صحت

بین الاقوامی تحقیقات میں چین پر کووڈ-19 کے ماخذوں کے متعلق معلومات کو دبانے کا الزام

از پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے ماہرین کی ایک بین الاقوامی ٹیم کی جانب سے دورے کا اختتام کرنے کے لیے 9 فروری کو ووہان، چین میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران پیٹر بین امبارک بات چیت کرتے ہوئے۔ [ہیکٹر ریتامل/اے ایف پی]

عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے ماہرین کی ایک بین الاقوامی ٹیم کی جانب سے دورے کا اختتام کرنے کے لیے 9 فروری کو ووہان، چین میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران پیٹر بین امبارک بات چیت کرتے ہوئے۔ [ہیکٹر ریتامل/اے ایف پی]

بیجنگ -- چینی حکام نے عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تفتیش کاروں کو کووڈ-19 کے ابتدائی کیسز پر خام کوائف دینے سے انکار کر دیا ہے، جس سے عالمی وباء کے ماخذ پر تحقیق کرنے والے ماہرین کی بین الاقوامی ٹیم مایوس ہو گئی ہے۔

کورونا وائرس کے ماخذوں کے متعلق کئی مہینوں کی تردیدوں، جھوٹوں، دانستہ تاخیری حربوں اور بدحواسی کے بعد چین کی شفافیت میں کمی حیران کن نہیں ہے.

چینی حکومت کا دوبارہ تاریخ رقم کرنا، اور اس کے نتیجے میں اس کردار کی پردہ پوشی کرنا جو اس کے جھوٹوں نے مہلک بیماری کے پھیلاؤ میں ادا کیا تھا، سب سے پہلے ووہان -- عالمی وباء کے مرکز میں وقوع پذیر ہوئی تھی.

گزشتہ ہفتے ڈبلیو ایچ او کی ٹیم نے بغیر کسی فیصلہ کن نتیجے کے اپنے ووہان کے ایک مہینہ طویل مشن کا اختتام کر دیا۔

ووہان، چین کے مرکزی ہوبئی صوبہ، میں ایک ہسپتال میں 7 فروری 2021 کو محکمۂ صحت کا ایک اہلکار کووڈ-19 کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرنے کے لیے ایک آدمی کا نمونہ لیتے ہوئے۔ [ہیکٹر ریتامل/اے ایف پی]

ووہان، چین کے مرکزی ہوبئی صوبہ، میں ایک ہسپتال میں 7 فروری 2021 کو محکمۂ صحت کا ایک اہلکار کووڈ-19 کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرنے کے لیے ایک آدمی کا نمونہ لیتے ہوئے۔ [ہیکٹر ریتامل/اے ایف پی]

24 دسمبر 2020 کو لی گئی اس تصویر میں دکھایا گیا شنگھائی میں کرسمس کی شام ایک شاپنگ مال کمپلیکس کے باہر روشن کیے ہوئے کرسمس کی مناسبت سے ایک تنصیب کے سامنے چین کے لوگ بغیر ماسک پہنے سیلفیاں لے رہے ہیں۔ [ایس ٹی آر / اے ایف پی]

24 دسمبر 2020 کو لی گئی اس تصویر میں دکھایا گیا شنگھائی میں کرسمس کی شام ایک شاپنگ مال کمپلیکس کے باہر روشن کیے ہوئے کرسمس کی مناسبت سے ایک تنصیب کے سامنے چین کے لوگ بغیر ماسک پہنے سیلفیاں لے رہے ہیں۔ [ایس ٹی آر / اے ایف پی]

پیٹر بین امبارک، جو ووہان میں ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کے مشن کے سربراہ ہیں، نے اے ایف پی کو بتایا، "ہم مزید کوائف لینا چاہتے تھے۔ ہم نے مزید کوائف طلب کیے تھے۔"

انہوں نے کہا، "ایک ملی جلی سی مایوسی ہوئی ہے مگر وقت کے اس عرصے میں کیا کچھ ممکن تھا اس لحاظ سے حقیقت پسندانہ توقعات بھی ملی جلی ہیں۔"

بین امبارک نے کہا کہ ٹیم بیماری کے ابتدائی کیسز کے متعلق خام کوائف تک رسائی کرنا چاہتی تھی، بشمول نمونیہ، زکام اور بخار، جو قابلِ فہم طور پر کووڈ ہو سکتا تھا۔

مشن سے قبل، چینی سائنسدانوں نے اپنے نظاموں کی جانچ پڑتال کی تھی اور اکتوبر اور دسمبر کے درمیان 72،000 ایسے کیسز کی شناخت کی تھی۔

انہوں نے کسوٹیوں کے کئی مجموعوں کا اطلاق کیا تھا یہ تعین کرنے کے لیے آیا کہ کیسز ممکنہ طور پر کووڈ کے ہو سکتے ہیں، جن میں سے محض 92 کیسز کی ایک فہرست نکالی جو انہوں نے قابلِ معائنہ تصور کیے تھے۔

بین امبارک نے کہا، مگر استعمال کردہ مخصوص کسوٹی ٹیم کی جانب سے طلب کرنا بے فائدہ رہا۔

انہوں نے کہا، "ہم اس عمل کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے 72،000 کم ہو کر 92 رہ گئے،" ان کا کہنا تھا کہ درخواست کردہ خام کوائف تک رسائی "کم سخت کسوٹی" کے اطلاق کو ممکن بنا دیتا "تاکہ ہمارے پاس کام کرنے کے لیے تعداد زیادہ ہو جاتی"۔

ان میں سے تقریباً ایک تہائی مریض یا تو مر گئے یا انہوں نے مطالعہ میں حصہ لینے سے انکار کر دیا، جبکہ چینی حکام نے حالیہ مہینوں میں 67 مریضوں پر اینٹی باڈی سیرولوجی ٹیسٹ انجام دیئے۔ وہ سبھی کووڈ-19 کے لیے واپس منفی آ گئے۔

ڈبلیو ایچ او کے کئی ماہرین نے ایک ممکنہ انفیکشن کے اتنی دیر بعد ٹیسٹوں کے قابلِ بھروسہ ہونے پر سوال اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ تاخیر کے دوران اینٹی باڈیز دھیمے ہو کر ناقابلِ سراغ سطحات پر پہنچ سکتے تھے۔

تنی ہوئی سفارتی رسی

ٹیم کے ارکان کو تنی ہوئی سفارتی رسی پر چلنا پڑا۔

امریکہ، برطانیہ اور دیگر ممالک ڈبلیو ایچ او کی ٹیم کو ووہان بھیجنے میں تاخیر کے سخت ناقد رہے ہیں، جس میں مشن پہلا کیس سامنے آنے کے ایک سال سے زائد عرصے بعد گیا ہے۔

ہفتہ (13 فروری) کو، امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیوان نے چینی حکومت کی کووڈ-19 کی تحقیقات پر "گہری تشویش" کا اظہار کیا اور اس سے "وباء کے ابتدائی دنوں کے اپنے اعدادوشمار دستیاب بنانے" کا مطالبہ کیا۔

ڈبلیو ایچ او کے تفتیش کاروں نے اپنے حقائق کی تلاش کے مشن کی توقعات پر یہ کہہ کر مٹی ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ ابتدائی تحقیق محض ۔۔۔ ایک آغاز تھا۔

لیکن ایک سال کے انتظار اور آخر چین میں چار ہفتے جسے کچھ لوگ سختی کے ساتھ کنٹرول کردہ تعلقاتِ عامہ کے دورے کے طور پر دیکھتے ہیں، نے صرف مزید سوالات ہی اٹھائے ہیں اور چین اور باقی دنیا کے درمیان مزید تناؤ پیدا کر دیا ہے۔

سچائی کو تلاش کرنے میں تعاون کرنے کی بجائے، چینی حکام نے الزامات کا رخ موڑنے اور چین کے "ہیروآنہ" ردِعمل اور معاشی بحالی پر توجہ مرکوز کی ہے۔

بیجنگ نے بارہا یہ نظریات پھیلائے ہیں کہ وائرس چین میں جمی ہوئی سمندری خوراک جیسی مصنوعات کے ڈبوں میں لایا گیا تھا -- جسے ڈبلیو ایچ او نے خارج از امکان نہیں کیا -- یا بغیر ثبوت کے یہ کہنا کہ وائرس اٹلی یا امریکہ سے شروع ہوا تھا.

ماہرین کا کہنا ہے کہ بیماری چمگادڑوں میں شروع ہوئی اور دوسرے ممالیہ جانوروں کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوئی ہو سکتی ہے۔

12 فروری کو جنیوا میں ایک نیوز کانفرنس میں بین امبارک کے ہمراہ، ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل تیدروس ادھانوم گبرییسوس نے "بہت مشکل حالات میں بہت اہم سائنسی مشق" انجام دینے پر ٹیم کو سراہا۔

انہوں نے کہا، "کچھ سوالات اٹھائے گئے ہیں آیا کہ کچھ مفروضات کو رد کیا گیا ہے،" ان کا مزید کہنا تھا، "تمام مفروضات اپنی جگہ موجود ہیں۔"

تیدروس نے کہا، "کچھ کام اس مشن کو تفویض کردہ کام اور اس کی حد سے باہر ہو سکتا ہے۔ ہم نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ اس مشن کو تمام جوابات نہیں ملیں گے، مگر اس نے اہم معلومات کا اضافہ کیا ہے جو ہمیں وائرس کے ماخذوں کو سمجھنے کے زیادہ قریب لے جاتی ہیں۔"

'کسی پر بھی بھروسہ مت کرو'

12 فروری کو دی وال سٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مگر چینی حکام ڈبلیو ایچ او کی کووڈ-19 کے ان 174 کیسز کے کوائف فراہم کرنے کی درخواست کو رد کر کے تحقیقات میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں جنہیں چینیوں نے ووہان میں وباء کے ابتدائی مراحلے پر شناخت کیا تھا۔

چینی حکام اور سائنسدانوں نے ووہان میں وباء کی شناخت ہونے سے پہلے کے مہینوں میں طبی ریکارڈز کے ذریعے کیسز کے کوائف کے جامع خلاصے اور تجزیات فراہم کیے اور جمع کردہ کوائف فراہم کیے اور ماضی کی تلاشوں پر تجزیات فراہم کیے۔

ٹیم کے ارکان نے کہا کہ تاہم ڈبلیو ایچ او کی ٹیم کو خام ضمنی کوائف کو دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی، جو اسے اپنا آزادانہ تجزیہ کرنے کے قابل بناتا۔

ڈبلیو ایچ او کی ٹیم میں شامل ایک آسٹریلوی ماہرِ حیاتیات ڈومنک ڈویئر نے کہا، "انہوں نے ہمیں کئی مثالیں دکھائیں، مگر وہ ان سب کو کرنے کی طرح نہیں ہے، جو کہ معیاری وبائی تحقیقات میں ہوتا ہے۔"

ٹیم کے ارکان کا کہنا تھا کہ ایسے کوائف فراہم کرنا -- جو گمنام مگر منقسم ہوں -- ڈبلیو ایچ او کی تحقیقات کے جزو کے طور پر ایک عام مشق ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے کچھ تفتیش کاروں نے تفصیلات کی کمی پر سخت جملوں کا تبادلہ بھی کیا۔

ڈبلیو ایچ او کے تفتیش کاروں میں سے ایک، ڈینش ماہرِ وبائیات تھیا فشر نے 9 فروری کو کہا، "بعض اوقات جذبات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ میں ایک سائنسدان ہوں، اور مجھے کوائف پر بھروسہ ہے۔ مجھے کوائف پر مبنی دستاویزی ثبوت پر بھروسہ ہے؛ مجھے اس پر بھروسہ نہیں ہے جو مجھے کوئی زبانی کلامی کہہ دے۔"

انہوں نے کہا، "وائرس بلاشبہ آبادی میں پہلے کلینکل طور پر سنگین کیسز کے معلوم ہونے سے قبل پھیل گیا تھا۔"

فشر نے کہا، "اس مفروضے پر بہت زیادہ دباؤ ہے کہ یہ یہاں ووہان میں شروع ہوا، موسمی بیماری کے ساتھ جو دنیا بھر میں دستاویز بند کی گئی ہے، مگر ابھی تک، میرے خیال میں میں نے دنیا بھر میں دوسری جگہوں پر جو سائنسی ثبوت دیکھا ہے اس کا کسی بھی طرح اس سے موازنہ نہیں ہوتا۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500