جرم و انصاف

پاکستان-ایران سرحد پر زبردست فائرنگ کے بعد کشیدگی میں اضافہ

پاکستان فارورڈ

ساراوان میں مظاہرین نے 23 فروری کو ایک پولیس کار کو آگ لگا دی، اس سے ایک دن پہلے ایندھن لے جانے والوں کو آئی آر جی ایس اور سرحدی فورسز نے ہلاک کر دیا تھا۔ [Rokna.net]

ساراوان میں مظاہرین نے 23 فروری کو ایک پولیس کار کو آگ لگا دی، اس سے ایک دن پہلے ایندھن لے جانے والوں کو آئی آر جی ایس اور سرحدی فورسز نے ہلاک کر دیا تھا۔ [Rokna.net]

پاکستان -ایران سرحد پر، سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی ایس) کی طرف سے گزشتہ ہفتے وسیع پیمانے پر، عام شہریوں کو فائرنگ سے ہلاک کرنے کے بعد، پیر (یکم مارچ) کو کشیدگی جاری رہی۔

گزشتہ پیر کو، سیکورٹی فورسز اور آئی آر جی سی کے ارکان نے ایران- پاکستان سرحد پر ساراوان کے قصبے کے قریب، بہت سے ایندھن برداروں پر فائرنگ کر دی تھی۔

آئی آر جی سی نے ایک سڑک کو بلاک کر دیا جو ایندھن کی نقل و حرکت کے لیے استعمال ہوتی تھی اور بظاہر بعد میں ان ایرانی شہریوں پر فائرنگ کر دی جو راستے کو کھولنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ بات ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے بتائی ہے۔

ایچ آر ڈبلیو نے بلوچ کارکنوں کے حوالے سے کہا کہ اس فائرنگ میں کم از کم 10 افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے تاہم ہلاک ہونے والوں کی تعداد دوسرے تخمینوں میں اس سے کہیں زیادہ ہے۔

مقامی ساراوان، گورنر کی عمارت کے سامنے مظاہرہ کر رہے ہیں، جس پر انہوں نے بعد میں، 23 فروری کو دھاوا بول دیا۔ [عصرِ ایران]

مقامی ساراوان، گورنر کی عمارت کے سامنے مظاہرہ کر رہے ہیں، جس پر انہوں نے بعد میں، 23 فروری کو دھاوا بول دیا۔ [عصرِ ایران]

ایرانی شہری اگست 2007 کو، زاہدان، سیستان و بلوچستان صوبہ میں ایک پائپ لائن کے پاس سے گزر رہے ہیں، جو کہ ان کے ملک کا غریب ترین علاقہ ہے۔ [اے ایف پی فوٹو/ ایس ٹی آر/ اثناء]

ایرانی شہری اگست 2007 کو، زاہدان، سیستان و بلوچستان صوبہ میں ایک پائپ لائن کے پاس سے گزر رہے ہیں، جو کہ ان کے ملک کا غریب ترین علاقہ ہے۔ [اے ایف پی فوٹو/ ایس ٹی آر/ اثناء]

منگل کو، مقامی شہریوں کی بڑی تعداد، جس میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے خاندان بھی شامل تھے، نے ساراوان میں گورنر کی عمارت پر دھاوا بولنے اور ایک پولیس کار کو آگ لگا کر اس فائرنگ پر ردعمل کا اظہار کیا۔ بدھ کو بھی احتجاج جاری رہا۔

اگرچہ حکام نے جمعرات کو کہا کہ ساروان میں صورتِ حال "قابو" میں ہے، مگر موبائل انٹرنیٹ کنیکشنز کی مسلسل غیر موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو مزید ہنگاموں کو خطرہ ہے۔

ڈیجیٹل حقوق کے ایک محقق نے خبر دی ہے کہ بہت سے موبائل نیٹ ورک آپریٹرز نے صوبہ کے مختلف حصوں، جن میں زاہدان اور ساراوان بھی شامل ہیں، میں انٹرنیٹ تک رسائی کو بند کر دیا۔

ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، صوبہ کے 95 فیصد سے زیادہ انٹرنیٹ صارفین موبائل سروس پر انحصار کرتے ہیں۔ بہت سے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ حکام نے مظاہروں کی روشنی میں، علاقے میں انٹرنیٹ تک رسائی میں خلل ڈالنے کا حکم دیا ہے۔

فارسی زبان کے تارکینِ وطن ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ متاثرین کو دفنانے کے بعد، آئی آر جی سی نے علاقے میں، جس میں زاہدان بھی شامل ہے، سیکورٹی کو سخت کر دیا۔ جمعہ کو زاہدان میں آئی آر جی سی کی مددگار فورسز پہنچ گئیں۔

ایچ آر ڈبلیو، ایمنسٹی کی طرف سے حملے کی مذمت

ایچ آر ڈبلیو نے ایران سے مطالبہ کیا کہ وہ سرکاری سیکورٹی فورسز کی تفتیش کرے اور اس نے پیر کو ہونے والی فائرنگ میں بے جا قوت استعمال کرنے کا الزام لگایا ہے۔

ایچ آر ڈبلیو کی ایران کی محقق تارا سیپریفر نے کہا کہ "ایرانی حکام کو ساراوان کی سرحد پر ہونے والی فائرنگ کی، فوری طور پر ایک شفاف اور غیر جانب دارانہ تفتیش کرنی چاہیے"۔

"حکام کو غلط کام کرنے والوں کا محاسبہ کرنا چاہیے، متاثرین کو مناسب معاوضہ ادا کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ سرحدی گارڈ جینے کے حق اور دیگر انسانی حقوق کا احترام کرنے کے لیے انتہائی زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کر رہے ہیں"۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 24 فروری کو سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ میں اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ "ایران کے اندر سے انتہائی پریشان کن فوٹیج اور خبریں سامنے آئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے سیستان اور بلوچستان صوبہ میں ایندھن کے قُلیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے"۔

اس میں کہا گیا کہ وہ اس واقعہ کی تفتیش کر رہی ہے۔

اے ایف پی نے خبر دی ہے کہ صوبائی نائب گورنر محمد ہادی مراشی نے کہا کہ فائرنگ کو آغاز سرحد کی پاکستانی طرف سے ہوا اور ایک شخص ہلاک اور چار زحمی ہو گئے۔

ایندھن لے جانے والے

ساراوان پسماندہ اور بنجر، سیستان و بلوچستان صوبہ کا ایک بڑا قصبہ ہے۔ اس کے بہت سے شہری بلوچ نسلی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں جو کہ پاکستان اور افغانستان کے ہمسایہ علاقوں میں بھی قیام پذیر ہیں۔

یہ صوبہ طویل عرصے سے، ایرانی حکومت کے لیے سیکورٹی کے حوالے سے دردِ سر رہا ہے۔

اگرچہ جنوبی ایرانی سرحد کے پار ایندھن لے جانا کوئی نئی پیش رفت نہیں ہے مگر ایران کی کرنسی کی قدر میں انتہائی زیادہ کمی اور اس کے نتیجہ میں غیر ملکی کرنسی کی قدر میں ہونے والے اضافے کے باعث، اس میں سیستان و بلوچستان صوبہ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

حکومت کی بھاری سبسڈیز کے باعث ایران مین ایندھن غیر معمولی طور پر سستا ہے۔

سیستان و بلوچستان کی خراب معاشی حالت، انتہائی زیادہ بے روزگاری کی شرح اور واضح غربت کے باعث، بہت سے مقامی افراد ایرانی ایندھن کو منافع کے لیے پاکستان میں فروخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے حکومتی اہلکار انکار نہیں کرتے ہیں۔

یہاں تک کہ، مقامی پولیس اور سرحدی پیٹرول فورسز نے حال ہی میں کہا تھا کہ انہیں ایندھن کے باربرداروں کو گولی نہ مارنے کا حکم ملا ہے۔ تاہم یہ غیر واضح ہے کہ پیر کو سیکورٹی فورسز نے ان میں سے بہت سوں پر فائرنگ کیوں کی۔

شہری، وہ واحد فریق نہیں ہیں جنہیں ایندھن کی فروخت سے فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ ایندھن کو، سیستان و بلوچستان صوبہ سے پک اپ ٹرکوں پر لاد کر بڑی مقدار میں باقاعدگی سے باہر لے جایا جاتا ہے اور ان کے ڈرائیور، آئی آر جی سی کے حکام کے ساتھ اپنے تعلقات کے باعث، کسی روک ٹوک کے بغیر سرحد پار کر لیتے ہیں۔

اس کے برعکس، صوبہ کے شہری ایندھن کو بڑے ڈبوں میں لے کر جاتے ہیں اور پیدل سرحد پار کر کے، پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ جو منافع کماتے ہیں، اگرچہ کافی ہوتا ہے مگر وہ آئی آر جی سی سے منسلک ایندھن لے جانے والوں کی طرف سے کمائے جانے والے منافع کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔

کچھ عرصہ پہلے، آئی آر جی سی نے پاکستانی سرحد کے ساتھ ساتھ، صوبہ میں بہت سے گیس اسٹیشن کھولے تھے اور اعلان کیا تھا کہ وہ مقامی شہری جو سرحد کے ساتھ 20 کلومیٹر کے اندر رہتے ہیں، کو منافع کے لیے ایندھن بیچنے کے لیے مختص شدہ مقدار ملے گی۔ یہ بات بلوچ سرگرم کارکن حبیب اللہ سربازی نے ریڈیو فردہ کو بتائی۔

سربازی نے نظریہ پیش کیا کہ پیر کے واقعہ کے بعد، آئی آر جی سی ایندھن کی ترسیل اور فروخت کو اپنی فورسز اور ملحقین تک محدود کرنا چاہتی ہے۔ تاہم حکام نے پالیسی میں کسی تبدیلی کا اعلان نہیں کیا ہے۔

بلوچ شہریوں پر کریک ڈاؤن

ساراوان کے مظاہروں پر کریک ڈاؤن، جُزوی طور پر بلوچ آبادی کی اکثریت کا سُنی ہونے سے جڑا ہے ۔ حکومت بلوچ کارکنوں پر مسلسل "خلل ڈالنے والے غیر ملکی سیاسی گروہوں" سے متاثر ہونے کا الزام لگاتی رہتی ہے۔

حکومت کے حکام نے اس شورش کا الزام جمعرات کو "غیر ملکی اسلامی جمہوریہ مخالف گروہوں" پر لگایا اور انہیں شورش کی "راہنمائی اور سربراہی" کرنے کا ملزم ٹھرایا۔

حکومت نے آئی آر جی سی کی طرف سے ہلاک اور زخمی کیے جانے والے افراد کی کوئی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

بلوچ کارکنوں نے کریک ڈاؤن پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ساراوان کے مظاہرین، مذہبی اقلیت ہونے کے باعث عام طور پر دباؤ اور پابندیوں کا شکار رہتے ہیں۔

ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ سیستان و بلوچستان میں ملازمت کے مواقع کی کمی نے بلوچ نسل آبادی کے پاس، سرحد پار ساتھی بلوچوں کے ساتھ بیلک مارکیٹ میں تجارت کرنے کے علاوہ بہت کم متبادل ہیں۔

واچ ڈاگ نے کہا کہ چونکہ سیستان و بلوچستان میں غربت ویسی ہی ہے جیسی مغربی آزربائیجان کے ایرانی صوبہ اور شمالی عراق کے کردش علاقے میں، اس لیے "معاشی مواقع کی کمی نے سیستان و بلوچستان کے بہت سے شہریوں کو سرحد پار، پاکستان کے ساتھ غیر قانونی تجارت میں ملوث ہونے پر مجبور کر دیا ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500