تعلیم

کوئٹہ میں ایران کے زیرِ انتظام غیر قانونی سکولوں کو ’قومی سلامتی‘ کا مسئلہ سمجھا جانے لگا

زرک خان

11 جون کو کوئٹہ، صوبہ بلوچستان میں حکام نے شہر میں ایرانی شہریوں کی جانب سے غیر قانونی طور پر چلائے جانے والے ایک سکول کو بند کر دیا۔ [کوئٹہ اسسٹنٹ کمشنر]

11 جون کو کوئٹہ، صوبہ بلوچستان میں حکام نے شہر میں ایرانی شہریوں کی جانب سے غیر قانونی طور پر چلائے جانے والے ایک سکول کو بند کر دیا۔ [کوئٹہ اسسٹنٹ کمشنر]

کوئٹہ – سیاستدان اور معلمین کوئٹہ شہر میں غیر قانونی طورپر چلنے والے اور غیر منظورشدہ نصاب استعمال کرنے والے ایران کے زیرِ انتظام چھ سکولوں کو بند کرنے پر بلوچستان میں صوبائی حکام کی پزیرائی کر رہے ہیں۔

ہفتہ (12 جون) کو حکام نے کوئٹہ کے ایک شعیہ علاقہ میں سکولوں کو بند کیا۔

کوئٹہ کے اسسٹنٹ کمشنر محمّد زوہیب الحق نے کہا، "ان سکولوں میں پڑھایا جانے والا غیر ملکی نصاب ملک کے حالیہ قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ ان سکولوں کے اساتذہ اور انتظامیہ کا عملہ تمام تر ایرانی شہری تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکام غیرملکی نصاب پڑھانے پر چار دیگر سکولوں کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں۔

ایرانی شہریوں کی جانب سے غیر قانونی طور پر چلائے جانے والے ایک سکول کی دیوار پر ایرانی رہنماؤں کی تصویریں آویزاں ہیں۔ [کوئٹہ اسسٹنٹ کمشنر]

ایرانی شہریوں کی جانب سے غیر قانونی طور پر چلائے جانے والے ایک سکول کی دیوار پر ایرانی رہنماؤں کی تصویریں آویزاں ہیں۔ [کوئٹہ اسسٹنٹ کمشنر]

بلوچستان پرائیویٹ ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹ رجسٹریشن اینڈ ریگولیشن ایکٹ، صوبہ میں کام کرنے والے تمام سکولوں کے صوبائی حکومت کے ساتھ اندراج کا متقاضی ہے۔

کوئٹہ میں ایک سرکاری سکول کے پرنسپل فدا خان نے کہا کہ پاکستانی تعلیمی بورڈ ایرانی نصاب کو تسلیم نہیں کرتے، جس کا مطلب ہے کہ بند کیے گئے سکولوں میں پڑھنے والے طلبہ کو مزید تعلیم کے لیے ایران جانا پڑتا۔

خان نے کہا، "پاکستان کو چاہیے کہ ایران کے سکولوں اور ایرانی بنیاد پرستانہ درسی کتب کو ایک قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھے اور اعلیٰ سطحی تحقیقات کا آغاز کرے۔"

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک سیکیورٹی عہدیدار نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھے جانے کی شرط پر کہا، "پاکستان کے داخلی امور میں تہران کا بڑھتا ہوا رسوخ ملک میں ایک فرقہ ورانہ شگاف کا باعث بن رہا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ پاکستانی شعیہ برادری کے نوجوان ارکان کو شام میں زینبیون برگیڈ میں شمولیت کے لیے بھرتی کرنا اور سوشل میڈیا کے ذریعے غلط معلومات اور نفرت پھیلانا انقلابِ ایران کو پاکستان برآمد کرنے کے تہران کے اقدام کا جزُ ہیں۔

پاکستان کی نفاذِ قانون کی ایجنسیوں نے زینبیون برگیڈ سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد کو گرفتار کرتے ہوئے تہران کی پشت پناہی کے حامل ان عسکریت پسند گروہوں پر اپنا کریک ڈاؤن مزید سخت کر دیا ہے جو شعیہ نوجوانوں کو شام میں لڑنے کے لیے بھیجتے ہیں۔

گزشتہ اگست میں وفاقی حکومت نے شامی حکومتی افواج کی حمایت میں لڑنے والے ایران کی پشت پناہی کے حامل جنگجوؤں کے ہمراہ لڑنے کے لیے شعیہ نوجوانوں کو شام بھیجنے پر خاتم الانبیا عسکریت پسند گروہ کو کالعدم قرار دے دیا ۔

نفرت کا فروغ

بین الاقوامی گروہوں کا کہنا ہے کہ ایرانی سکول نصاب اور اس کی درسی کتب نفرت کو فروغ دیتی اور سنی مسلمانوں، غیر مسلموں اور خواتین کے خلاف تشدد کو بھڑکاتی ہیں۔

ایک نیویارک اساسی نفرت مخالف تنظیم اینٹی ڈیفیمیشن لیگ کی جانب سے فروری میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، ایرانی درسی کتب میں "’دفاعی تیاریوں‘ کے نام سے درحقیقت پورے کورس ہیں، اور ان کے تمام تر نصاب کی دیگر جہتوں میں عسکریت پسندانہ پیغامات کے بیج بھی بوئے جاتے ہیں، جن میں تاریخ اور دینی علوم، ہر دو پر سبق شامل ہیں۔"

ایرانی ہائی سکول، مڈل سکول اور ایلیمنٹری سکول کی باریک بینی سے کی گئی ایک تشخیص پر مبنی اس تحقیق سے نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ایران کا قومی نصاب 2020-2021 "نوجوانوں میں سرگرمی سے عسکری جذبہ پیدا کرتا ہے، اور جنگ کے لیے ان کی عقیدہ سازی کرتا ہے۔"

ایران کی درسی کتب ان نوجوانوں کو بھی کامل ظاہر کرتی ہیں جو انقلابِ ایران کی بقا یا اس کی برآمد کے لیے اپنی جانیں قربان کرتے ہیں۔

تحقیق میں کہا گیا، "اس میں اکثر ان بچّے فوجیوں کی تعریف کی جاتی ہے جو ایران-عراق جنگ کے دوران تکلیف دہ حالات میں لڑے اور جاںبحق ہوئے، یا پھر راکٹ لانچروں سمیت بچوں کو آلاتِ جنگ کو ویلڈ کرتے دکھایا جاتا ہے۔"

واشنگٹن ڈی سی اساسی ایک تھنک ٹینک، فریڈم ہاؤس کی جانب سے مارچ 2008 میں شائع کی جانے والی ایک دیگرتحقیق میں معلوم ہوا کہ تہران ملک کے بچوں کو "خواتین اور اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے، غیرمسلموں کو تحقیر نہیں تو شک کے ساتھ دیکھنے، اور اس حکومت کے مذہبی نظریہ کی ترویج" کی تعلیم دے رہا تھا۔

اس میں کہا گیا، "بنیادی نصاب میں تمام تر مضامین کی پوری درسی کتب میں امتیازی سلوک اور عدم برداشت یکسانیت کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔"

"یہ نہ تو حادثاتی ہیں نہ کبھی کبھار آتے ہیں۔ یہ وہ اقدار ہیں جنہیں یہ حکومت عمداً ملک کے سکول جانے والے بچوں کو ذہن نشین کرانا چاہتی ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500