سلامتی

شام میں ایرانی پشت پناہی کی حامل ملیشیاؤں پر امریکی حملے 'دوٹوک پیغام' ہیں

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

3 فروری 2021 کو امریکی ایف-15 طیارے مشرقِ وسطیٰ کے اوپر پرواز کرتے ہوئے۔ [سینٹکام]

3 فروری 2021 کو امریکی ایف-15 طیارے مشرقِ وسطیٰ کے اوپر پرواز کرتے ہوئے۔ [سینٹکام]

جمعرات (25 فروری) کے روز امریکی فوج نے مشرقی شام میں ایرانی پشت پناہی کی حامل ملیشیاؤں کو نشانہ بنا کر کم از کم 22 جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا، جس کے بارے میں پینٹاگون کا کہنا ہے کہ یہ عراق میں امریکی افواج کو ہدف بنانے کے لیے کیے گئے حالیہ راکٹ حملوں کے بعد نئی انتظامیہ کی جانب سے ایک پیغام تھا۔

جو بائیڈن کے صدر بننے کے بعد سے ایران کے ساتھ منسلک گروہوں کے خلاف اپنی پہلی عسکری کارروائی میں، پینٹاگون نے کہا کہ اس نے ایرانی پشت پناہی کے حامل گروہوں کی جانب سے استعمال کردہ شام-عراق سرحد پر ایک کنٹرول پوائنٹ پر فضائی حملے کیے تھے، جن میں "کئی عمارتیں" تباہ کر دی گئیں۔

ایک بیان میں پینٹاگون کے ترجمان جان کربے کا کہنا تھا کہ امریکی حملے، جو جمعرات کی رات کو "صدر بائیڈن کے حکم پر" کیے گئے تھے ان میں "مشرقی شام میں ایرانی پشت پناہی کے حامل عسکری گروہوں کی جانب سے استعمال کردہ بنیادی ڈھانچے" کو تباہ کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا، "ان حملوں کی منظوری عراق میں امریکی اور اتحادی افواج پر حالیہ حملوں، اور ان افواج کو لاحق جاری خطرات کے جواب میں دی گئی۔"

27 اکتوبر 2020 جو شام میں امریکی فوجی۔ [سینٹکام]

27 اکتوبر 2020 جو شام میں امریکی فوجی۔ [سینٹکام]

ان کا کہنا تھا، "خاص طور پر، فضائی حملوں میں ایرانی پشت پناہی کے حامل عسکری گروہوں، بشمول کتیب حزب اللہ اور کتیب سید الشہداء، کے ارکان کی جانب سے استعمال کردہ سرحدی کنٹرول پوائنٹ پر واقع کئی عمارات کو تباہ کیا گیا۔"

کربے نے کہا، "یہ متناسب عسکری ردِعمل سفارتی اقدامات کے ساتھ ملا کر دیا گیا، جس میں اتحادی ممالک کے ساتھ مشاورت بھی شامل تھی۔"

انہوں نے مزید کہا، "اس کارروائی سے ایک دو ٹوک پیغام دیا گیا ہے: صدر بائیڈن امریکی اور اتحادی افواج کے تحفظ کے لیے کارروائی کریں گے۔ دوسری جانب، ہم نے ایک سوچے سمجھے انداز میں کارروائی ہے جس کا مقصد مشرقی شام اور عراق دونوں میں مجموعی صورتحال میں کشیدگی کو کم کرنا ہے۔"

شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نے کہا کہ کم از کم 22 جنگجو اس وقت مارے گئے جب شامی سرحدی شہر البو کمال کے قریب حملے کیے گئے۔

آبزرویٹری کا کہنا تھا کہ ملیشیا کی سرحدی چوکیوں کو بھی تباہ کیا گیا۔

اس نے کہا کہ تمام ہلاک ہونے والوں کا تعلق عراقی کتیب حزب اللہ اور اس سے ملتے جلتے گروہوں سے تھا۔

کربے نے کہا کہ یہ مقام ایران کے ساتھ منسلک دو عراقی ملیشیاؤں، کتیب حزب اللہ اور کتیب سید الشہداء کی جانب سے استعمال کیا جا رہا تھا۔

راکٹ حملوں کا بدلہ

امریکی کارروائی عراق میں "دولت اسلامیہ" (داعش) کے خلاف لڑ رہی امریکی اور اتحادی افواج کی جانب سے استعمال کردہ عمارات پر تین راکٹ حملوں کے بعد کی گئی۔

شمالی عراق کے کُرد علاقے میں اربیل ہوائی اڈے پر ایک فوجی عمارت میں 15 فروری کو ہونے والے حملے میں ایک عام شہری اور اتحادی افواج کے ساتھ کام کر رہا ایک غیر ملکی ٹھیکیدار ہلاک ہو گئے تھے، اور کئی امریکی ٹھیکیدار اور ایک فوجی زخمی ہوئے تھے۔

عراق میں حملوں نے نئی بائیڈن انتظامیہ کے لیے بالکل اس وقت ایک مشکل صورتحال پیدا کر دی تھی جب اس نے تہران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام پر بات چیت دوبارہ شروع کرنے کے لیے ابھی دروازہ کھولا ہی تھا۔

گزشتہ ہفتے، انتظامیہ نے یورپی اتحادیوں کی سربراہی میں ایران کے ساتھ مذاکرات کی پیشکش کی تھی کیونکہ یہ سنہ 2015 کے جوہری معاہدے کی طرف ممکنہ واپسی پر غور کر رہا ہے، جو جوائنٹ کمپری ہنسو پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کہلاتا ہے۔

لیکن انتظامیہ نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ یہ ایران کی جانب سے خطے میں "بدنام کرنے والی سرگرمیوں" کو برداشت نہیں کرے گی۔

ایک پراسرار گروہ جو خود کو اولیاء الدم (خون کے سرپرست) کہتا ہے نے اربل حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، مگر امریکی اور عراقی دفاعی اہلکاروں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ یہ ایران کی حامی ممتاز ملیشیاؤں کے لیے ایک فرنٹ گروپ کے طور پر کام کرتا ہے۔

امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے کتیب حزب اللہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔

جمعرات کو ہونے والے فضائی حملے کے متعلق انہوں نے کہا، "ہم جس ہدف کے تعاقب میں گئے تھے اس پر پُراعتماد ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے کسے نشانہ بنایا ہے۔" ان کا مزید کہنا تھا کہ شام میں ہدف اسی ملیشیا کی جانب سے استعمال کیا جا رہا تھا جس نے عراق میں امریکی مفادات پر "حملے کیے تھے"۔

سوموار کے روز امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ امریکہ "ایران کو اس کی ان پراکسیز کی کارروائیوں کے لیے موردِالزام ٹھہرائے گا جو امریکیوں پر حملہ کریں گی" مگر "اچانک حملہ" نہیں کریں گے اور عراق کو عدم استحکام سے دوچار ہونے کے خطرے میں نہیں ڈالیں گے۔

المانیٹر نے خبر دی کہ جنرل کینتھ میکنزی، جو امریکی سینٹرل کمانڈ (سینٹکام) کے سربراہ ہیں، نے بیروت انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام ایک خیالی فورم کے دوران، بدھ کے روز ایران کو اربل اور سعودی عرب پر حملوں کے متعلق ایسی ہی ایک تنبیہ جاری کی تھی۔

میکنزی نے کہا کہ وہ اس بات کو ایرانی حکام کے لیے "بہت خطرناک" سمجھتے ہیں کہ وہ تصور کر لیں کہ حالیہ ہفتوں میں ایسے حملوں میں اضافے کو "کسی طریقے سے ایرانی پالیسی کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا"۔

میکنزی نے کہا، "ہمیں یقین ہے کہ اس سب کے تانے بانے آخر میں ایران سے ہی جا ملتے ہیں۔"

ہتھیاروں کی اسمگلنگ کا راستہ

رسدگاہ کے ذرائع کے مطابق، ایرانی افواج اور ان کی پراکسیز حملے کے فوراً بعد البو کمال میں کئی چوکیوں اور ہیڈکوارٹرز کو خالی کر دیا، اور بعد میں ہونے والے حملوں کا نشانہ بننے کے خوف سے دوسری جگہوں پر تعینات کر دیا۔

سوموار کے روز، "قابلِ اعتماد ذرائع" نے رسدگاہ کو بتایا، فاطمیون ڈویژن -- ایک ملیشیا جو افغان جنگجوؤں پر مشتمل ہے اور آئی آر جی سی کی قدس فورس کے مرحوم کمانڈر قاسم سلیمانی کی جانب سے بنائی گئی تھی -- مغربی فرات کے علاقے میں اپنی چوکیوں پر ہتھیاروں کی نئی رسد لا رہی تھی۔

ذرائع نے کہا کہ نئی رسد، جس میں گولے، میزائل اور گولیاں شامل تھیں، عراق سے سبزیوں کے ٹرکوں میں لد کر شام میں، ایک غیر قانونی کراسنگ سے داخل ہوئی تھی۔

ٹرکوں کا رخ مشرقی دیر ایزور میں المایادین کے مضافاتی علاقے المزارے کی طرف تھا، جہاں ایرانی پشت پناہی کی حامل ملیشیاؤں کی اکثریت ہے، اور رسد کو سرنگوں میں ذخیرہ کر دیتی یں جو داعش نے علاقے میں اپنے تسلط کے دوران کھودی تھیں۔

رسدگاہ نے کہا کہ ایسی ہی رسدوں کی اطلاعات حالیہ ہفتوں میں بھی ملی ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500