سلامتی

افغان شہریوں نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ رمضان کے دوران تشدد روک دیں

ہدایت اللہ

قندوز شہر کے تقریبا 100 شہری، 8 اپریل کو جمع ہوئے تاکہ طالبان سے مطالبہ کیا جا سکے کہ وہ رمضان کے مقدس مہینے کا احترام کریں، اپنے ہتھیار ڈال دیں اور بے گناہ افغانیوں کا خون بہانا بند کر دیں۔ [محمد قاسم/ سلام ٹائمز]

قندوز -- قندوز شہر میں تقریبا 100 افغان شہری گزشتہ ہفتے اکٹھا ہوئے تاکہ طالبان پر دباؤ ڈالا جا سکے کہ وہ رمضان کے مقدس مہینے کا احترام کریں، اپنے ہتھیار ڈال دیں اور بے گناہ افغان شہریوں کا خون بہانا بند کر دیں۔

افغانستان میں رمضان کا آغاز منگل سے ہو رہا ہے۔

افغانستان نے امن مذاکرات، جن کا آغاز گزشتہ سال طالبان اور حکومت کے درمیان ہوا تھا، کے باوجود تشدد میں اضافہ دیکھا ہے اور اس میں قتل کے واقعات کی ایک ایسی لہر بھی شامل ہے جس میں مشہور افغان شہریوں، جن میں صحافی، سرگرم کارکن اور سرکاری ملازمین شامل ہیں، کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

حکام نے اس خون خرابے کا زیادہ تر الزام طالبان کے سر لگایا ہے۔

قندوز کے 100 سے زیادہ شہری، جن میں مذہبی علماء اور خواتین بھی شامل ہیں، 8 اپریل کو قندوز شہر میں جمع ہوئے تاکہ طالبان پر زور ڈالا جا سکے کہ وہ رمضان کے مقدس مہینے میں تشدد کو روک دیں۔ [محمد قاسم/ سلام ٹائمز]

قندوز کے 100 سے زیادہ شہری، جن میں مذہبی علماء اور خواتین بھی شامل ہیں، 8 اپریل کو قندوز شہر میں جمع ہوئے تاکہ طالبان پر زور ڈالا جا سکے کہ وہ رمضان کے مقدس مہینے میں تشدد کو روک دیں۔ [محمد قاسم/ سلام ٹائمز]

اس موقع پر جمع ہونے والوں میں شامل، ایک قبائلی بزرگ، مرزا محمد لغمانی نے کہا کہ رمضان کے دوران جنگ بندی کا آعلان کیا جانے چاہیے جبکہ بین افغان مذاکرات جاری رہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ "مسلمانوں پر روزہ فرض ہے اور ہمارے لوگ روزہ رکھتے، نماز پڑھتے اور تراویح کے لیے جاتے ہیں۔ اگر لڑائی جاری رہی تو کوئی بھی تراویح کی نماز پڑھنے نہیں جا سکے گا۔ عوام کو رمضان کے دوران بے آرام نہیں کیا جانا چاہیے"۔

لغمانی نے کہا کہ "یہ سچ ہے کہ ہم روزہ رکھ سکتے ہیں، مگر جنگ، ہلاکتوں اور برادرکُشی کی موجودگی میں، اللہ نہ تو ہمارے روزے قبول کرے گا اور نہ ہی نمازیں اور نہ ہی ہم ایک پرامن ماحول میں عبادت کرنے کے قابل ہوں گے"۔

گزشتہ سال اس سے ملتی جلتی ایک درخواست پر کوئی توجہ نہیں دی گئی تھی اور طالبان نے ماہِ مقدس کے دوران اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا تھا۔ شہریوں نے سلام ٹائمز کو بتایا کہ اس سال، وہ امید کرتے ہیں کہ حالات مختلف ہوں گے۔

قندوز یونیورسٹی کی قانون کی طالبہ فاطمہ مجیدی نے کہا کہ "تمام افغان شہری امن اور تشدد کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ طالبان کو کم از کم ماہِ مقدس میں لڑائی روک دینی چاہیے"۔

ایک مذہبی عالم، مولوی عظیم اللہ احدی، جو اکٹھا ہونے والوں میں شامل تھے، نے دونوں فریقین سے مطالبہ کیا کہ وہ ماہِ مقدس کے احترام میں تشدد کو روک دیں۔

احدی نے کہا کہ "رمضان خدا کی مہمان نوازی کا ماہ ہیں -- اور ہمیں اس ماہ کو مناسب طور پر خوش آمدید کہنا چاہیے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام تمام مہینوں میں لیکن خاص طور پر رمضان میں مسلمانوں کے قتل کو ممنوع قرار دیتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "طالبان کو تشدد روک دینا چاہیے اور اپنے مطالبات مذاکرات سے منوانے چاہیں نہ کہ مسلمانوں کو ہلاک کرنے سے"۔

جنگ بندی کا مطالبہ

قندوز شہر کے رہائشی محمد عارف مرادی نے کہا کہ "میں طالبان اور دوسرے انتہاپسند گروہوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ رمضان کے مہینے میں تشدد اور خون بہانا بند کر دیں اور جنگ بندی کا اعلان کریں"۔

انہوں نے کہا کہ "امن کے مخالف اور افغانستان کے دشمنوں کو کم از کم دہشت گردانہ حملے روک دینے چاہیں اور افغان شہریوں کو رمضان امن سے گزارنے دینا چاہیے"۔

قندوز کے صوبائی کونسل چیرمین، محمد یوسف ایوبی نے کہا کہ "اگر جنگ اس ملک کی تعمیر کر سکتی تو اسے ابھی تک بہت خوشحال ہو جانا چاہیے تھا مگر ملک جنگ اور برادرکُشی سے تعمیر نہیں ہو گا"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ہم طالبان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پولیس، فوج اور حکومت کے ساتھ جنگ بندی کرے اور جنگ کو جاری نہ رکھے"۔

قندوز شہر کے رہائشی محمد اسماعیل کالیوال نے کہا کہ "ہم چاہتے ہیں کہ طالبان مذاکرات کے ذریعے، حکومت کے ساتھ اپنے مسائل حل کرے"۔

کالیوال نے کہا کہ "ہمارے قبرستان شہید ہونے والے سیکورٹی عملے اور شہریوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس ہر گھر میں یتیم بچے اور بیوہ عورتیں ہیں۔ ہزارون خاندانوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں اور نہ ہی ان کا مستقبل واضح ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500