صحت

کوویڈ-19 کے آغاز سے متعلق تحقیقات میں پیش رفت کے ساتھ وُوہان لیب سے لیک ہونے کے نظریہ کا استحکام

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

3 فروری کو وُوہان انسٹیٹیوٹ آف وائرالوجی کے باہر سیکیورٹی اہلکار تحفظ فراہم کر رہے ہیں جبکہ کوویڈ-19 وبا کے آغاز سے متعلق تحقیقات کرنے والی عالمی ادارہٴ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ٹیم کے ارکان اس ادارے کا دورہ کر رہے ہیں۔ [ہیکٹر ریٹامل/اے ایف پی]

3 فروری کو وُوہان انسٹیٹیوٹ آف وائرالوجی کے باہر سیکیورٹی اہلکار تحفظ فراہم کر رہے ہیں جبکہ کوویڈ-19 وبا کے آغاز سے متعلق تحقیقات کرنے والی عالمی ادارہٴ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ٹیم کے ارکان اس ادارے کا دورہ کر رہے ہیں۔ [ہیکٹر ریٹامل/اے ایف پی]

بیجنگ – ایک وُوہان اساسی تجربہ گاہ میں کوویڈ-19 کرونا وائرس کے آغاز کا نظریہ دوبارہ مقبولیت حاصل کر رہا ہے جبکہ اعلیٰ پائے کے وائرالوجسٹ اور متعدد عالمی رہنما مزید تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

تاہم بیجنگ اپنی پراپیگنڈا مشین کو تیز تر کر رہا ہے اس نظریہ کو ایک مرتبہ پھر سے کچلنے کی ایک کوشش میں.

وال سٹریٹ جرنل (ڈبلیو ایس جے) نے اتوار (23 مئی) کو امریکی انٹیلی جنس کی ایک سابقہ غیر اعلانیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی کہ وُوہان انسٹیٹیوٹ آف وائرالوجی میں تجربہ گاہ کے تین کارکنان کو مبینہ طور پر – اس وبا کے پہلے اعلان شدہ واقعہ سے ایک ماہ قبل کرونا وائرس جیسی علامات کے ساتھ نومبر 2019 میں ہسپتال داخل کروایا گیا۔

ڈبلیو ایس جے نے پیر (24 مئی) کو دو چینی تعلیمی تھیسس کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی کہ چینی محققین نے سات سال قبل جنوب مغربی چین کی ایک کان سے نمونے جمع کیے، جہاں کان کنوں کو چمگادڑوں سے پیدا ہونے والے کرونا وائرس سے ایک پراسرار مرض لاحق ہو گیا تھا۔

یکم فروری کو کوویڈ-19 وبا کے آغاز سے متعلق تحقیقات کرنے والی عالمی ادارہٴ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ٹیم کے ارکان کے وُوہان مرکز برائے انسداد و ضبطِ امراض پہنچنے کے بعد ایک کارکن اس مرکز کی جانب ایک ہسپتال کے داخلی راستے سے باہر دیکھ رہا ہے۔ [ہیکٹر ریٹامل/اے ایف پی]

یکم فروری کو کوویڈ-19 وبا کے آغاز سے متعلق تحقیقات کرنے والی عالمی ادارہٴ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ٹیم کے ارکان کے وُوہان مرکز برائے انسداد و ضبطِ امراض پہنچنے کے بعد ایک کارکن اس مرکز کی جانب ایک ہسپتال کے داخلی راستے سے باہر دیکھ رہا ہے۔ [ہیکٹر ریٹامل/اے ایف پی]

یہ انٹیلی جنس رپورٹ متاثرہ محققین کی تعداد اور ان کے مرض کی طوالت اور ان کے ہسپتال کے دوروں سے متعلق تازہ ترین تفصیلات فراہم کرتی ہے۔

یہ انکشاف اس نظریہ میں مزید وزن پیدا کرتے ہیں کہ کوویڈ-19 وائرس ممکنہ طور پر اس تجربہ گاہ سے ہی باہر نکلا ہو۔

وبا کے معمہ کا حل

رواں برس کے اوائل میں اس وبا کے آغاز سے متعلق تحقیقات کی غرض سے عالمی ادارہٴٴ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بین الاقوامی ماہرین کی ایک ٹیم کو وُوہان بھیجا ، لیکن بیجنگ کی جانب سے شفافیت کے فقدان اور منتخب اعدادوشمار دیے جانے نے اس ٹیم کو مایوس کر دیا۔

کرونا وائرس کے آغاز سے متعلق کئی مہینوں کی تردید، جھوٹ، پردہ پوشی اورتاخیری حربوںکے بعد چین کی بدحواسی حیران کن نہیں۔

ڈبلیو ایچ او اور ان کے چینی ہم منصبوں کی طویل عرصہ تک التوا کی شکار رپورٹ نے کوئی ٹھوس نتیجہ اخذ نہیں کیا بلکہ کہا کہ عین ممکن ہے کہ یہ وائرس کسی درمیانی جانور کے ذریعہ چمگادڑوں سے انسانوں میں آیا۔

اولاً اس ماہرانہ رپورٹ میں کہا گیا کہ اس وائرس کے تجربہ گاہ سے لیک ہونے کا نظریہ "نہایت محال" ہے۔

تاہم، اس رپورٹ کے جاری ہونے کے بعد، ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس ادھانوم غیبرییسس نے زور دیا کہ تمام نظریات زیرِ غور رہیں گے۔

اس وبا کے بیانیہ کی شکل تبدیل کرنے کے شائق، بیجنگ کے حکام چین کے "دلیرانہ" ردِّ عمل اور ریکوری کو نمایاں کرتے ہوئے لیب سے لیک ہونے کے نظریہ کی سختی سے مخالفت اور وبا پھوٹنے متعلق اس حکومت کی جانب سے تاخیر اور تردید پر پردہ ڈالتے رہے ہیں ۔

چین کی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان ژہاؤ لیجیان نے 26 مئی کو اس سے پہلے کی تردید کو دہراتے ہوئے کہا کہ لیب سے لیک ہونے کے نظریہ کو از سرِ نو اٹھانا ڈبلیو ایچ او کی تحقیقات کے لیے "شرمندگی کا مقام" ہے اور ایسا کرنے نے سے "وائرس کے خلاف لڑائی میں عالمی اتفاقِ باہمی کی بیخ کنی" کا خدشہ ہوگا۔

پیر کو ڈبلیو ایچ او کی رکن ریاستوں کے مرکزی سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے متعدد ممالک سے نمائندگان نے اس معمہ کو حل کرنے کی مسلسل ضرورت پر زور دیا کہ کوویڈ-19 کیسے انسانوں میں پھیلنا شروع ہوا۔

ممکنہ طور پر مہلک کوویڈ-19 کے پھیلنے کے آغاز کا اندازہ لگانا اس لیے اہم ہے تاکہ مستقبل کی وباؤں کی انسداد کی جا سکے۔

امریکی نمائندہ جیریمی کونیندئیک نے ورلڈ ہیلتھ اسمبلی (ڈبلیو ایچ اے) کو بتایا، "ہم کوویڈ-19 کے آغاز سے متعلق ایک سخت جامع اور ماہرین کی زیرِ قیادت تحقیق کی اہمیت کو نمایاں کرتے ہیں۔"

یورپی یونیئن، آسٹریلیا اور جاپان ایک جاری تفتیش کا مطالبہ کرنے والے دیگر میں شامل تھے، جبکہ برطانیہ نے نمائندہ نے زور دیا کہ تحقیقات "بروقت، ماہرین کے زیرِ نگرانی اور خالصتاً سائنس پر مبنی" ہونی چاہیئں۔

تردید اور غلط معلومات

کسی بھی بامعنی طریقے سے تحقیقات میں معاونت کرنے کے بجائے، حکومتِ چین الزام کا رخ موڑنے کے لیے تردید اور غلط معلومات کی طرف لوٹ آئی ہے۔

اس کے تازہ ترین اہداف امریکی ماہرِ وبائی امراض انتھنی فاؤچی اورڈبلیو ایس جے رپورٹ ہیں۔

منگل کو ریاست کے زیرِ انتظام گلوبل ٹائمز کے ایڈیٹر ان چیف ہو ژنجن کی لکھی ہوئی آتشیں رائے کی سرخی تھی کہ، "امریکہ کے اشرافیہ اخلاقیات میں مزید گر گئے، اور فاؤچی ان میں سے ایک ہے" ۔

ہو نے ڈبلیو ایس جے کی رپورٹ کو "چین کو بدنام کرنے کی ۔۔۔ ایک سازش" قرار دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ فاؤسی "چین کے خلاف ایک بڑا جھوٹ گھڑ رہا ہے۔"

وُوہان انسٹیٹیوٹ آف وائرالوجی میں وُوہان نینشنل بایو سیفٹی لیبارٹری کے ڈائریکٹر یوان ژی منگ نے ڈبلیو ایس جے رپورٹ کو ایک "سفید جھوٹ" قرار دیا۔

انہوں نے گلوبل ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا، "یہ دعوے بے بنیاد ہیں"۔

چین کا غصّہ – اور امریکی سائنسدانوں کی بیخ کنی کرنے کی اس کی کوششیں – رواں ماہ کے اوائل میں فاؤچی کی ان آراء سے شروع ہوئے جن میں اس نے کہا کہ وہ اب متفق نہیں کہ کوویڈ-19 وبا کا آغاز قدرتی طور پر ہوا۔

انہوں نے 11 مئی کو کہا، "میرا خیال ہے کہ جب تک ہم اپنی ہر ممکن صلاحیت کے مطابق یہ نہیں جان لیتے کہ کیا ہوا، تب تک ہمیں یہ تحقیقات جاری رکھنی چاہیئں کہ چین میں کیا ہوا۔"

مستقبل کی عالمی آفات کی انسداد

امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ کو امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو حکم دیا کہ وہ تین ماہ کے اندر انہیں رپورٹ دیں کہ آیا کوویڈ-19 پہلی مرتبہ چین میں کسی جانور کے ذریعہ سے پیدا ہوا یا کہ کسی تجربہ گاہ میں کسی حادثہ کے نتیجہ میں۔

بائیڈن نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں "دو ممکنہ صورت ہائے حال پر جمع ہیں" لیکن تاحال کسی قطعی نتیجہ پر نہیں پہنچی کہ چین میں اس وائرس کا آغاز کیسے ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ایجنسیوں کو چاہیئے کہ "وہ ایسی معلومات جمع کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو دوگنا کر دیں، جو ہمیں ایک قطعی نتیجہ کے قریب تر لا سکیں۔"

پہلی مرتبہ جب 2020 کے اوائل میں یہ وبا سامنے آئی، تو بائیڈن نے تحقیق کنندگان پر زور دیا کہ وہ چین کی رسائی حاصل کریں تاکہ اس وائرس سے زیادہ مؤثر طور پر لڑنے کے ایک ذریعہ کے طور پر اس وائرس سے متعلق زیادہ معلومات حاصل کی جا سکیں۔

بائیڈن نے کہا، " ان ابتدائی مہینوں میں ہمارے تفتیش کنندگان کو اپنے ملک جانے کی اجازت نہ دینے کی وجہ سے کوویڈ-19 کی ابتدا سے متعلق کسی بھی قسم کی تحقیق کو نقصان پہنچے گا۔"

اگرچہ انہوں نے یہ رائے دینے سے گریز کیا ہے کہ لیب لیک ہی دراصل پھیلاؤ کا ذریعہ تھی، تاہم متعدد بین الاقوامی سائنسدانوں نے کہا ہے کہ لیب لیک نظریہ میں مزید گہری اور سائنسی نظر کی ضرورت ہے۔

شکایات موجود ہیں کہ بیجنگ کے ساتھ بات چیت کے بعد گزشتہ برس ڈبلیو ایچ اے میں منظور ہونے والی ڈبلیو ایچ او کی اپنی ابتدائی تفتیش کی شرائط میں کہا گیا کہ معینہ کام اس وائرس کا "زوناٹک" یا – جانوروں سے متعلقہ – ذریعے کی نشاندہی کرنا تھا۔

ڈبلیو ایچ اے سے مطالبات کیے جا رہے ہیں، جو آئندہ منگل (یکم جون) کو اختتام پذیر ہو گی، کہ تفتیش میں آئندہ مراحل کا فیصلہ کرے اور اس کے ارتکاز کو ازسرِ نو واضح کرے۔

امریکی سیکریٹری صحت و خدماتِ انسانی زاویئر بیکیرا نے نئی شرائط کے مطالبہ کی تائید کی۔

انہوں نے ڈبلیو ایچ اے کو بتایا، "کوویڈ کے آغاز کی تحقیق کے دوسرے مرحلہ کا آغاز ان شرائط کے ساتھ ہونا چاہیئے جو شفاف، سائنس پر مبنی ہوں، اور بین الاقوامی ماہرین کو اس وائرس کے منبع اور وبا پھوٹنے کے ابتدائی ایام تک مکمل رسائی ملے۔"

کونئینڈئیک نے کہا، "اس تحقیق کا مقصد الزام لگانا نہیں بلکہ سائنس پر مبنی ہونا ہے، تاکہ وائرس اور وبا کے آغاز کا پتہ چلایا جا سکے اور ہم سب کو مستقبل کی عالمی آفات سے بچنے میں مدد مل سکے۔"

ژہاؤ نے جمعرات کو اس وبا میں نئی تحقیقات کی ضرورت کو مسترد کیا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500