سلامتی

افغانستان میں طالبان کے حملے میں قرآن کے درجنوں نسخے نذرِ آتش

از عمر

مقامی افراد اور حکام کے مطابق، 13 جون کو مغربی افغانستان میں صوبہ نمروز کے ضلع خشرود میں طالبان نے حملے میں درجنوں گھر اور دکانیں تباہ کر دیں نیز قرآن پاک کے نسخہ جات کو نذرِ آتش کیا۔ [عبداللہ عزیزی/سلام ٹائمز]

ہرات -- صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ 13 جون کو سینکڑوں طالبان جنگجوؤں نے افغانستان میں صوبہ نمروز کے ضلع خشرود پر حملہ کر دیا، جس میں درجنوں گھروں اور دکانوں کو تباہ کر دیا گیا اور قرآن پاک کے نسخہ جات کو نذرِ آتش کیا جس کے بعد افغان فوج نے انہیں پیچھے دھکیل دیا۔

نمروز کے گورنر زمریالائی احدی نے کہا کہ طالبان نے ضلعی بازار میں تقریباً سبھی دکانیں اور آس پاس کے بہت سے گھر جلا ڈالے، ان کا مزید کہنا تھا کہ جنگجوؤں نے "خشرود بازار میں ایک دکان میں موجود قرآن پاک کے درجنوں نسخہ جات کو بھی نذرِ آتش کر دیا"۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان قرآن -- جو کہ کلام اللہ ہے -- کے تقدس کا احترام نہیں کرتے اور ان کے افعال ان کے نام نہاد جہاد کی گمراہ کن نوعیت کو ظاہر کرتے ہیں۔

نمروز کے دارالحکومت، زارانج شہر کے ایک مکین، علی احمد مہاجر نے کہا کہ طالبان اس حد تک چلے گئے ہیں کہ انہوں نے قرآن پاک کی تکریم کی بجائے اسے نذرِ آتش کر دیا۔

صوبہ نمروز کے ضلع خشرود میں، 14 جون کو دکانوں کو پہنچنے والا نقصان دیکھا جا سکتا ہے، اس سے ایک روز قبل طالبان جنگجوؤں نے انہیں آگ لگا دی تھی۔ [عبداللہ عزیزی/سلام ٹائمز]

صوبہ نمروز کے ضلع خشرود میں، 14 جون کو دکانوں کو پہنچنے والا نقصان دیکھا جا سکتا ہے، اس سے ایک روز قبل طالبان جنگجوؤں نے انہیں آگ لگا دی تھی۔ [عبداللہ عزیزی/سلام ٹائمز]

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان نے ضلع خشرود میں ہر چیز جلا ڈالی ہے، اور بہت سے خاندان اپنی املاک سے محروم ہو گئے ہیں۔

عبدالستار، جو گزشتہ 26 برسوں سے خشرود بازار میں ایک دکان چلاتے ہیں، نے کہا کہ وہ اپنی ساری جائیداد سے محروم ہو گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان نے ضلع خشرود میں عام شہریوں کے روزگار تباہ کر دیئے ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ مکینوں کے پاس جو کچھ بھی تھا لگ بھگ پورے کے پورے سے محروم ہو گئے ہیں۔

ستار نے کہا، "ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ ہماری دکانوں اور گھروں کی تعمیرِ نو کروائی جائے۔"

ان کا کہنا تھا کہ افغانوں کو طالبان سے تباہی و بربادی اور مایوسی کے سوا کسی قسم کی کوئی توقع نہیں ہے۔

ضلع خشرود کے ایک اور مکین، گل احمد نے کہا، "طالبان کے حملے میں میری تمام املاک اور اثاثہ جات جل کر راکھ ہو گئے اور اب مجھ پر 500،000 افغانی [6،369 امریکی ڈالر] سے زائد قرض واجب الادا ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ یہ قرض کیسے چکانا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان نے خشرود بازار پر حملہ کرنے کے لیے راکٹ اور بم استعمال کیے۔

عوامی اثاثہ جات پر طالبان کے حملے صرف صوبہ نمروز تک محدود نہیں ہیں۔

15 جون کو، طالبان نے صوبہ فرح میں انار دارا ضلع کے مرکز پر حملہ کرنے کے بعد ایک طاقتور بارودی آلے سے ایک ضلعی عمارت کو اڑا دیا تھا۔

سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے طالبان نے "اللہ اکبر" کے نعرے بلند کرتے ہوئے عمارت کو اڑایا۔

افغان مسلمانوں کے دشمن

طالبان کی جانب سے قرآن پاک کے نسخہ جات کو نذرِ آتش کرنے پر افغانستان بھر میں علمائے دین میں اشتعال پھیل گیا ہے۔

صوبہ غور کے درالحکومت، فیروز کوہ شہر میں ایک عالمِ دین، مولوی عبدالغفور عباسی نے کہا کہ قرآنِ پاک کے نسخہ جات کو نذرِ آتش کرنا بڑا گناہ ہے اور اس کی بالکل کوئی توجیہ نہیں دی جا سکتی۔

انہوں نے کہا، "ہم صوبہ نمروز میں طالبان جنگجوؤں کی جانب سے حالیہ حملے کے دوران قرآن پاک کے نسخہ جات کو نذرِ آتش کرنے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ ہم طالبان کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے اور اسلامی اقدار کی خلاف ورزی کرنے سے باز رہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ جو کوئی بھی قرآن پاک کے تقدس کا احترام نہیں کرتا اور اسے جلاتا ہے وہ مسلمان نہیں ہے۔

صوبہ بدغیث کے دارالحکومت قلعہ نو شہر میں ایک عالمِ دین، مولوی عبداللہ حسینی نے کہا کہ طالبان کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی ان کے راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کے دعووں کی نفی کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قرآن پاک کا احترام کرنا اور اس کی تعلیمات کی پیروی کرنا تمام مسلمانوں پر لازم ہے لیکن طالبان نے دونوں ہی کام نہیں کیے۔

ان کا مزید کہنا تھا، "قرآن پاک کے نسخہ جات کو نذرِ آتش کرنا قابلِ قبول نہیں ہے، اور طالبان کے لیے یہ سمجھنا لازمی ہے کہ وہ اپنے جرم کی بھاری قیمت چکائیں گے۔"

زارانج شہر کے ایک مکین، محمد ناصر اکبری نے کہا کہ طالبان کو لازماً احساس ہونا چاہیئے کہ وہ ایمان کے دعوے کے باوجود قرآن پاک کو نذرِ آتش کر کے عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں اور وہ اب مزید افغان معاشرے کا حصہ نہیں بن سکتے۔

انہوں نے کہا حتیٰ کہ غیر مسلم بھی قرآن پاک کا احترام کرتے ہیں اور اسے نقصان نہیں پہنچاتے، لیکن طالبان ایسا کرتے ہیں جبکہ وہ ہر روز "جہاد" کے جھوٹے دعووں کے تحت درجنوں افغان مسلمانوں کو مار دیتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان ایک انتہاپسند گروہ ہیں اور انہیں لازماً یہ سمجھنا چاہیئے کہ وہ اپنے غیر اسلامی اور متعصب عقائد کو افغان عوام پر مسلط نہیں کر سکتے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500