ہرات -- افغانستان کے مغربی علاقے کے حکام اور کسانوں کا کہنا ہے کہ طالبان نے اس سال بھی بوائی کے موسم کے آغاز کے ساتھ، کسانوں سے رقم بٹورنا شروع کر دی ہے۔
ہرات کے زراعت، آب پاشی اور مال مویشیوں کے شعبہ کے نائب ڈائریکٹر بشیر احمد احمدی نے کہا کہ "طالبان کسانوں سے سال میں دو دفعہ بھتہ لیتے ہیں، پہلے بوائی کے موسم کے دوران اور پھر کٹائی کے موسم کے دوران"۔
انہوں نے کہا کہ اس سال بوائی کے موسم کے آغاز کے ساتھ ہی، طالبان نے پہلے ہی بھاری رقم اکٹھی کر لی ہے۔
احمدی نے کہا کہ "کسانوں نے متعدد بار طالبان کی بھتہ خوری کے بارے میں صوبائی شعبہ زراعت کو شکایت کی ہے اور کہا ہے کہ عسکریت پسندوں نے انہیں دھمکیاں دی ہیں کہ اگر وہ ادائیگی نہیں کریں گے تو انہیں قتل کر دیا جائے گا"۔
ہرات صوبہ کی صوبائی کونسل کی دفاعی کمیٹی کے چیرپرسن غلام حبیب ہاشمی نے کہا ہے کہ طالبان نے ہرات صوبہ کے کئی اضلاع میں کسانوں پر سخت ٹیکس عائد کر دیے ہیں۔
ہاشمی کے مطابق، اگر کوئی کسان عمل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو وہ جرمانے کا مطالبہ کرتے ہیں جو کہ ٹیکس کی اصلی مقدار سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "طالبان بھتہ خوری سے حاصل ہونے والی رقم سے ہتھیار اور دھماکہ خیز مواد خریدتے ہیں اور انہیں شہریوں اور سیکورٹی فورسز کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں"۔
فراہ کی صوبائی کونسل کے چیرمین داد اللہ قنی نے کہا کہ فراہ صوبہ کے گاوُں اور کچھ ڈسٹرکٹس میں، طالبان ہر سال کسانوں سے پانی کے ہر کنویں اور زمین کے ہر جریب (0.2 ہیکٹر) کے لیے 3,000 افغان (39 ڈالر) بھتہ وصول کرتے ہیں۔
وہ صوبہ میں کسانوں کو پوست کاشت کرنے پر بھی مجبور کرتے ہیں ، انہوں نے مزید کہا۔
قنی نے کہا کہ "اگرچہ کسانوں اور دیگر مقامی افراد کو انتہائی غربت کا سامنا ہے اور وہ کھیتی باڑی سے گزر اوقات کرنے میں مسائل کا سامنا کر رہے ہیں مگر طالبان بے رحمی سے ان سے رقم بٹورنا جاری رکھے ہوئے ہیں"۔
"ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سے کسان اپنے گاؤں کو چھوڑ کر فراہ شہر کی طرف بھاگ رہے ہیں کیونکہ وہ طالبان کی بھتہ خوری یا ان کے جبر کو برداشت نہیں کر سکتے ہیں"۔
کسانوں کو موت کی دھمکیاں
کسانوں نے سلام ٹائمز کو تصدیق کی ہے کہ طالبان نے انہیں دھمکیاں دی ہیں اور زکوة کے نام پر ان سے رقم بٹوری ہے۔
بدغیس صوبہ کی اب کماری ڈسٹرکٹ کے ایک کسان شمس الدین، جن کا ایک ہی نام ہے، نے کہا کہ طالبان ہر سال دو دفعہ گاؤں آتے ہیں اور ہر کسان کو "پریشان" کرتے ہیں۔
طالبان کے غیر قانونی ٹیکسوں کے تحت، کسانوں کو ایک جریب زمین پر گندم اگانے یا باغ کا مالک ہونے پر، سالانہ 3,000 افغانی (39 ڈالر) ادا کرنے ہوتے ہیں۔ فراہ صوبہ کے قنی نے بھی ایسے ہی ٹیکس ریٹ بتائے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو کوئی بھی ادائیگی سے انکار کرتا ہے اسے سخت سزا ملتی ہے جس میں جرمانہ، مارپیٹ اور قید بھی شامل ہیں۔
شمس الدین نے کہا کہ طالبان اپنی نام نہاد بھتہ خوری کو اپنی نام نہاد اسلامی امارت کا قانونی حق سمجھتے ہیں اور یہاں تک کہ جو لوگ اس کی اطاعت نہیں کرتے انہیں موت کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں۔
غور صوبہ کی شہریک ڈسٹرکٹ کے ایک کسان شمس الحق نے کہا کہ "طالبان ہمیں کہتے ہیں کہ اسلامی ضوابط کے تحت ہم پر زکوة کی ادائیگی لازمی ہے۔ انہوں نے زکوة کی ادائیگی کو لازم کر دیا ہے اور ہمیں مجبور کر رہے ہیں کہ ہم ان کی اطاعت کریں"۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسان جو اگاتے ہیں اس سے بہت کم آمدنی ہوتی ہے۔ "ہمارے پاس طالبان کو ادائیگی کرنے کے لیے ادھار لینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے"۔
غور کی صوبائی کونسل کے ایک رکن محمد مہدوی کا کہنا ہے کہ "اگرچہ اس شمسی سال، منڈلاتی ہوئی خشک سالی ایک بہت بڑا خطرہ ہے اور اس سے ہوسکتا ہے کہ کسانوں کی پیداوار کافی زیادہ کم ہو جائے مگر غور صوبہ کے کچھ اضلاع میں طالبان نے پہلے ہی بھاری رقوم اکٹھی کر لی ہیں"۔
اسلام میں بھتہ خوری منع ہے
مذہبی علماء کا کہنا ہے کہ اسلام میں بھتہ خوری کی سخت ممانعت ہے اور یہ بہت بڑا گناہ ہے۔
بدغیس صوبہ کے دارالحکومت قلعہ نو شہر کے مذہبی عالم مولوی جہان شاہ نے کہا کہ "اسلام میں بھتہ خوری کی کوئی جگہ نہیں ہے"۔
انہوں نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ طالبان کی طرف سے زکوة کے نام پر رقم بٹورنے کی خواہش ایک غیر مناسب اور ناقابلِ معافی رویہ ہے، کہا کہ "کسی سے اس کی مرضی کے خلاف رقم لینا ایک غیر اسلامی اور غیر انسانی کام ہے"۔
انہوں نے مزید کہا کہ "اسلامی قواعد کے تحت، صرف ایک قانونی حکومت کے پاس ہی زکوة یا ٹیکس کے نام پر رقم جمع کرنے کا حق ہے۔ طالبان کوئی حکومت نہیں ہیں بلکہ ایک باغی گروہ ہے جس کی کوئی قانونی حثیت نہیں ہے"۔
قلعہ نو شہر کے ایک اور مذہبی عالم مولوی رفیع مطیع نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔
مطیع نے کہا کہ "اسلام میں لوگوں کی زندگیاں اور دولت محفوظ ہونی چاہیے۔ بھتہ خوری کی اجازت نہیں ہے اور جو ایسا کرتے ہیں انہیں اللہ سخت سزا دے گا"۔
انہوں نے طالبان پر زور دیتے ہوئے کہ وہ توبہ کریں اور جو رقم انہوں نے کسانوں سے بٹوری ہے وہ انہیں واپس کر دیں، کہا کہ "طالبان کسانوں کو ادائیگی کرنے کے لیے دھمکیاں دے رہے ہیں اور یہ مسلمانوں کی رازداری اور املاک کی واضح خلاف ورزی ہے"۔