پیر (یکم مارچ) کو اقوامِ متحدہ کی ایک تفتیش میں کہا گیا کہ شام میں تنازع کی ایک دہائی کے دوران ہزاروں شہریوں کو دورانِ حراست تشدد، جنسی تشدد اور موت سمیت "ناقابلِ تصور تکالیف" سے گزارا گیا۔
شام پر اقوامِ متحدہ کی انکوائری میں پتا چلا کہ دسیوں ہزاروں شہریوں کا اتہ پتہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ شمار میں نہیں لائے جا سکے۔
اس خودمختار بین الاقوامی کمیشن کے پاس مارچ 2011 میں اس تنازع کے آغاز سے شام میں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کی تفتیش کرنے اور انہیں ریکارڈ کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کا مینڈیٹ ہے۔
تین رکنی پینل کی 30 سے زائد صفحات پر مشتمل، دس برس میں لی گئی 2,658 گواہیوں پر مبنی رپورٹ، میں 100 سے زائد قیدخانوں کی تحقیقات کی گئیں۔
اس میں پتا لگایا گیا کہ 2011 کے بعد سے شام میں علاقہٴ عملداری کو قابو میں رکھنے والے تقریباً ہر بڑے فریق نے حراست سے متعلقہ خلاف ورزیاں اور بدسلوکیاں کی ہیں۔
اس رپورٹ کے نتائج کی ایک ویڈیو پریزنٹیشن میں کہا گیا کہ، "کسی کے ہاتھ صاف نہیں"، جبکہ حوالہ دیا گیا کہ شامی حکومت نے "دوسروں سے کہیں زیادہ" لوگوں کو ظالمانہ طور پر حراست میں رکھا۔
اس رپورٹ میں بڑے پیمانے پر قید کیے جانے، غائب کیے جانے اور شامی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے جرائم اور بدسلوکیوں کے انداز کا حوالہ دیا گیا۔
اس میں تحریرالشام اور "دولتِ اسلامیہٴ" (داعش) سمیت مسلح گروہوں کی دورانِ حراست عادات کا بھی حوالہ دیا گیا۔
اس میں کہا گیا، "داعش اور تحریرالشام بھی آزادی سے محروم کرنے کے خلافِ انسانیت جرائم میں ملوث رہی ہیں، جبکہ داعش نے حراست کے ذریعے جزوی طور پر نسل کشی بھی کی ہے۔"
’سچائی کا حق‘
رپورٹ میں اس امر کو بھی خط کشیدہ کیا گیا کہ کیسے ظالمانہ حراست اور قید شام کے تنازع کا محرک اور ایک دائمی خصوصیت رہی ہے۔
اس میں کہا گیا، "شام میں دسیوں ہزاروں افراد کسی نہ کسی وقت غیر قانونی طور پر اپنے حقِ آزادی سے محروم کیے گئے ہیں۔"
"ظالمانہ حراست اور قید کو عمداً شہری آبادی میں خوف طاری کرنے اور اختلافِ رائے کو دبانے یا بعض اوقات مالی فائدہ کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ مسلح گروہوں نے مذہبی اور نسلی اقلیتی گروہوں کو بھی ہدف بنایا ہے۔"
رپورٹ میں زور دیا گیا کہ تنازع کے گیارہویں برس میں داخل ہونے کے بعد بھی قیدیوں کے ساتھ بدنامِ زمانہ قیدخانوں میں بدسلوکی جاری ہے۔
کمیشن نے کہا، "ان قیدیوں نے ناقابلِ تصور تکالیف اٹھائی ہیں۔"
"شامی حکومتی افواج کی جانب سے جبراً اٹھا لیے جانے والے دسیوں ہزاروں شہریوں، جن میں سے متعدد کو ایک دہائی قبل اٹھایا گیا تھا، کا مستقبل تاحال نامعلوم ہے۔ متعدد کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یا تو وہ مر چکے ہیں یا انہیں قتل کر دیا گیا ہے۔"
کمیشن کے سربراہ پاؤلو پِنہیئرو نے کہا، "لاکھوں اہلِ خانہ کو اپنے پیاروں کے مستقبل کے بارے میں سچ جاننے کا استحقاق حاصل ہے۔"
انہوں نے کہا، "یہ ایک قومی صدمہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے فریقین اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے کاروائی کی فوری ضرورت ہے۔"
’وحشیانہ طریقے‘
کمشنر کیرین کوننگ ابو زائد نے کہا کہ ماسوائے چند استثناء کے، تنازع کے فریقین اپنی ہی افواج کی تحقیقات نہ کر سکے، معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ارتکاز قیدخانوں میں کیے جانے والے جرائم کی چھان بین کرنے کے بجائے انہیں چھپانے پر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ شامی حکومی یا حکومت موافق افواج کی جانب سے حراست میں لیے گئے آدمی، عورتوں، لڑکوں اور لڑکیوں کو غیر انسانی سلوک اور بشمول آبروریزی، تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا، "حکومتِ شام کی جانب سے تشدد کے لیے استعمال کیے گئے کم از کم 20 مختلف وحشیانہ طریقوں کو داخلِ دستاویز کیا گیا۔"
"ان میں بجلی کے جھٹکے دینا، جسم کے حصوں کو جلایا جانا، ناخن اور دانت نکالے جانا، پھانسی دینے کا کھیل رچانا، قیدیوں کو کار کے ٹائر میں تہہ کر دینا اور افراد کو طویل وقت تک مسلوب کرنا یا ایک یا دونوں بازوؤں سے لٹکا دینا شامل ہیں، اکثر اس کے ساتھ ساتھ شدید ذودوکوب بھی کیا جاتا ہے۔"
اس رپورٹ میں تنازع کے تمام فریقین کو خلاف ورزیاں روکنے، قیدیوں کے مخصوص طبقات کو فوری طور پر رہا کرنے اور قیدخانوں کی آزادانہ نگرانی کا مطالبہ کیا گیا۔
11 مارچ کو اس کے نتائج اقوامِ متحدہ کی کاؤنسل برائے حقوقِ انسانی کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔
اس رپورٹ میں اس کی جانب سے نمایاں کیے گئے جرائم کے احتساب کو یقینی بنانے کے لیے تجاویز دی گئیں—جس میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ اقوامِ متحدہ کی رکن ریاستیں افراد کے خلاف قانونی کاروائی کے لیے مؤثر قانون سازی کریں۔
اس میں 24 فروری کو کوبلینز، جرمنی میں شامی حکومت کے ایک سابق عہدیدار کو سزا دیے جانے کی جانب اشارہ کیا گیا، جو تشدد اور آزادی سے محروم کرنے کی صورت میں انسانیت کے خلاف جرائم میں معاونت اور مدد کرنے کا مجرم قرار پایا تھا۔