سلامتی

امن- 21 نے پاکستان کو سلامتی کے لیے ایک بڑی بین الاقوامی کاوش کا مرکزی کردار بنا دیا

ضیاء الرّحمٰن

30 جنوری کو پاک بحریہ کی جانب سے ٹویٹر پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو سے لیے گئے سکرین شاٹ میں، پاکستانی جنگی بحری بیڑے دکھائے گئے ہیں۔ یہ بحریہ 11-16 فروری کو ہونے والی کثیر ملکی امن- 21 مشقوں کی میزبانی کرے گی۔

30 جنوری کو پاک بحریہ کی جانب سے ٹویٹر پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو سے لیے گئے سکرین شاٹ میں، پاکستانی جنگی بحری بیڑے دکھائے گئے ہیں۔ یہ بحریہ 11-16 فروری کو ہونے والی کثیر ملکی امن- 21 مشقوں کی میزبانی کرے گی۔

کراچی – پاکستان کراچی کے ساحل سے کچھ دور بحیرہٴ عرب میں 11 تا 16 فروری کثیر ملکی بحری مشقوں کی میزبانی کی تیاری کر رہا ہے۔

پاک بحریہ کے ایک ترجمان نے پاکستان فارورڈ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امن- 21 مشقوں میں شریک ممالک "امن کے لیے یکجا" کے مرکزی خیال کے تحت تعاون کریں گے۔

انہوں نے کہا، "بحری مشق منظم کرنے کا بنیادی مقصد، قیامِ امن اور خطے میں استحکام اور جوابی کاروائی کی استعداد میں بہتری ہے۔ یہ مشقیں شریک ممالک کو یکجا ہونے اور اپنے تعلقات بڑھانے کے لیے معاون ہیں۔"

پاکستان کے بیڑے کے کمانڈر ریئر ایڈمرل نوید اشرف نے پیر (8 فروری) کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ مشق علاقائی امن و استحکام، بحری عملداری میں دہشتگردی کے خلاف عہد، اور ایک محفوظ اور مستحکم بحری علاقہٴ عملداری برقرار رکھنے میں کردار ادا کرتی ہے۔

10 مارچ 2020 کو اسلام آباد میں یومِ پاکستان کی عسکری پریڈ سے قبل، ایک مشق کے دوران پاک بحریہ کے نگران طیارے ایک ربط میں پرواز کر رہے ہیں۔ [عامر قریشی / اے ایف پی]

10 مارچ 2020 کو اسلام آباد میں یومِ پاکستان کی عسکری پریڈ سے قبل، ایک مشق کے دوران پاک بحریہ کے نگران طیارے ایک ربط میں پرواز کر رہے ہیں۔ [عامر قریشی / اے ایف پی]

26 اگست، 2020 کو کراچی میں مون سون کی تیز بارشوں کے بعد، پاک بحریہ کے افسران سیلاب کی صورتِ حال کا معائنہ کر رہے ہیں۔ [آصف حسن / اے ایف پی]

26 اگست، 2020 کو کراچی میں مون سون کی تیز بارشوں کے بعد، پاک بحریہ کے افسران سیلاب کی صورتِ حال کا معائنہ کر رہے ہیں۔ [آصف حسن / اے ایف پی]

انہوں نے کہا کہ سب سے بڑھ کر یہ خطے اور خطے سے باہر، کی بحری افواج کے مابین مل کر کام کرنے کی صلاحیت کو بڑھاتی ہے۔

تعاون کی طویل روایت

امن- 21 مشقوں کی میزبانی سے سمندروں کی نگرانی میں بحری افواج کی معاونت کے لیے پاکستان کے کئی برسوں کے کام کو تسلسل ملتا ہے۔

2019 کے نومبر میں خلیج اومان میں پاک بحریہ نے انٹرنیشنل میری ٹائم ایکسرسائز 2019 میں شرکت کی۔

امریکی وزارتِ دفاع نے اس وقت کہا کہ اس مشق کا مقصد "علاقائی سلامتی و استحکام کو برقرار رکھنے، بحری سفر کی آزادی اور جنوب میں نہر سوئیز سے براستہ آبنائے ہرمز باب المندیب اور شمالی خلیج عرب تک تجارت کے آزادانہ بہاؤ کے لیے عالمی عزم کا مظاہرہ ہے۔"

امریکہ کی زیرِ قیادت، 33 ممالک کے ایک اتحاد، کمبائنڈ میری ٹائم فورسز (سی ایم ایف)، جس کا مقصد "کھلے سمندروں میں غیر قانونی غیر ریاستی عناصر کی انسداد کرتے ہوئے ۔۔۔ بین الاقوامی اصولوں پر مبنی حکمرانی قائم کرنا ہے"، کی ویب سائیٹ کے مطابق، پاکستان نے 2004 میں سی ایم ایف میں شمولیت اختیار کی۔

سی ایم ایف "بین الاقوامی پانیوں کے قریباً 32 لاکھ مربع میل علاقہ" کو تحفظ فراہم کرتی ہے اور اس کا صدر دفتر بحرین میں امریکی بحری چھاؤنی میں ہے۔

پاکستان سی ایم ایف کی تین میں سے دو ٹاسک فورسز میں شرکت کرتا ہے: سی ٹی ایف 150 جو خلیج سے باہر بحری سلامتی کو تحفظ فراہم کرتی ہے، اور سی ٹی ایف 151، جو بحری رہزنی سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔

ان ٹاسک فورسز کی کمان ہر چار سے چھ ماہ میں بدلتی ہے۔ پاک بحریہ نے متعدد بار ہر ٹاسک فورس کی کمان سنبھالی ہے۔

امن مشقوں کی نشوونما

2007 سے اب تک پاکستان ہر دوسرے برس امن مشقوں کی میزبانی کر رہا ہے۔

2017 کی مشقوں میں 37 ممالک شامل تھے اس میں جنگی بحری بیڑوں، ہیلی کاپٹروں اور دیگر جہازوں سے مشقیں شامل تھیں، جبکہ سپیشل آپریشن فورسز توپیں اور گہرائی میں وار کرنے والے اسلحہ (آبدوز شکن جنگی ہتھیار) چلانے جیسی بحری سرگرمیوں میں مصروفِ عمل رہیں۔

امن- 17 کے دوران بحری اور سیکیورٹی عملہ نے ایک دوسرے سے بحری رہزنی اور دہشتگردی کے خلاف لڑنے اور بحری سلامتی کو بہتر بنانے کے لیے نئی تکنیکیں سیکھی۔

فروری 2019 میں چھیالیس بحری افواج نے امن- 19 میں شرکت کی۔ ڈیفنس نیوز نے خبر دی کہ ان افواج نے مل کر"سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے بحرِ ہند" میں مشقیں کیں۔

اشرف نے کہا کہ رواں برس اس مشق میں سطح و فضا میں مار کرنے والے اثاثہ جات، سپیشل آپریشن فورسز، اور بحری ٹیموں اور مشاہدین کے ساتھ تقریباً 45 ممالک شرکت کریں گے۔

امن- 21 کے دو مراحل ہیں: بندرگاہ پر اور سمندر میں۔

انہوں نے کہا، "بندرگاہ کی سرگرمیوں میں سمینار، مباحثے، نمائشں اور بین الاقوامی اجتماعات شامل ہوں گے، جبکہ سمندر کے مرحلہ میں "انسدادِ بحری رہزنی، انسدادِ دہشتگردی، توپ چلانے اور تلاش اور بچاؤ کے مشنز میں تذویری داؤپیچ شامل ہوں گے"۔

تعاونِ باہمی کے ساتھ بحری سلامتی

مشاہدین کے مطابق، امن مشقوں کے آغاز ہی سے شرکت کرنے والے ممالک میں تیزی سے اضافہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے علاقائی امن و سلامتی کے لیے پاکستان کے عزم کی ستائش ظاہر ہوتی ہے۔

2007 کی مشقوں میں اٹھائیس ممالک نے شرکت کی، جبکہ رواں برس 45 ممالک شرکت کر رہے ہیں۔

بین الاقوامی تعلقات کے ایک کراچی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر، سلیم صدیقی نے کہا، "امن مشقوں میں شرکاء کی تعداد میں اضافہ بحرِ ہند کے علاقہ میں بحری سلامتی کو مستحکم کرنے کے لیے پاکستان کے جاری علاقائی اور بین الاقوامی اقدامات کی حمایت کے لیے ۔۔۔ خطہ کے ممالک کے جوش و ولولہ کا مظاہرہ ہے"۔

انہوں نے کہا، "شریک ممالک کے بحری عملہ کے مابین تجربات اور مہارتوں کا تبادلہ زیادہ جہازرانی والے علاقوں میں بحری رہزنی کے خدشہ کے خاتمہ کے لیے معاون ہے۔"

بین الاقوامی ایوانِ تجارت کے ساتھ منسلک ایک عالمی بحری ادارے انٹرنیشنل میری ٹایم بیورو (آئی ایم بی) کے مطابق،2020 میں بحری جہازوں پر ہونے والے بحری رہزنی کے حملوں میں 2019 کے مقابلہ میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔

آئی ایم بی نے 2019 میں بحری جہازوں کو ہدف بنانے والے بحری رہزنی اور ڈکیتی کے 162 واقعات کے مقابلہ میں 2020 میں 195 واقعات کی اطلاع دی۔

ریئر ایڈمرل اشرف نے کہا، "پاکستان ان گنت قربانیوں اور نقصانات کے ساتھ دہشت اور استبداد کی قوتوں سے لڑنے میں ثابت قدم رہا ہے۔"

انہوں نے کہا، "کوئی بھی ملک تنہا پہلے سے موجود متنوع خدشات یا روزانہ کی بنیاد پر نئے آنے والے خدشات سے نہیں نمٹ سکتا۔ لہٰذا اتحادی بحری سلامتی خطے میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے محور بن چکی ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500