جنیوا -- انسانی حقوق کے ماہرین کے ایک گروہ نے اقوامِ متحدہ (یو این) کو خبر دی ہے کہ چین مبینہ طور پر، زیرِ حراست مخصوص نسلی، لسانی یا مذہبی اقلیتوں کو "اعضاء کی جبری کاشت" کا نشانہ بنا رہا ہے جن میں ایغور اور دیگر مسلمان اقلیتیں شامل ہیں۔
ماہرین نے کہا کہ انہیں "بااعتماد معلومات" ملی ہیں کہ قیدیوں کے، ان کی مرضی کے خلاف، خون کے ٹیسٹ اور اعضاء کے معائینے کیے جاتے ہیں جن میں الٹراساونڈ اور ایکس رے بھی شامل ہیں۔ یہ بات اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کے دفتر نے پیر (4 جون) کو ایک بیان میں کہی۔
ماہرین نے مزید بتایا کہ معائینوں کے نتائج کو پھر اعضاء کی پیوندکاری کے اعضاء کے زندہ وسائل کے ڈیٹابیس میں رجسٹر کر دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "چین میں اعضاء کی جبری کاشتکاری، مختلف مقامات پر، بظاہر زیرِ حراست مخصوص نسلی، لسانی یا مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنا رہی ہے جن میں اکثر کو گرفتاری کی وجہ بتائے بغیر یا گرفتاری کے وارنٹ دیے بغیر گرفتار کیا جاتا ہے"۔
جن گروہوں کو نشانہ بنایا گیا ان میں فالون گونگ پیروکار، ایغور، تبتی، مسلمان اور عیسائی شامل ہیں۔
ماہرین نے کہا کہ "قیدیوں کے جسم سے کو اعضاء نکالے جاتے ہیں ان میں مبینہ طور پر سب سے عام دل، گردے، جگر اور کورنیا شامل ہیں اور جگر کے حصوں کو بہ نسبت کم نکالا جاتا ہے"۔
12 آزاد ماہرین جنہیں اقوامِ متحدہ نے حکم دیا تھا مگر وہ اس کی طرف سے بولنے کے مجاز نہیں تھے، نے کہا کہ انہیں الزامات سے "انتہائی تشویش" ہوئی ہے۔
انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں
اقوامِ متحدہ کے حقوق کے ماہرین نے اس سے پہلے، 2006 اور 2007 میں چین کی حکومت کے سامنے، قیدیوں کے اعضاء کی جبری کاشت کاری کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔
ماہرین نے کہا کہ بیجنگ نے اس وقت اعضاء کی پیوندکاری کے لیے حاصل ہونے والے اعضاء کے ذرائع کے بارے میں سوالات پر تسلی بخش اعداد و شمار فراہم نہیں کیے تھے۔
او ایچ سی ایچ آر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ "اس پس منظر میں، میسر اعداد و شمار اور معلومات کو سانجھا کرنے کے نظام کی عدم موجودگی، اسمگلنگ کے متاثرین کی کامیاب شناخت اور حفاظت اور اسمگلنگ کرنے والوں کی تفتیش اور انہیں سزائیں دلانے کے عمل کی راہ میں رکاوٹ ہیں"۔
چین نے سب سے پہلے 2005 میں قیدیوں کو اعضاء کے عطیہ دہندگان کے طور پر استعمال کرنے کا اعتراف کیا تھا اور 2013 اور پھر 2014 میں اس عمل کو روکنے کا وعدہ کیا تھا جب حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ پھانسی پانے والے قیدیوں کے اعضاء نکالنے کا کام بند کر دے گا۔
چین کا کہنا ہے کہ یہ عمل 2015 میں ختم کر دیا گیا تھا۔
اقوامِ متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ "رضاکارانہ طور پر اعضاء عطیہ کرنے کے نظام میں بتدریج پیش رفت کے باوجود، چین میں اعضاء کی پیوندکاری کے لیے اعضاء حاصل کرنے کے سلسلے میں کی جانے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں"۔
موثر نگرانی کی عدم موجودگی کے باعث تشویش ابھی بھی موجود ہے۔
چین میں رضاکارانہ طور پر اعضاء عطیہ کرنے کے نظام کو معیاری اور منظم کرنے کے لئے چین آرگن ٹرانسپلانٹ رسپانس سسٹم (سی او ٹی آر ایس) کو 2011 میں تیار کیا گیا تھا۔
سی او ٹی آر ایس کا دعوی ہے کہ 2010 اور 2016 کے درمیان رضاکارانہ طور پر اعضا عطیہ کرنے میں کافی اضافہ ہوا ہے لیکن اس تنظیم نے ان دعوؤں کی تصدیق کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔
سی او ٹی آر ایس کے مطابق، چین میں رضاکارانہ طور پر موت کے بعد اعضاء عطیہ کرنے والے افراد کی تعداد 2010 میں 34 تھی جو 2016 میں بڑھ کر 4,080 ہو گئی جبکہ گردوں اور جگر کی پیوندکاری کے واقعات 2010 میں 63 تھے جو بڑھ کر 2016 میں 10,481 ہو گئے۔
رازداری، خاموشی اور ظلمت
آزاد تجزیہ نگاروں اور قانونی ماہرین کو ان اعداد و شمار کے بارے میں شبہات ہیں۔
"چائینا ٹریبیونل" جس نے 2019 میں سماعت کی تھی اور اپنی حتمی رپورٹ مارچ 2020 میں پیش کی تھی، کے مطابق سی او ٹی آر ایس کی طرف سے فراہم کیے جانے والے کچھ یا تمام اعداد و شمار جعلی ہوتے ہیں۔
چین میں اعضاء کی پیوندکاری کے استحصال کے خلاف بین الاقوامی اتحاد (ای ٹی اے سی) نے 2016 کی ایک تفتیشی رپورٹ میں کہا تھا کہ آپریشنز کی تعداد مبینہ طور پر 60,000 سے 100,000 سالانہ کے درمیان ہے۔
سڈنی، آسٹریلیا کی مککوری یونیورسٹی میں کلینیکل اخلاقیات کے پروفیسر وینڈی راجرز نے کہا کہ "چین نے ٹریبونل کے اعداد و شمار کو جھٹلایا ہے لیکن جو اعداد و شمار خود چین اپنے رضاکارانہ نظام کے بارے میں فراہم کرتا ہے ان کے بارے میں خیال ہے کہ وہ پیوندکاری کی اصل تعداد کو کم کرتے اور شماریاتی تجزیوں کی بنیاد پر دھوکہ دہی کا مظاہرہ کرتے ہیں"۔
دسمبر 2018 میں، ٹربیونل نے ایک عبوری فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ "تمام سات ممبران" متفقہ طور پر یقین رکھتے ہیں - کسی شک و شبہ کے بغیر - کہ چین نے کافی عرصے تک، سیاسی قیدیوں کے اعضاء کو زبردستی نکالا ہے اور متاثرین کی تعداد کافی زیادہ ہے"۔
متاثرین کی اصل تعداد کا پتہ لگانا بہت مشکل ہے۔
ٹریبونل نے کہا کہ سماعت کے دوران اسے "چینی حکومت کی ایک خفیہ، خاموش اور بے اعتباری کی ثقافت" کا سامنا کرنا پڑا۔
ٹریبونل نے کہا کہ بہر حال، یہ "خود سے واضح" ہے کہ قابلِ قدر اضافہ رضاکارانہ طور پر اعضاء عطیہ کرنے والوں کی مدد سے نہیں آیا کیونکہ اس مخصوص وقت کے دوران، رضاکارانہ طور پر عطیہ دینے کا نظام یا تو موجود نہیں تھا یا صرف تجرباتی شکل میں موجود تھا۔
نسل کشی کے الزامات کی تحقیقات
برطانوی قانون دان جیوفری نائس نے چائنا ٹریبونل کی صدارت کی تھی اور وہ اس وقت "ایغور ٹریبونل" کی سربراہی کر رہے ہیں، جو اس بات کی تفتیش کر رہا ہے کہ آیا چین، سنکیانگ خطے میں ایغوروں اور دیگر مسلم اقلیتوں کے ساتھ اپنے سلوک میں، نسل کشی کا قصوروار ہے۔
نائس نے 4 جون کو پہلی چار روزہ سماعت کے آغاز کے موقع پر کہا کہ "عوامی جمہوریہ چین [پی آر سی] کے خلاف الزامات انتہائی بھیانک ہیں"۔ دسمبر میں رپورٹ کی متوقع اشاعت سے قبل ایک اور سماعت 10 سے 13 ستمبر کو ہونا طے پائی ہے۔
بیجنگ نے ایک ملین سے زائد ایغوروں اور دیگر ترک مسلمانوں کو --- جن میں نسلی قازق بھی شامل ہیں--- ایسے تقریبا 400 اداروں میں، جسے چین "پیشہ ورانہ تربیتی مراکز" یا "دوبارہ تعلیم کے مراکز" کہتا ہے، میں قید کیا ہے۔
تاہم، ان اداروں کے بارے میں بڑے پیمانے پر ایسی خبریں سامنے آئی ہیں کہ یہ قید خانے ہیں جنہیں کچھ لوگوں نے "حراستی مراکز" سے جوڑا ہے۔
ٹریبونل کی ویب سائٹ پر دی گئی ایک وضاحت میں کہا گیا ہے کہ چین کے خلاف الزامات میں "ہلاکتیں، سنگین جسمانی یا ذہنی نقصان جیسے تشدد، عصمت دری اور جنسی تشدد، غلامی، بچوں کی والدین سے جبری علیحدگی، جبری نس بندی، زبردستی منتقلی یا ملک بدری، نسلی عصبیت، جبری مشقت، اعضاء کو جبری طور پر نکالنا، لاپتہ کر دینا، ثقافتی یا مذہبی ورثے کی تباہی، مقدمات، جبری شادیاں اور ہان چینی مردوں کو ایغور گھرانوں میں مسلط کرنا" شامل ہیں۔
علاوہ ازیں، چین نے 1000 سے زیادہ اماموں اور مذہبی شخصیات کو گرفتار کیا ہے ، سنکیانگ میں مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے حصہ کے طور پر، یہ بات گذشتہ ماہ ایغور ہیومن رائٹس پروجیکٹ نے بتائی۔