سلامتی

حکام نے طالبان کی طرف سے بچوں کو اگلی صفوں میں استعمال کرنے کی تصدیق کی ہے

محمد قاسم

ہرات کے مصافات میں 18 مارچ کو بچے ایک کھلونا بندوق سے کھیل رہے ہیں۔ [ہوشنگ ہاشمی/ اے ایف پی]

ہرات کے مصافات میں 18 مارچ کو بچے ایک کھلونا بندوق سے کھیل رہے ہیں۔ [ہوشنگ ہاشمی/ اے ایف پی]

قندوز -- مقامی حکام اور سول سوسائٹی کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ طالبان افغانستان میں اگلی صفوں پر بچوں کو استعمال کر رہے ہیں اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرتے ہوئے ان کی معصومیت کا استحصال کر رہے ہیں۔

تخار کے گورنر کے ترجمان حمید مبارز نے کہا کہ طالبان شہری یا اسلامی اقدار کی پاسداری کرنے سے انکاری ہیں اور اپنے غیرقانونی مطالبات کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن طریقے کو استعمال کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دوسرے جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے علاوہ، طالبان تاریخی طور پر بچوں کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔

مبارز نے کہا کہ "بدقسمتی سے، سیکورٹی فورسز کی طرف سے نمک آب، خواجہ گڑھ، بہارک اور چاہ آب اضلاع میں مئی میں ہونے والے حالیہ آپریشنز میں بچوں اور نوعمر لڑکوں کو طالبان کی صفوں میں دیکھا گیا ہے"۔

طالبان کے جنگجو، 23 مارچ کو شائع ہونے والی اس تصویر میں ایک نامعلوم مقام پر فوجی مشقوں میں شریک ہیں۔ [طالبان]

طالبان کے جنگجو، 23 مارچ کو شائع ہونے والی اس تصویر میں ایک نامعلوم مقام پر فوجی مشقوں میں شریک ہیں۔ [طالبان]

انہوں نے مزید کہا کہ "3 ستمبر 2020 کو تخار صوبہ میں، امن عمل میں شامل ہونے والے، طالبان جنگجوؤں کے پانچ رکنی گروہ کے دو ارکان، بچے تھے"۔

طالبان کے نزدیک جنگی قوائد یا جنگ میں انسانی حقوق کے تحفظ کا کوئی احترام نہیں ہے۔ تخار پولیس کے ترجمان عبدل خلیل اثیر نے کہا کہ وہ مردوں، عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسکولوں، مساجد اور دیگر عوامی جگہوں پر مورچے لگانے سے، طالبان معاشرتی زندگی اور خصوصی طور پر دیہی آبادی کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ طالبان نوعمر لڑکوں اور نوجوانوں کو اپنے جنگی مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ اپنے زیرِ کنٹرول علاقوں میں، مساجد میں انہیں شمولیت کی دعوت دے کر، بچوں اور نوجوانوں کو بھرتی کرتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ افغان نیشنل ڈیفینس اینڈ سیکورٹی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) "طالبان کو شکست دینے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ میں لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ طالبان ان کے امن میں خلل نہیں ڈال سکیں گے"۔

بچوں کی معصومیت کا فائدہ اٹھانا

تخار سے تعلق رکھنے والے مذہبی عالم مولوی نجیب اللہ فرتان نے کہا کہ کم عمر بچوں کو میدانِ جنگ میں استعمال کرنے کے علاوہ، طالبان جنسی طور پر ان کا استحصال بھی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "طالبان ان بے گناہ بچوں کا استحصال کرتے ہیں۔ یہ اسلام کے مقدس مذہب کے خلاف ہے"۔

اس امر کے باجود کہ "بچہ بازی" -- لڑکوں کا جنسی استحصال اور بدسلوکی - - افغانستان میں جرم ہے، شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ طالبان اپنے زیرِ کنٹرول علاقوں میں اس عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

تخار سے تعلق رکھنے والے سول سوسائٹی کے سرگرم کارکن عماد الدین حقجو نے کہا کہ طالبان اپنے شیطانی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن ذرائع استعمال کر رہے ہیں اور عام شہریوں نے اپنے آپ کو اس گروہ سے دور کر لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "بین الاقوامی برادری کو اب احساس ہو گیا ہے کہ طالبان کسی بھی انسانی یا اسلامی قانون کی پاسداری نہیں کرتے ہیں اور وہ کسی بھی قسم کا جرم اور دہشت گردی کر سکتے ہیں"۔

"ہم طالبان کے ایسے غیر اسلامی کاموں کی مذمت کرتے ہیں اور خاندانوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کا دھیان رکھیں"۔

تخار صوبہ سے تعلق رکھنے والے قبائلی بزرگ حاجی ثناء اللہ نے کہا کہ طالبان نوجوان افغانوں کی معصومیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "اس وقت جب کہ انہیں پڑھائی میں مصروف ہونا چاہیے، طالبان انہیں دھوکہ دیتے اور گمراہ کرتے ہیں"۔

ثناء اللہ نے کہا کہ "طالبان کو ان کا استحصال نہیں کرنا چاہیے۔ اگر وہ حقیقت میں مسلمان ہیں تو انہیں ملک کو جنگ کی آگ میں مزید جلانے کی اپنی کوششوں کو بند کر دینا چاہیے"۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزی

افغانستان آزاد انسانی حقوق کمیشن (اے آئی ایچ آر سی) نے تصدیق کی کہ طالبان کم عمر افراد کو جنگ میں لڑنے، دھماکہ خیز مواد کو سنبھالنے اور تخریبی سرگرمیاں کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

قندوز میں اے آئی ایچ آر سی کے شمال مشرقی علاقے کے ڈائریکٹر سید حفیظ اللہ فطرت نے کہا کہ "بدقسمتی سے طالبان کو بچوں، نوعمر لڑکوں اور نوجوانوں کو اپنے عسکری مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ یہ جنگی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ مجرم عسکریت پسند ہیں نہ کہ حکومت مگر "افغان اور بین الاقوامی قوانین کے تحت، سیکورٹی فورسز اور دیگر جنگی گروہوں کے لیے بچوں کو بھرتی کرنا بہت بڑی خلاف ورزی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ مارچ 2020 سے مارچ 2021 کے درمیان "600 افراد جن میں 200 بچے بھی شامل تھے، تخار میں ہونے والی مسلح جھڑپوں میں ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں"۔

فطرت نے کہا کہ بچوں کو اسکول یا گھروں میں اپنے والدین کے پاس ہونا چاہیے، انہیں طالبان کی عسکریت پسندی میں استحصال کا نشانہ یا نقصان نہیں پہنچایا جانا چاہیے"۔

خواجہ گڑھ ڈسٹرکٹ میں افغان مقامی پولیس کے کمانڈر کیپٹن محمد معصول اکبری نے کہا کہ "عسکریت پسند عام شہریوں کو ان کے گھروں سے نکالتے ہیں، انہیں بندوقیں دے کر اپنی طرف سے لڑنے پر مجبور کرتے ہیں"۔

انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ ایسے کاموں کے بہت بدقسمت نتائج ہوتے ہیں، کہا کہ "یہ غیر قانونی اور غیر اسلامی کام ہے"۔

انہوں نے کہا کہ 27 مارچ کو، افغان پولیس اور مقامی پولیس نے نوآباد گاؤں ، بہارک ضلع میں ایک آپریشن انجام دیا جس میں طالبان کے آٹھ جنگجوؤں کو، جن میں دو کم عمر تھے، ہلاک کر دیا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500