفاع کرنے کے لیے نکل آئے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500