معیشت

ہچکولے کھاتی ایرانی معیشت اسلامی جمہوریہ کے مستقبل کے لیے خطرہ

از اردشیر کردستانی

غیر مستحکم معیشت کا اوسط ایرانیوں کی تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہوتی قوتِ خرید میں گھرا اثر بالکل واضح ہے۔ [عطاء کنرے/اے ایف پی]

غیر مستحکم معیشت کا اوسط ایرانیوں کی تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہوتی قوتِ خرید میں گھرا اثر بالکل واضح ہے۔ [عطاء کنرے/اے ایف پی]

ایران میں تمام بنیادی اقتصادی اشاریئے ظاہر کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ بسترِ مرگ پر ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، کرنسی کے ذخائر کم ہو رہے ہیں، اور ملکی قیادت پر عدم اطمینان بڑھ رہا ہے۔

اختلاف کا خوف، جس کو وہ شدید معاشی دباؤ ہوا دے رہا ہے جس کا سامنا آبادی کر رہی ہے، اتنا زیادہ ہے کہ وزارتِ داخلہ نے "ملکی سلامتی کی نگرانی" کے لیے ایک کمیٹی بنا دی ہے۔

بدھ (24 مارچ) کے روز، نائب وزیرِ داخلہ حسین ذوالفقاری نے کہا کہ ملک کی معاشی مشکلات نے "تحفظ فراہم کرنا زیادہ مشکل بنا دیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی کا مقصد "تیزی کے ساتھ ان مسائل کی تفتیش کرنا ہے جو عوام کے لیے مسائل پیدا کریں گے" اور "تناؤ سے بھرپور نتائج کو روکیں" گے۔

نومبر 2019 میں تہران میں ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران ایرانی مظاہرین آگ کے گرد جمع ہیں۔ [اے ایف پی]

نومبر 2019 میں تہران میں ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران ایرانی مظاہرین آگ کے گرد جمع ہیں۔ [اے ایف پی]

جبکہ ایرانی شہری وطن میں مشکلات کا شکار ہیں، ملکی قیادت پراکسی ملیشیاؤں، جیسے کہ اپریل 2020 میں یہاں عراق میں دیکھی گئی کتیب حزب اللہ پر دل کھول کر خرچ کرتی ہے۔ [ارنا]

جبکہ ایرانی شہری وطن میں مشکلات کا شکار ہیں، ملکی قیادت پراکسی ملیشیاؤں، جیسے کہ اپریل 2020 میں یہاں عراق میں دیکھی گئی کتیب حزب اللہ پر دل کھول کر خرچ کرتی ہے۔ [ارنا]

سنہ 2017 اور 2020 کے درمیان ایران میں اوسط افراطِ زر میں مجموعی طور پر 110 فیصد اضافہ ہوا تھا، جس میں صرف سنہ 2020 میں ہی اوسط مہنگائی میں 30 فیصد اضافہ ہوا تھا۔

گرتی ہوئی کرنسی

سنہ 2017 کے بعد سے، ملک کی کرنسی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں اندازاً 81 فیصد گر چکی ہے۔

سنہ 2017 میں، شرح تبادلہ 1 ڈالر فی 37،000 ایرانی ریال تھی۔ لیکن جون 2020 تک کچھ اتار چڑھاؤ کے ساتھ، یہ 1 ڈالر فی 200،000 ایرانی ریال تھی۔

دریں اثناء رائٹرز نے خبر دی کہ، کورونا وائرس کی عالمی وباء کے ساتھ منسلک تیل کی کم عالمی طلب اور امریکی پابندیوں کے اثر سے ایران میں اپریل 2020 میں تیل کی روزانہ برآمد گر کر 70،000 بیرل یومیہ ہو گئی جو کہ مارچ 2020 میں 287،000 بیرل یومیہ تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2017 کی پہلی ششماہی میں ایرانی تیل کی برآمدت 2.5 ملین بیرل یومیہ پر کھڑی تھیں۔

مزید برآں، اس سال ایران کے قومی ترقیاتی فنڈ (این ڈی ایف) میں 120 بلین ڈالر تھے۔ لیکن صرف پچھلے دو سالوں میں ہی، صدر روحانی کی حکومت نے محاصل کے خلاؤں کو پُر کرنے کے لیے قومی ترقیاتی فنڈ میں سے کم از کم 33 بار پیسے نکلوائے ہیں۔

مثال کے طور پر، فروری 2020 میں، روحانی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کرنے کے لیے 420 ملین ڈالر کے مساوی رقم نکلوائی تھی۔

اور سنہ 2018 میں، سپریم لیڈر علی خامنائی نے این ڈی ایف سے 4 بلین ڈالر نکلوانے کی منظوری دی تھی، اور اس رقم کا نصف فوجی اخراجات کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔

ستمبر تک، قومی ترقیاتی فنڈ خطرناک سطحات تک گر چکا ہے، اور اندازے بتاتے ہیں کہ باقی رقم 20 اور 25 بلین ڈالر کے درمیان ہے۔

زوال پذیر قوتِ خرید

غیر مستحکم معیشت کا اثر اوسط ایرانیوں کی تیزی کے ساتھ گرتی ہوئی قوتِ خرید کے علاوہ اور کہیں بھی واضح نہیں ہے۔

دارالحکومت تہران سے 50 کلومیٹر باہر، کاراج شہر کے نواحی علاقے میں رہنے والے ایک ریٹائرڈ الماری ساز، فاتح نبوت نے کہا، "قیمتیں روزانہ چھلانگیں لگاتی ہوئی اوپر جا رہی ہیں، لیکن قوتِ خرید میں گھونگھے کی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ ایک اپارٹمنٹ کرایہ پر لینے سے لے کر روزانہ کی اشیائے صرف جیسے کہ ڈیری اور چکن خریدنے تک، ہر چیز استطاعت سے باہر ہو گئی ہے۔

سرکاری نرخوں پر رپورٹیں نبوت کے اندازے کی تصدیق کرتی ہیں۔ 17 مارچ کو، 1 کلوگرام سرخ گوشت کی قیمت اندازاً 1.3 ملین ایرانی ریال تھی، اور ایرانی دسترخوانوں کی زینت، پنیر کے 1 کلوگرام کی قیمت تقریباً 400،000 ایرانی ریال تھی۔

سیاق و سباق کے لیے، ایران میں اوسط فی کس تنخواہ 40 اور 50 ملین ایرانی ریال ماہانہ ہے۔

اسی طرح، ایران میں کھانے پینے کی 30 ضروری ترین اشیاء کا نومبر کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء کے اوسط قیمتوں میں ایک سال میں 60 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

پراکسیز پر شاہ خرچیاں

یران میں معاشی مشکلات کے باوجود، اس کے قائدین نے روایتی ہتھیاروں -- بشمول راکٹوں اور مارٹر گولوں -- پر اپنی نقدی کی گرتی ہوئی رسد کو خرچ کرنا منتخب کیا ہے جو وہ خطے میں پراکسی ملیشیاؤں میں بانٹتے ہیں.

سنہ 2019 کی ایک رپورٹ میں، امریکی دفاعی خفیہ ایجنسی نے اندازہ لگایا تھا کہ سنہ 2012 اور 2018 کے درمیان، ایران نے شامی حکومت، حزب اللہ، عراقی ملیشیاؤں، یمنی حوثیوں (انصاراللہ) اور دیگر پراکسیز کو 16 بلین ڈالر سے زائد سرمایہ فراہم کیا تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایران اپنے اتحادیوں اور پراکسیز کو مواصلات کے آلات، چھوٹے ہتھیار، توپ خانے کے نظام اور میدانِ جنگ کے راکٹ اور لانچر فراہم کرتا ہے۔

مجلس کی قومی سلامتی کمیٹی کے ایک ممتاز رکن نے اندازہ لگایا کہ سنہ 2020 کے اوائل تک، اسلامی جمہوریہ نے صرف شام ہی میں اس کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے کوئی 20 بلین ڈالر امداد پر خرچ کیے تھے۔

ایرانی حکومت اپنے داخلی میزائل پروگرام پر بھی بے اندازہ ملین خرچ کرتی ہے۔

علاقائی جارحیت

شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، اس وقت امریکہ میں مقیم، ایرانی بحری خفیہ کے ایک سابق تجزیہ کار نے کہا کہ ایرانی قائدین نے "اپنی حکمرانی کو جواز بخشنے کے سنگِ بنیاد میں خطے کے اندر جارحیت اور امریکہ کی مخالفت" پیدا کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سنہ 2015 کے جوہری معاہدے کے بعد وہ خطے میں امن لانے اور ایران پر دباؤ کو کم کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون کر سکتے تھے، "لیکن انہوں نے ایسا نہ کرنے کا انتخاب کیا کیونکہ وہ اسے انقلاب کے وجود کے لیے ایک وجہ کے طور پر دیکھتے ہیں"۔

امریکہ میں مقیم ایک ایرانی صحافی، شاہین محمدی نے بھی اس سے ملتے جلتے خیالات کا اظہار کیا لیکن کہا کہ انہیں یقین ہے کہ امریکہ کا جاری محدود دباؤ ایرانی عوام کو نقصان پہنچائے بغیر ایرانی قائدین کی مرضی کو جھکا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی قائدین کی رسائی ڈیٹا کی کثرت تک ہے، انہوں نے یاد دلایا غالب امکان ہے وہ سمجھتے ہوں کہ بیشتر ایرانیوں کے لیے صورتحال ناقابلِ برداشت ہے۔

انہوں نے کہا، "اسلامی جمہوریہ کے قائدین کے لیے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنا معقول ہو گا، اگر صرف حکومت کو دباؤ تلے دبنے سے بچنے کے لیے ہو۔"

انہوں نے مزید کہا لیکن ایسے مذاکرات کے کامیاب ہونے کے لیے، ایران کا کسی بھی مذاکرات میں اپنے علاقائی نظریۂ مداخلت کو شامل کرنے پر رضامند ہونا لازمی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شدید سفارتی، سیاسی اور عسکری تنہائی، جو محدود پابندیوں کے ذریعے مسلط کی گئی ہے، "غالباً یا تو خامنائی یا طاقت کے کسی اور بڑے مرکز، جیسے کہ سپاہِ اسلامی پاسدارانِ انقلاب (آئی آر جی سی)، کو رعایت کرنے یا حکومت کے خاتمے کا سامنا کرنے پر منتج ہو گا"۔

بڑھتی ہوئی تقسیم

گزشتہ ماہ ایرانی حکومت کے اندر تقسیمیں دیکھی گئی ہیں، جبکہ آئی آر جی سی کے ساتھ تناؤ بڑھا ہے، جس کا ملک میں غیر معمولی اثرورسوخ ہے۔

کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ اختلافات ایرانی سڑکوں پر بڑھتے ہوئے غصے کی عکاسی کرتے ہیں۔

معاشی اور زندگی کے حالات پر عوامی اشتعال نقطۂ عروج پر ہے، اور مبصرین نے متنبہ کیا ہے کہ عوامی مظاہروں کا اگلا مرحلہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے معاملے پر نومبر 2019 میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں سے کہیں زیادہ پرتشدد ہو سکتا ہے۔

آئی آر جی سی کی زیرِ قیادت افواج نے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرین پر گولی چلا کر، اور سینکڑوں کو حراست میں لے کر اور ان پر تشدد کر کے اپنا ردِعمل دیا۔ کچھ اندازے بتاتے ہیں کہ احتجاجی مظاہروں میں 1،500 کی تعداد تک عام شہری مارے گئے تھے۔

سنہ 2019 کے احتجاجی مظاہرے اتنے پیمانے پر تھے جو سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں شاذونادر ہی دیکھنے میں آئے، اور سنہ 2009 میں متنازعہ انتخابات پر نکلنے والی ریلیوں کے بعد سے سب سے بڑے تھے۔

حالیہ مہینوں میں ایران سے سست رفتار انٹرنیٹ اور وقفے وقفے سے انٹرنیٹ کی بندش کی اطلاعات بتاتی ہیں کہ حکومت شہری بدامنی کے نئے مرحلے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہی ہو سکتی ہے۔

بدامنی کی تازہ ترین علامت میں، فروری میں ایرانی فوج نے پاکستانی سرحد کے قریب تیل لے جانے والے عام شہریوں پر فائر کھول دیا تھا ، جس سے پرتشدد شورش بھڑک اٹھی تھی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500