سلامتی

طالبان کی جانب سے علمائے دین کے قتل کا مقصد اعتراض کو دبانا

نجیب اللہ

13 مئی کو کابل میں عبدالرّحمٰن مسجد میں اختتامِ رمضان مناتے ہوئے افغان عیدالفطر کی نماز میں دکھائے گئے ہیں۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

13 مئی کو کابل میں عبدالرّحمٰن مسجد میں اختتامِ رمضان مناتے ہوئے افغان عیدالفطر کی نماز میں دکھائے گئے ہیں۔ [وکیل کوہسار/اے ایف پی]

کابل – ایسے علمائے دین کو قتل کرنا، جو عسکریت پسندوں کی لڑائی کو غیر قانونی سمجھتے ہیں، معاشرے کے اس طبقے کو کچلنے کی جاری کوششوں کا جزُ ہے جس کی مدد سے طالبان اپنے نام نہاد "جہاد" کی توجیح دیتے ہیں۔

حالیہ سانحہ میں عسکریت پسندوں نے 12 جون کو ایک عالمِ دین مولوی سمیع اللہ رشید کو لوگر میں ایک جنازے پر جاتے ہوئے قتل کیا۔

لوگر صوبائی کاؤنسل کے چیئرمین حسیب اللہ ستانکزئی نے 13 جون کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے رشید کی گاڑی کو روکا اور انہیں گولی مار دی۔

قبل ازاں 3 جون کو بندوق برداروں نے ضلع انجیل، صوبہ ہرات میں علماء کاؤنسل کے ڈپٹی چیئرمین، مولوی محمّد کبابیانی کو مسجد سے گھر جاتے ہوئے مہلک طور پر گولیاں ماریں۔

3 مارچ کو بندوق برداروں نے کابل میں کابل عربی دارالعلوم (اکادمی) کے ایک لیکچرار اور کندوز علماء کاؤنسل کے سابق چیئرمین مولوی فیض محمد فائز کو قتل کر دیا۔

2 فروری کو کابل میں جمیعتِ اصلاح مرکزی کاؤنسل کے چیئرمین محمد عاطف کابل میں ایک دھماکے میں جاںبحق ہوئے۔

درست اعداد وشمار کی عدم دستیابی میں، حملوں میں جاںبحق ہونے والے علماء کی تعداد کے اندازے مختلف ہیں۔

افغان قومی سلامتی کاؤنسل نے 9 اپریل کو ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ برس کے دوران 14 صوبوں میں 28 علمائے دین قتل ہو چکے ہیں۔

تاہم، ایک افغان عالمِ دین عبدالسلام عابد نے 4 جون کو کہا کہ گزشتہ 18 ماہ مین 1,200 علمائے دین قتل ہوئے۔

ایک عالمِ دین اور صدر اشرف غنی کے مشیر محمد سلیم حسنی کے مطابق، طالبان مختلف وجوہات کی بنا پر مختلف علما کو ہدف بناتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "پہلا گروہ وہ عالم ہیں جو نظام اور حکومت کے اندر کام کرتے ہیں۔ چونکہ وہ حکومت کی شرعی حیثیت کی افزائش کرتے ہیں اس لیے بنیادی ہدف ہوتے ہیں۔"

حسنی نے کہا، "دوسرا گروہ ایسے علماء ہیں جو حکومت کے اندر تو کام نہیں کرتے لیکن اس کی چھتری تلے رہتے ہیں اور اماموں اور پروفیسروں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ وہ آسان اہداف ہوتے ہیں"

انہوں نے مزید کہا، "تیسرا گروہ ان علماء کا ہے جو نہ تو طالبان کی حمایت کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی مخالفت کرتے ہیں۔" "وہ ان علماء کو بھی ہدف بناتے ہیں تاکہ ان کو ڈرا کر حکومت سے دور رہنے پر مجبور کیا جا سکے۔"

علمائے دین کو خاموش کرنا

افغانوں کا کہنا ہے کہ طالبان علماء کو ہدف بنا کر سچ اور انصاف کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حسنی نے کہا، "متعدد واقعات میں جب افغان نیشنل آرمی کا کوئی سپاہی یا شہری شہید ہوتا ہے تو علماء [طالبان کے اقدامات] کی مذمت کرتے ہیں۔ اس وجہ سے طالبان علماء کے بیان کی پرواہ کرتے ہیں۔"

کابل کے ایک عالمِ دین ولی اللہ لبیب نے کہا کہ علمائے دین کا قتل "حرام ہے کیوں کہ وہ آزاد خیال ہوتے ہیں اور درست سمت پر لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "علماء کو قتل کرنے والے یا تو اسلام پر یقین نہیں رکھتے یا پھر دھوکہ دے کر ان کی دماغ شوئی کی جاتی ہے۔"

لبیب نے کہا، "اگر آپ ایک مسلمان مجلس میں بیٹھتے ہیں تو کوئی یہ ثابت نہیں کر سکتا افغانستان میں جنگ ایک اسلامی جہاد ہے؛ لہٰذا جو بھی آواز اٹھاتا ہے اسے اس گروہ کے عسکریت پسند ہدف بناتے ہیں۔"

صوبہ ہرات کی ایک رہائشی مریم محمدی نے کہا کہ طالبان ان علماء کو ہدف بناتے ہیں جو طالبان عسکریت پسندوں کو یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے رہنماؤں سے دھوکہ نہ کھائیں اور اپنے ہی بھائی بندوں کا قتل بند کریں۔

انہوں نے 3 جون کو قتل ہونے والے صوبہ ہرات کے مولوی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "مثال کے طور پر کبابیانی ایک عالمِ دین تھے جنہوں نے ہمیشہ عوام کو بھلائی کرنے اور حکومت مخالف عناصر کو امن کے لیے کوشش کرنے کی ترغیب دی۔"

انہوں نے کہا، "انہوں نے افغانستان میں جنگ جاری رہنے اور اپنے ہی بھائیوں کے قتل کی مخالفت کی۔"

محمدی نے کہا، "میرا خیال ہے کہ مسلح حکومت مخالف عناصر اس کے پیچھے ہیں، کیوںکہ وہ امن قائم کرنا نہیں چاہتے اور یہ بھی نہیں چاہتے کہ علماء ان کی غیر قانونی جنگ سے متعلق بات کریں۔"

کابل میں ایک نجی جامعہ کے طالبِ علم جلیل نوری نے کہا، "بدقسمتی سے طالبان ہر اس عالمِ دین کو ہدف بناتے ہیں جو اس گروہ کے جھوٹے جہاد کو مسترد کرنے کی جراٗت کرتا ہے۔"

انہوں نے گزشتہ برس کابل میں مساجد میں دھماکوں میں قتل ہونے والے مولوی ایاز نیازی اور مولوی عزیزاللہ مفلح کا حوالہ دیا۔

انہوں نے کہا کہ ان دونوں علماء نے "بارہا افغانستان میں جاری جنگ کو غیر قانونی قرار دیا اور خودکش حملوں کی مذمت کی۔ نتیجتاً طالبان نے اسلام کو قطعی طور پر ملحوظِ خاطر نہ رکھتے ہوئے انہیں مساجد کے اندر قتل کر دیا۔"

کابل شہر کے ایک 35 سالہ رہائشی اور ایک سرکاری ملازم ذبیح اللہ اکبری نے کہا، "علماء کی اکثریت جانتی ہے کہ طالبان کی جنگ غیر قانونی ہے، اور انہوں نے 2019 میں کابل میں منعقد ہونے والے تاریخی جرگہ میں واضح طور پر اس کا اعلان کیا۔"

انہوں نے مزید کہا، "تب سے طالبان علماء کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور سچ کی آواز بلند کرنے والے کسی بھی عالم کو ہدف بناتے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500