بامیان -- طالبان کی طرف سے افغانستان کے مشہور بامیان کے بدھا کو، سنگلاخ مرکزی سطح مُرتفع کی محرابوں سے، جہاں وہ صدیوں سے کھڑے تھے، بم مار کر تباہ کیے جانے کے 20 سالوں کے بعد، ان میں سے ایک مختصر وقت کے لیے مجازی طور پر واپس آیا۔
منگل (9 مارچ) کی رات کو ایک سہ رُخی تصویر نے، بامیان کی وادی کے پہاڑ میں اس خالی محراب کو بھر دیا جہاں تقریبا 55 میٹر لمبا صلصال کا مجسمہ، جو دو مجسموں میں سے بڑا تھا، کسی زمانے میں منظر پر چھایا ہوتا تھا۔
یہ تصویر جو کہ طالبان کی طرف سے افغانستان کے بے بدل ثقافتی ورثے کی تباہی کی 20 ویں سالگرہ پر منعقد ہونے والی یادگاری تقریب کا نُقطہ عرُوج تھی، نے زائرین کو ایک مختصر جھلک دکھائی کہ چیزیں کسی طرح ہوتی تھیں۔
طالبان نے مارچ 2001 میں ان مجسموں کو، اس وقت کے راہنما ملا محمد عمر کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے تباہ کر دیا تھا۔ یہ مجسمے جنہیں ایک پہاڑ کے اندر چوتھی اور پانچویں صدی میں تراشا گیا تھا، دنیا میں موجود بدھا کے کھڑے مجسوں میں سب سے اونچے تھے۔
"بدھا کے ساتھ ایک رات" نامی تقریب کے منتظمین میں سے ایک، زاہرہ حسینی نے کہا کہ "ہم نہیں چاہتے کہ لوگ اس بات کو بھول جائیں کہ یہاں کتنے بھیانک جرائم کیے گئے تھے"۔
ہزاروں افراد نے جائے واقعہ کی طرف جانے والے مشعل بردار جلوس میں حصہ لیا، وہ اس پہاڑ کے دامن میں اکٹھے ہوئے، جہاں قدیم غاروں، خانقاہوں اور مزاروں کے ایک سلسلے کے ساتھ ساتھ، کبھی یہ مجسمے موجود تھے۔
جب اندھیرا چھا گیا تو، اس محراب کو تصویر سے بھر دیا گیا جہاں کبھی صلصال کا مجسمہ کھڑا ہوتا تھا جو کہ ان جڑواں مجسموں میں سے ایک تھا جنہیں آثارِ قدیمہ کے بڑے عجوبات میں سے ایک تصور کیا جاتا تھا۔
بامیان کی 23 سالہ رہائشی، کلثوم زاہرہ، جنہوں نے اس تقریب میں شرکت کی، کہا کہ "یہ لمحے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم کتنے عظیم خزانے سے محروم ہو گئے ہیں"۔
ایک صدیوں پرانی موجودگی مٹ گئی
افغانستان کے دیوقامت بدھا، صدیوں سے بامیان وادی کی نگرانی کرتے ہوئے کھڑے تھے، وہ طالبان کے آنے سے پہلے تک، منگولوں کے حملوں اور سخت موسم سے بھی بچ گئے تھے۔
طالبان کو بین الاقوامی غصے کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انہوں نے اپنے مختصر، آہنی ہاتھ سے کیے جانے والے دورِ حکومت، میں بموں سے اڑا دیا تھا۔ وہ افغانستان کے وسیع قبل از اسلام ورثے کو تباہ کرنے کی مہم پر نکلے تھے۔
اپنے برف سے ڈھکے پس منظر اور صاف نیلے آسمانوں کے ساتھ، بامیان کھلی ہوا کے شائقین اور تاریخ کے ایسے مداحوں میں، جو ملک کے آثارِ قدیمہ کے ورثے کو جاننے کا شوق رکھتے تھے، میں مقبول رہا ہے۔
20 ویں سالگرہ کی تقریب پر اس تشویش کے بادل چھائے ہوئے تھے کہ طالبان، امریکہ کے ساتھ ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد، جس کے تحت آنے والے مہینوں میں بین الاقوامی فوجیں ملک سے نکل جائیں گی، اقتدار میں واپس آنے والے ہیں۔
حسینی نے اس تقریب کو منعقد کرنے کے فیصلے کے بارے میں کہا کہ "ہم مستقبل اور ہمارے تاریخی ورثے کے ساتھ ہونے والے سلوک، کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار بھی کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی اور "باقی کی یادگاریں ایک بار پھر انتہاپسند گروہ کے رحم و کرم پر ہوں گی"۔