حقوقِ انسانی

ایران کی ویکسین حکمتِ عملی بے نقاب: تردید، دھوکہ دہی، خیانت

پاکستان فارورڈ

28 مئی کو ایرانی کووڈ 19 کے پیشِ نظر حفاظتی ماسک پہنے تہران میں ایک بس میں سوار ہیں۔ آبادی کی اکثریت کی ویکسین تک رسائی نہیں ہو سکی۔ [اے ایف پی]

28 مئی کو ایرانی کووڈ 19 کے پیشِ نظر حفاظتی ماسک پہنے تہران میں ایک بس میں سوار ہیں۔ آبادی کی اکثریت کی ویکسین تک رسائی نہیں ہو سکی۔ [اے ایف پی]

جبکہ متعدد ممالک اپنی عوام کو کووڈ 19کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کے عمل میں سرگرم ہیں، ایران بہت پیچھے ہے کیوں کہ حکومت کی بدانتظامی اور غلط معلومات نے ایرانیوں کی اکثریت کو اس مہلک وائرس اور اس کی انواع کی زد میں لا کھڑا کیا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ میں کووڈ 19 متاثرین اور اموات کی سب سے زیادہ تعداد ایران میں ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، 18 جون تک تین ملین سے زائد ایرانیوں میں اس وائرس کی تصدیق ہوئی ہے اور 82,000 سے زائد اس سے جاںبحق ہو چکے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل اعدادو شمار نمایاں طور پر اس سے بلند ہیں۔

بحران اور ازسرِ نو ایک مہلک تر آمد کے خدشہ کے باوجود، اس وبا کے پھوٹنے سے اب تک، ایرانی حکام نے عوامی صحت پر سیاست کو ترجیح دی ہے۔

8 جنوری کو ایران کے رہبرِ اعلیٰ علی خامنہ ای ایک تقریر کے دوران، جب انہوں نے اعلان کیا کہ وہ برطانوی اور امریکی ویکسینز کی ایرانی عوام تک رسائی کو مسدود کریں گے۔ [دفترِ رہبرِ اعلیٰ]

8 جنوری کو ایران کے رہبرِ اعلیٰ علی خامنہ ای ایک تقریر کے دوران، جب انہوں نے اعلان کیا کہ وہ برطانوی اور امریکی ویکسینز کی ایرانی عوام تک رسائی کو مسدود کریں گے۔ [دفترِ رہبرِ اعلیٰ]

16 مئی کو تہران کے وسط میں میدانِ انقلاب میں، کروناوائرس وبا کے پیشِ نظر ماسک پہنے ایرانی۔ ایرانیوں کی اکثریت ویکسین تک رسائی نہ حاصل کر سکی۔ [عطا کنارے/اے ایف پی]

16 مئی کو تہران کے وسط میں میدانِ انقلاب میں، کروناوائرس وبا کے پیشِ نظر ماسک پہنے ایرانی۔ ایرانیوں کی اکثریت ویکسین تک رسائی نہ حاصل کر سکی۔ [عطا کنارے/اے ایف پی]

اس امر کی واضح ترین مثالوں میں سے ایک یہ تھی کہ جنوری میں ایران کے پیشوا علی خامنہ ای نے حکومت پر امریکہ اور برطانیہ سے کووڈ 19 کی ویکسینوں کی درآمد پر پابندی عائد کر دی۔

اس پابندی کے فوراً بعد، حکومتی عہدیداران نے کہا کہ وہ "کسی مخصوص ملک سے" ویکسین خریدیں گے، انہوں نے ناقابلِ اعتبارچینی اور روسی ویکسینوں کے خلاف ردِّ عمل کے خوف سے منبع کا نام دینے سے انکار کر دیا۔

یہاں تک کہ ایران کی کووڈ 19 ٹاسک فورس کے ارکان کے طور پر کام کرنے والے عوامی صحت کے اہلکاروں نے بھی ایسے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

یہاں تک کہ ٹیسٹس اور طبی آلات کی قلت کے ساتھ قبل ازاں ایران کی جدوجہد کے دوران امریکہ نے ایران کو ان دونوں حوالہ جات سے مدد کی پیشکش کی تھی – ایک پیشکش جو ٹھکرا دی گئی۔

8 جنوری کو پہلی بار نہیں تھی کہ خامنہ ای نے عوامی سطح پر ایک ہی تقریر میں مغربی طاقتوں اور کرونا وائرس کا حوالہ دیا۔

مارچ 2020 میں نوروز (ایرانی سالِ نو) کی سالانہ تقریر میں خامنہ ای نے حوالہ دیا کہ ممکنہ طور پر امریکہ نے یہ وائرس تیار کیا ہے ۔

عالمی وبا بننے سے قبل، اس کے ابتدائی مراحل میں، ملک کے سب سے بڑے اور نمایاں ترین مدرسہ کے شہر، قم سے آغاز کرتے ہوئے، یہ وائرس ایران میں پھیلا۔

حکومت کے عہدیداران نے قم میں وبا کو چھپایا، اور وائرس کو پورے ملک میں پھیلنے دیا، جبکہ انہوں نے غلط معلومات کی ایک مہم پر کام کیا جس کے تین ستون تھے: تردید، دھوکہ اور خیانت۔

درایں اثناء، حکومتِ ایران نے – اس وائرس کی معلوم جائے آغاز – چین سے آنے اور جانے والی پروازوں کی اجازت دیے رکھی۔

جب اموات کی بڑھتی ہوئی تعداد نے حکومتِ ایران کو وبا پھوٹنے کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا، تو حکام ہسپتالوں میں داخل مریضوں اور اموات کی تعداد سے متعلق دروغ گوئی کرنے لگے۔

جھوٹ پر جھوٹ

دماغ شوئی اور نفسیاتی جنگ کے ایک مانوس عمل میں حکومت کی جانب سے گھڑی گئی افواہیں زیرِ گردش ہیں۔

مغرب میں متعدد ویکسینز تیار ہونے کے بعد، اس حکومت نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ پابندیوں کی وجہ سے وہ ان تک رسائی حاصل نہیں کر سکتی، حالانکہ اقوامِ متحدہ کی کووڈ 19 ویکسینز گلوبل ایکسیس (سی او وی اے ایکس) نے ایران کے لیے 4,216,800 خوراکیں مختص کیں۔

مزید برآں امریکہ کی وزارتِ خزانہ کے آفس آف فارن ایسٹس کنٹرول (او ایف اے سی) نے اعلان کیا کہ ویکسینز ایران پر عائد پابندیوں سے مستثنیٰ ہیں۔

حکومتِ ایران کے عہدیداران سی او وی اے ایکس کے ذریعے ویکسینز خریدنے پر اپنا بیانیہ بدلتے رہے، یہاں تک کہ ایک دوسرے کی بھی تردید کرتے رہے۔

ایک مقام پر، حکام نے یہ تک کہا کہ ایرانی ہوائی جہاز فائزر یا ماڈیرنا ویکسینز کو مطلوبہ کم درجہ حرارت پر رکھنے کی استعداد کے حامل نہیں، اور دعویٰ کیا کہ وہ ایران پہنچنے تک سلامت نہیں رہ سکتیں۔

رسل و رسائل کے عہدیداران نے اس دعویٰ کی تردید کی۔

اس کے بعد جلد ہی، خامنہ ای نے مغربی طاقتوں پر ایرانیوں پر اپنی بنائی ہوئی ویکسینز کا "تجربہ" کرنے کی کوشش کرنے کا جھوٹا الزام لگاتے ہوئے امریکی اور برطانوی ویکسینز پر پابندی کا اعلان کر دیا۔

یہ تمام اعمال حکومت کی جانب سے تیار شدہ تھے تا کہ ان کے طویل عرصے کے اتحادی، چین سے ویکسین خرید سکیں، جس کے ساتھ انہوں نے ایک 25 سالہ معاہدہ کیا تھا، جو کہ ملک میں ایک بڑے فساد کا باعث بھی بنا۔

چین نے خود اس امر کو تسلیم کیا کہ اس کی ویکسینز کے ساتھ ممکنہ طور پر تاثیر سے متعلقہ مسئلہ ہو۔

مقامی میڈیا نے خبر دی کہ اپریل میں چین کے سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن کے سربراہ گاؤ فو نے چینگڈو میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ایجنسی "غور کر رہی ہے کہ اس مسئلہ کو کیسے حل کیا جائے کہ حالیہ ویکسین کی تاثیر زیادہ نہیں۔"

ویکسینشن کی کمی

18 جون کو ایران کی وزارتِ صحت نے اعلان کیا کہ صرف 4,369,039 ایرانیوں کو ویکسین کی پہلی خوراک ملی ہے، اور صرف 895,152 افراد کو دوسرے خوراک دی گئی۔

ویکسین لگوانے سے ناامید، مایوس ایرانیوں کے پاس کسی بھی ایسی ویکسین کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں جس کی ان کی حکومت ملک میں اجازت دے، کیوں کہ وہ شدید مالی دباؤ اور بے روزگاری کی بلند شرح سے نبردآزما ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار، جو حقیقی اعداد سے نمایاں طور پر کم ہیں، ظاہر کرتے ہیں کہ مئی کے اواخر تک، کم از کم 1.4 ملین ایرانی کرونا وائرس بحران کی وجہ سے بے روزگار رہے ہیں۔

ایران نے چین اور روس سے ویکسین خریدی اور درآمد کیں، جن میں چینی ویکسین کا پلڑا بھاری ہے۔

صرف مئی ہی میں چینی ویکسین کی تقریباً دو ملین خوراکیں ایران کو برآمد کی گئیں۔

یہاں تک کہ جون کے وسط تک، تاحال آبادی کی اکثریت کو ویکسین لگنا باقی ہے۔ بزرگ شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو ویکسین کی صرف ایک ہی خوراک ملی ہے اور اب انہیں بتایا جا رہا ہے کہ مزید اطلاع تک دوسری خوراک دستیاب نہیں۔

ایرانی حکومتی عہدیداران کا کہنا ہے کہ حکومتِ ایران کو ویکسین فروخت کرنے والے "دوست ممالک" ادائیگی وصول کر چکنے کے باوجود "اپنے وعدے کے مطابق ترسیل" دینے میں ناکام رہے۔

زندگیوں کا نقصان قائدین کا نفع

درایں اثناء، سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی)، جو کہ خامنہ ای کی بھرپور حمایت کے ساتھ ایران کی معیشت پر تقریباً اجارہ داری کی حامل ہے، بڑے مالی فوائد حاصل کرنے کو ہے۔

گزشتہ ماہ، روحانی حکومت نے نجی شعبہ کو کووڈ 19 ویکسینز درآمد کرنے کی اجازت دی۔ تاہم، یہ نام نہاد نجی شعبہ درحقیقت آئی آر جی سی سے منسلک کمپنیوں یا خامنہ ای کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والے اشرافیہ پر مشتمل ہے۔

درایں اثناء، ایران کی وزارتِ صحت اپنی ویکسین تیار کرنے کے عمل میں ہے، جس کی سائنسی تفصیلات خال ہی دستیاب ہیں۔

13 جون کو ایران کے وزیرِ صحت سعید نمکی نے اعلان کیا کہ ایران کی ویکسین کووایران برکت کے انسانی تجربات مکمل ہو چکے ہیں، اور آئندہ ماہ تک، ہر ہفتے 3 ملین خوراکیں تیار ہوں گی۔

برکت فارماسیوٹیکلز کے نوے فیصد حصص اجرائے فرمانِ امام [خمینی] کے ایگزیکٹیو ہیڈکوارٹر کی ملکیت ہیں۔

کووایران برکت ستادِ اجرائے فرمانِ امام [خمینی] کی تجربہ گاہوں میں تشکیل پائی، جو کہ اس فقیہہ کی زیرِ کفالت ایک کثیر ملین ڈالر کارپوریشن ہے اور جس کی بنیاد روح اللہ خمینی نے 1979 کے انقلابِ اسلامی کے کچھ ہی عرصہ بعد رکھی۔

حکومت کے عہدیدارن نے بار ہا بیان کیا کہ وہ آٹھ مختلف کووڈ 19 ویکسینز بنانے کے عمل میں ہیں، جن میں سے ایک میں کیوبا کے ساتھ اشتراک ہے، لیکن متعلقہ کاروائیوں سے متعلق تفصیلات اور اعداد و شمار غیر واضح ہیں۔

غلط ترجیحات

جبکہ عوامی صحت کا بحران اپنے جوش پر ہے، اس حکومت نے اپنے قلیل وسائل کو آئی آر جی سی اور اس کی علاقائی ضمنی افواج پر خرچ کرنے کا انتخاب کیا ہے ، جن میں لبنان کی حزب اللہ، عراقی ملشیا اور یمن میں حوثی شامل ہیں۔

ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف کے ساتھ ایک انٹرویو کی ایک حالیہ لیکڈ آڈیو فائلاس حکومت کی غلط ترجیحات کا ایک اور ثبوت دیتی ہے۔

25 اپریل کو بڑے پیمانے پر شائع ہونے والی اس فائل میں، ایران کی خارجہ پالیسی میں آئی آر جی سی اور اس کی قدس فورس کے ضرورت سے زیادہ کردار سے متعلق تسلیم کرتے ہونے وزیرِ خارجہ کو سنا جا سکتا ہے۔

ظریف نے انٹرویو میں بارہا زور دیا کہ اسلامی جمہوریہ اپنی علاقائی موجودگی اور وسعت کی حکمت ہائے عملی کو سفارت کاری پر ترجیح دیتی ہے۔

عالمی طاقتوں اور اقوامِ متحدہ کے ساتھ مئی میں ایران کی غیر اعلانیہ جوہری سرگرمی اور مقررہ حد سے 16 گنا زیادہ افزودہ یورینیم کے ذخیرہ پر خدشات اٹھانے والے سنگِ میل جوہری معاہدے کی مزید خلاف ورزیوں کے ساتھ یہ حکومت مزید دور جا رہی ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500