ایبٹ آباد – ایبٹ آباد میں جھلسی ہوئی گھاس کی ایک پٹی اور بکھرے ہوئے ملبے پر بچے کرکٹ کھیل رہے ہیں— یہ اس شخص کے آخری بل کی باقیات ہیں جو کبھی روئے ارض پر مطلوب ترین تھا۔
اسی شہر میں القاعدہ کا رہنما اسامہ بن لادن 2 مئی 2011 کو علی الصبح امریکی بحریہ کی خصوصی افواج کے ایک خفیہ چھاپے میں مارا گیا۔
بن لادن کم از کم پانچ برس سے ایبٹ آباد میں معروف ملٹری اکیڈمی سے 2 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر ایک بڑی سفید عمارت کی اونچی دیواروں کے پیچھے چھپ کر تنہائی میں مقیم تھا۔
بن لادن کی سابقہ رہائش گاہ ساتھ ساتھ ایک تنگ رستے پر چلتے ہوئے ایک سبکدوش استاد الطاف حسین نے کہا، "یہ اس جگہ اور پورے ملک کے لیے ایک بہت بری چیز تھی۔"
"یہاں رہ کر اسامہ نے اس شہر کی ساکھ خراب کی۔"
ابتداً پاکستان القاعدہ کے قیام کی کہانی — امریکہ کی توسیعی پالیسی کے خلاف مسلمانوں کی مزاحمت—کا خیرمقدم کرتا تھا۔
لیکن اس کی موت کے وقت، بن لادن کی مقامی مقبولیت ختم ہو چکی تھی۔
شورشی نیٹ ورکس کے ایک ماہر پاکستانی صحافی رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا، "مجھے یاد ہے کہ قبل ازاں میرے گاؤں میں بھی لوگوں نے اپنے بچوں کے نام عثامہ رکھے۔"
بن لادن کی موت سے پاکستان میں شدت پسندی کا پھیلاؤ نہیں رکا، اور قدامت پسند مذہبی تحاریک مزید بارسوخ ہو گئیں۔
آئندہ تین برس کے دوران، متعدد دہشتگرد گروہوں – جن میں سے سرِ فہرست تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہے – نے خونریز حملے کیے اور افغانستان کی سرحد کے ساتھ شمال مغربی سرحدی علاقوں میں اپنے قدم جما لیے۔
2014 میں شروع ہونے والی ایک پاکستانی عسکری مہم نے تشدد کو کم کرنے میں مدد دی، تاہم کم پیمانے کے حملوں کے ایک حالیہ سلسلہ نے خدشات پیدا کر دیے ہیں۔
القاعدہ اب ’ایک بڑا خطرہ‘ نہیں رہا
یوسفزئی نے کہا کہ القاعدہ اپنے کرشماتی رہنما کے بغیر "بمشکل ہی برقرار رہ پائی" اور اب مغرب میں بڑے حملے کرنے کے قابل نہیں رہی۔
بن لادن کا رو برو انٹرویو کرنے والے آخری صحافی — حامد میر نے کہا کہ یہ گروہ اب "پاکستان کے لیے بھی کوئی بڑا خطرہ" نہیں، تاہم دیگر گروہ جیسا کہ "دولتِ اسلامیہ" (داعش) ابھی بھی ہیں۔
انہوں نے کہا اگرچہ ابھی بھی چند ایک القاعدہ کے بانی کو مثبت انداز میں دیکھتے ہیں، تاہم اکثریت کی نظر میں وہ "ایک برا شخص ہے جس نے معصوم لوگوں کو قتل کیا اور— نہ صرف پاکستان بلکہ متعدد ممالک میں تباہی کا باعث بنا، جو اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے۔"
وقت کے ساتھ ساتھ بن لادن بطورِ کل ایک واہمہ بن چکا ہے، اور چند ہی ایسے عسکریت پسند زندہ بچے ہیں جو ذاتی طور پر اس کا سامنا کرتے۔
حالیہ کتاب "عالمی جہاد: ایک مختصر تاریخ" کے مصنف گلین رابنسن نے کہا، "متعدد کے لیے وہ کل کی خبر بن گیا ہے اور آج کے امور کے لیے متعلقہ نہیں رہا۔"
عسکریت پسند حلقوں میں بن لادن کی حکمتِ عملی بھی متنازع ہے، جس میں سے قابلِ ذکر امریکہ پر حملہ کرنے کا اس کا فیصلہ ہے، جو چند شدت پسندوں کے لیے ایک عدم تعمیری اقدام تھا۔
رابنسن نے کہا، "اسے آج بھی ایک نمایاں تضویری غلطی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ثبوت کا ایک جزُ یہ ہے کہ اب چند ہی جہادی اس حکمتِ عملی کی پیروی کرتے ہیں — اور اکثر نے تو کبھی کی ہی نہیں۔"
رسوخ کے لیے شدت پسندوں کی لڑائی
بن لادن کی موت کے ساتھ اسلامی شدت پسندی میں تغیر پیدا ہوا، اور اس کے ساتھ القاعدہ نے دنیا کے اولین شورشی نیٹ ورک کا درجہ کھو دیا، جو کہ داعش کو مل گیا، جو کہ عراق اور شام کے حصوں پر قابض ہو کر اپنے عروج پر ہے۔
ایک مشترکہ بربریت اور پرجوش شدت پسندانہ نظریہ کے باوجود ان دونوں گروہوں نے کبھی اتحاد نہیں کیا اور بجائے جانی دشمن بن کر بطورِ خاص شام اور افریقہ کے ساحلی خطے میں نبرد آزما ہیں۔
عبداللہ گزشتہ برس اگست میں تہران میں مارا گیا تھا۔
القاعدہ کے تجزیہ کاروں نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ الزواہری میں مر چکا ہے۔
ایران نے عبداللہ کے قتل کی خبروں کی شدت سے تردید کی ہے— جو تہران کے لیے ایک بڑی شرمندگی ہے – جبکہ القاعدہ نے اپنے عمومی میڈیا ذرائع سے الزاواہری کی مبینہ موت کی کوئی تصدیق جاری نہیں کی۔
امریکی حکام نے 2019 میں کہا کہ القاعدہ کے قیاس کیے جانے والا وارثحمزہ بن لادن بھی مر چکا ہے۔
افغانستان کے ساتھ تعلقات
افغان قومی نظامتِ سلامتی کے ایک سیکیورٹی عہدیدار نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھے جانے کی شرط پر بتایا کہ AQIS کے رہنما دولت بیگ تاجکی، المعروف ابومحمد التاجکی، اور طالبان کمانڈر حضرت علی، المعروف حمزہ مہاجر دونوں گروہوں کے مابین رابطہ کا ذریعہ تھےاور مشترکہ حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
اگرچہ امریکہ کے ساتھ فروری 2020 کے دوحہ معاہدہ کے تحت افغان طالبان نے القاعدہ اور دیگر دہشتگرد گروہوں کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا عہد کر رکھا تھا، تاہم شواہد واضح طور پر جاری اور – مستحکم تر – تعلق کو ثابت کرتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کے لیے القاعدہ کی حمایتذاتی مفاد کے لیے ہے۔
ایک سیاسی تجزیہ کار اور صوبہ نورستان کے سابق گورنر تمیم نورستانی نے کہا، " سینئر القاعدہ ارکان طالبان کے لیے حکمت ہائے عملی وضع کرتے ہیں، انہیں مشاورت اور مالیات فراہم کرتے اور انہیں مسلح کرنے کے ساتھ ساتھ تربیت بھی کرتے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ [افغان حکومت کے ساتھ] امن قائم کرنے کی صورت میں القاعدہ نئے محاذ کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس دہشتگرد گروہ کے ایران کے ساتھ قریبی اور اس نے تہران کے ساتھ طالبان کے تعلقات استوار کرنے میں مدد کی ہے۔