سلامتی

عالمی طاقتوں کا طالبان سے موسمِ بہار میں حملے شروع نہ کرنے کا مطالبہ

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

طالبان کے شریک بانی مُلا عبدالغنی برادر (درمیان میں) اور طالبان کے دیگر قائدین کا وفد 18 مارچ کو ماسکو میں افغانستان پر ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شریک ہے۔ [الیگزینڈر زیملیانیشینکو/پول/اے ایف پی]

طالبان کے شریک بانی مُلا عبدالغنی برادر (درمیان میں) اور طالبان کے دیگر قائدین کا وفد 18 مارچ کو ماسکو میں افغانستان پر ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شریک ہے۔ [الیگزینڈر زیملیانیشینکو/پول/اے ایف پی]

ماسکو – جمعرات (18 مارچ) کے روز ماسکو میں ثالثوں نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ موسمِ بہار میں حملے شروع نہ کریں، جبکہ امن معاہدے کے لیے بین الاقوامی کوششوں میں شدت آ گئی ہے۔

امریکہ، چین، پاکستان اور روس نے افغانستان میں تشدد میں کمی لانے اور متحارب فریقین سے اموات کو روکنے کی درخواست کی تاکہ "سیاسی و سفارتی تصفیئے کے حصول کے لیے سازگار ماحول پیدا ہو"۔

ایک مشترکہ بیان میں ان کا کہنا تھا، "ہم افغان جنگ کے تمام فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک میں تشدد کی سطح کو کم کیا جائے اور تحریکِ طالبان بہار-گرما کے حملوں کی مہم کا اعلان نہ کرے"۔

بین الاقوامی ثالثوں کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین کو "جلد از جلد" ایک معاہدہ کرنا چاہیئے جو "افغانستان میں چار عشروں سے زائد عرصے سے جاری جنگ کو ختم کرے گا"۔

بین الاقوامی کوششوں کے لیے حمایت کے اظہار میں، عبداللہ عبداللہ، جو افغان حکومت کی مصالحتی کونسل کے سربراہ ہیں، نے کہا کہ کابل مذاکرات کو تیز کرنے کا خواہشمند ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ "دونوں فریقین اپنے مذاکرات کا آغاز کریں اور ایک مختلف ماحول میں بات چیت کریں"۔

سوموار کے روز افغان وزارتِ خارجہ نے کہا کہ دوحہ، قطر میں کئی ماہ سے جاری مذاکرات، اور ماسکو میں ہونے والی حالیہ ملاقات اور اپریل میں ترکی میں انعقاد کے لیے طے شدہ امن کانفرنس "دوحہ میں ہونے والے افغان امن مذاکرات کے علاوہ ہیں اور ان کا نعم البدل نہیں ہیں۔"

مبصرین نے حالیہ اجلاس کے بارے میں روس کی نیت پر شک کیا ہے کیونکہ اگرچہ ماسکو عوامی طور پر دعویٰ کرتا ہے کہ وہ افغانستان میں امن مذاکرات کا حامی ہے ، لیکن کریملن کے اصل ارادے غیر واضح ہیں.

ماضی میں عوامی خرچے پر طالبان کی روس کی سیروں نے طالبان قائدین کے لیے فوٹو کھنچوانے کے مواقع فراہم کرنے کے سوا کچھ زیادہ نہیں کیا ہے۔

جاری تشدد

دریں اثناء افغانستان میں شہری مراکز ایک خونریز مہم کے شکنجے میں ہیں حملوں کی شکل میں جن میں سیاستدانوں، سرکاری ملازمین، اساتذہ، حقوق کے لیے کام کرنے والوں اور صحافیوں کو ہدف بنایا جاتا ہے۔

جمعرات کے روز صدر اشرف غنی نے کہا کہ ایک فوجی ہیلی کاپٹر جو غیر مستحکم صوبہ وردک میں گرا تھا اسے مار گرایا گیا تھا، جس میں جہاز کے عملے کے چار ارکان اور سیکیورٹی فورسز کے پانچ ارکان ہلاک ہوئے تھے۔

انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ذمہ دار کون ہے مگر خبردار کیا کہ "واقعہ کے مجرموں کو سنگین سزا دی جائے گی"۔

یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا ہے جب افغان حکومت کا اصرار ہے کہ ملک بھر میں پرتشدد واقعات میں اضافے کا الزام طالبان پر عائد ہوتا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500